یہ بات مشاہدہ سے ثابت ہے کہ افغانستان میں امریکہ اور
پاکستان کے مفادات یکساں ہیں۔ دونوں مذاکرات کے ذریعے امن چاہتے ہیں؛ تاکہ
خانہ جنگی نہ ہو۔ خطے کو استحکام کی ضرورت ہے اور دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ
دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔پاکستان اس بات کا خواہاں ہے کہ معاشی ترقی ہو۔
تجارت بڑھے اور وسطی ایشیائی خطے کے ساتھ روابط میں اضافہ ہو؛ تاکہ معیشت
کو بڑھاوا ملے۔ البتہ اگر افغانستان میں مزید خانہ جنگی ہوئی تو سب کا
نقصان ہو گا۔ہمارے وزیر اعظم صاحب افغانستان میں امن قائم کرانے کے علاوہ
اور کوئی لینا دینا نہیں ہے اور ان کی خواہش ہے کہ وہاں صرف افغان حکام کے
فیصلوں پر مبنی سیاسی اقدام اٹھائے جائیں تاکہ ملک میں امن قائم ہو۔جس کے
لیے پہلے امریکیوں کے ساتھ اور پھر افغان حکومت کے ساتھ طالبان کو مذاکرات
کی میز پر لانا ہوگا جس کے لیے پاکستان نے مؤثر سفارتی کوششیں کی بھی ہیں
اور کر بھی رہے ہیں۔لیکن پھر بھی اگر طالبان فوجی فتح کا اعلان کرنے کی
کوشش کرتے ہیں تو اس سے خونریزی کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جس
کو روکنا بہت مشکل ہوگا ۔اسی پریشانی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم
عمران خان صاحب نے افغانستان میں دیرپا امن قائم کرنے کے لیے جاری امن
مذاکرات میں ذاتی دلچسپی لی ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ امریکہ اس وقت افغانستان سے انخلا چاہتا ہے۔ البتہ
خطے میں اپنی موجودگی بھی برقرار رکھنا چاہتا ہے جس کے لیے اسے پاکستان کی
مدد کی ضرورت ہے۔
امریکہ کو فوجی اڈوں کی فراہمی سے اسلام آباد والوں نے انکار کر دیا جس پر
امریکی حکام کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان نے ایسا نہ کیا تو
افغانستان میں موجود مختلف گروہ پاکستان میں اپنی کارروائیاں بڑھا سکتے ہیں
جس کے لیے امریکہ کی موجودگی ضروری ہے۔البتہ پاکستان کو امریکہ کو اڈے دینے
سے بھی خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اندرونی ردِ عمل کا خدشہ ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اس حوالے سے قطعی انکار کیا ہے اور کرنا بھی
چاہیے تھا کیونکہ امریکہ جسے دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی طاقت حاصل ہے
وہ 20 سال افغانستان میں رہنے کے باوجود لڑائی نہیں جیت سکا تو پاکستان میں
اڈے قائم کر کے بھلا کیسے جیتے گا؟
یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ افغانستان کا مستقبل صرف افغان عوام کے لیے ہے اور
یہ فیصلہ صرف افغان ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے پاکستان کی کوششوں کو
کمزور نہ کیا جائے اور نہ ہی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جائیں،
لہذا پاکستان پر الزام تراشی بند کی جائے۔
|