چراغ سب کے بجھیں گے ، ہوا کسی کی نہیں

اسرائیل کے اندر ڈیڑھ سال کے اندر تیسرا انتخاب اپریل 2019میں منعقد ہوا ۔ اس میں بینی گینٹز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کو لیکڈ پر معمولی سبقت حاصل ہوگئی تھی اور وہ دونوں وزارت عظمیٰ کے دعویدار کی صورت میں آمنے سامنے آگئے تھے۔ ایسے میں کمال ہوشیاری مظاہرہ کرتے ہوئے یاہو نے گینٹز کے ساتھ الحاق کرکے حکومت بنالی اور دوسال بعد یعنی 2021میں ان کو نصف مدت کار کے لیے اقتدار سونپنے کا وعدہ کردیا لیکن اس سے قبل یہ ساجھے کی ہانڈی بیچ بازار میں پھوٹ گئی اور مارچ کے اندر انتخابات کا انعقاد ہوا ۔ اس دوران اپنا اقتدار بچانے کے لیے یاہو نے ایسی ایسی سیاسی قلابازیاں کھائیں کہ سرکس کا جوکر اور جنگل کے لنگور بھی شرما جائیں۔ کبھی تو وادیٔ اردن پر دعویٰ ٹھونک دیا گیا تو کبھی عرب ممالک تعلقات استوار کرکے اپنی شبیہ سدھارنے کی کوشش کی گئی۔ ایک طرف یروشلم کو دارالخلافہ بنانے کے لیے امریکہ کو راضی کیا گیا اور دوسری جانب انتخابی مہم میں عربی زبان کے اندر انتخابی بینرس لگوائے گئے اور اپنے بیٹے کے نام سے خود کو منسوب کرکے عربوں میں ابو یائر کے طور پر پیش کیا گیا لیکن سارے حربے ناکام رہے۔ اسرائیل کی حالیہ سیاسی کرونولوجی نہایت دلچسپ ہے۔

23؍ مارچ 2021کو پچھلے دوسالوں کا چوتھا انتخاب ہوا۔ اس میں نیتن یاہو کی لیکڈ پہلے کی بہ نسبت ۷ نشستیں گنوانے کے باوجود 30نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن گئی ۔ دوسرے نمبر پر آنے والی یائر لاپڈ کی پارٹی کا نام بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ یش آتد کے معنیٰ ہوتے ہیں کہ’جی ہاں ایک مستقبل ہے‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی عوام کے اندر اپنے مستقبل کے تعلق سے ایک بے یقینی کی کیفیت رونما ہوچکی ہے اور اس کا فائدہ اٹھانے کی خاطر ایک پارٹی وجود میں آگئی تاکہ عوام کی ڈھارس بندھے ۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے ۔ کئی دانشور بشمول معروف امریکی خارجہ سکریٹری ہنری کسنجر یہودی ہونے کے باوجود اس طرح کے اندیشے کا اظہار کرچکے ہیں۔ ۵؍اپریل کو نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ شروع ہوتا ہے اور ایک دن بعد صدر ریوین ریولن یاہو کو 28 دن کے اندر حکومت سازی کی دعوت دیتے ہیں ۔ اس کوشش میں ناکامی کے بعد 5؍مئی کو یائر لاپد کو اپنی قسمت آزمانےکا موقع دیا جاتا ہے۔ اس طرح نیتن یاہو کی ایوان اقتدار سے نکل کر جیل کی سلاخوں پیچھے جانے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔

اس دوران اچانک یاہو کی حامی یہودی انتہاپسند جماعتیں بہت زیادہ سرگرم عمل ہوجاتی ہیں اور وہ یومِ یروشلم کے جلوس کو مسلم محلوں میں لے جانے کا بلکہ مسجد اقصیٰ میں بھی اس کی تقریبات منعقد کرنے کا اعلان کردیتی ہیں ۔ اس طرح یاہو اور ان کے حواری ملک میں ایک اشتعال انگیز ہنگامی صورتحال پیدا کردیتے ہیں اور حماس کی جانب سے بیت المقدس کے تقدس کی خاطر راکٹ حملوں کا اعلان ہوجاتا ہے۔ اسرائیل کے سارے بڑے شہر ان حملوں کی زد میں آجاتے ہیں ۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں سفاکانہ بمباری کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ یاہو اس جنگ کو طول دینے کا عندیہ دے کر اقتدار کی تبدیلی کو منسوخ کرنے نلا واسطہ کوشش کرتے ہیں لیکن عوام کی داخلی ناراضی اور امریکہ کا بیرونی دباو انہیں 21؍ مئی کو جنگ بندی پر مجبور کردیتا ہے۔ اس آخری کوشش کے ناکام ہوجانے پر یاہو کے آنکھوں کا تارہ نیفتالی بیینٹ 30 ؍ مئی کو اپنی وفاداری بدل دیتا ہے اور 2؍ جون کی شب مدت عمل کے خاتمہ سے نصف گھنٹہ پہلے لاپد صدر سے مل کر حکومت سازی کا دعویٰ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ یاہو اس کو ایک خطرناک دائیں بازو کی حکومت قرار دیتے ہیں۔ 13؍ جون کو اسرائیلی ایوان پارلیمان میں نیتن یاہو کے تین تیرہ ہوجاتے ہیں اور اقتدار سے اس طرح بیدخل کردیئے جاتے ہیں جیسے ؎
خزاں میں چاک گریباں تھا میں بہار میں تو
مگر یہ فصل ستم آشنا کسی کی نہیں

اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد بن یامین نیتن یاہو نے عبرانی میں کشف و الہام کی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک خفیہ گروہ کی سازش کا شکار ہوگئے ہیں جو خیرکی بیخ کنی کرکے اس کو شر اور خطرناک چیز سے بدل رہاہے ۔ وہ قوم کے مقدر کی بابت خوفزدہ( فکرمند) ہوں ۔ یہ دراصل ایک نرگسیت ہے جس میں انسان کو اپنے آپ کوخودساختہ نجات دہندہ سمجھنے لگتا ہے اور اسے خود اپنی ذات کے سوا کسی میں کوئی قابلیت دکھائی نہیں دیتی۔ وہ اس خام خیالی کا شکار ہوجاتا ہے اس کے ہٹتے ہی چہار جانب تاریکی چھا جائے گی۔ یاہو ہمیشہ اپنے مخالفین کو حقیر سمجھ کر ان کو تقسیم کرکے شکست دینے میں یقین رکھتے رہے ۔ ان کی نظر میں اشتراکی یہودی قابلِ نفرت لوگ ہیں ۔ وہ عرب سیاستدانوں کو ممکنہ منافق و غدار اور دہشت گردوں کا ہمدرد گردانتے رہے ہیں۔ یاہو عوام کے اندر عدم تحفظ کا بے پناہ خوف پیدا کرکے خود کو ان کا عظیم طلسماتی محافظ بناکر پیش کرتے ہیں۔ یاہو کے نزدیک تشخص کی سیاست کو سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ اسی حکمت عملی سے وہ ۱۵ سالوں تک انتخاب جیتنے کے قابل ہوئے اور بی بی شہنشاہ کے خطاب سے نوازے گئے۔ مودی جی کا لقب بھی ہندو ہردیہ سمراٹ ہے ان دونوں کی نفسیات میں کوئی فرق نہیں ہےبلکہ ٹرمپ بھی اسی کی فوٹو کاپی ہے۔ ٹرمپ کے بعد یاہو کی شکست نے یہ ثابت کردیا کہ یہ سیاسی حربہ ایک حدتک کامیاب ہونے کے بعد اپنی چمک دمک کھو دینے کے بعد اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔

یاہو ، ٹرمپ اور مودی جیسے رہنما ہمیشہ قومی مفاد کی سب سے زیادہ دہائی دیتے ہیں ۔ اس کے بعد پارٹی اور آخر میں اپنی ذات کی بات کرتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ حالیہ انتخابی نتائج کو دیکھیں تو یاہو کے محاذ کو جملہ 52 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوگئی تھی اور ان کے مخالفین کے پاس ۵۱ نشستیں تھیں۔ نفتالی بینیٹ کا کہنا تھا کہ ان کی پہلی پسند یاہو کا محاذ ہے لیکن چونکہ وہ دوبارہ انتخاب نہیں چاہتے اس لیے بحالت مجبوری مخالفین کے ساتھ بھی جاسکتے ہیں۔ اس طرح یاہو کے پاس 59 نشستیں آگئیں۔ بائیں بازو کی ایک اور جماعت نئی امید کے نام سے ہے۔ اس کے رہنما گیڈیون سعر کا اصرار تھا کہ وہ بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے یاہو کی حمایت نہیں کرسکتے ۔ اس کا مطلب صاف تھاکہ اگر لیکڈ کسی اور کو وزیر اعظم کا امیدوار بنا دے تو وہ حمایت کریں گے۔ اس طرح بائیں محاذ کو 65؍ ارکان کی حمایت حاصل ہوسکتی تھی اور ہم خیال جماعتوں کی ایک مستحکم حکومت پورے پانچ سال چل سکتی تھی۔۔ ایسا کرنا ملک و قوم کے مفاد میں تھا لیکن جیل جانے سے بچنے کے لیے یاہو کرسی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ انہوں نے متحدہ عرب لیگ کے منصور عباس کی حمایت لینے کا ارادہ کیا تو انتہاپسند یہودی جماعتوں نے ساتھ چھوڑنے کی دھمکی دے دی۔

یاہو کو جب یقین ہوگیا کہ اب ان کے بغیر حکومت بن جائے گی تو انہوں نے آخری داوں یہ کھیلا کہ گیڈیون سعر کو پہلے سال کی خاطر وزارت عظمیٰ کی پیشکش کردی یعنی باقی عرصہ وہ خود وزیر اعظم بنیں گے۔ سعر نے اسے ٹھکرا دیا ۔ یائر لاپد نے نفتالی بینیٹ کو پہلے دوسال کے لیے یہ پیشکش کی جو انہوں نے قبول کرلی ۔ منصور عباس بھی اس حکومت میں شامل ہوکر نائب وزیر بن گئے ۔ اس ابن لوقت حکومت میں شامل بیشتر لوگ اس سے پہلے نیتن یاہو کی حکومت میں شامل رہے ہیں۔نیفتالی بینیٹ ان کے وزیر خزانہ تھے ۔ وزیر دفاع اور نائب وزیر اعظم یاہو کے ساتھ اسی عہدے پر تھے ۔ وزیر خارجہ کا بھی یہی حال ہے ۔ گیڈیون سعر نے اصرار کرکے وزیر انصاف کا عہدہ لیا ہے تاکہ نیتن یاہو کی گرفتاری کو یقینی بنایا جاسکے ۔ اس طرح ایک یاہو مخالف حکومت تو عالمِ وجود میں آگئی لیکن اس میں وہی تمام لوگ اہم ترین عہدوں پر فائز نظر آتے ہیں جو ان کے نورتن ہوا کرتے تھے۔ ان اقتدار کے بھوکے ۔موقع پرستوں پر اسی غزل کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
سب اپنے اپنے فسانے سناتے جاتے ہیں
نگاہ یار مگر ہم نوا کسی کی نہیں

اسرائیل کی موجودہ سرکار متضاد نظریات کے حامل لوگوں پر مشتمل ہے ۔ اسے دیکھ کر وہ محاورہ یاد آتا ہے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڈا ، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ اس ابن الوقت کنبے کی بنیاد یاہو دشمنی پر ٹکی ہوئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جس دن وہ جیل چلے جائیں گے تو کیا ہوگا؟ لیکڈ کو بحالتِ مجبوری نیا لیڈر منتخب کرنا پڑے گا اور اسی کے ساتھ وہ بنیاد ڈھے جائے گی جس پر یہ اتحاد قائم ہواہے۔ یعنی یاہو کو جیل بھیجنے کے بعد گیڈیون سعر کے پاس لیکڈ کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں بچے گا ۔ لیکڈ کا نیا رہنما بھی یہی چاہے گا کہ یاہو جیل کے اندر سڑے تاکہ اس کے لیے کوئی خطرہ نہ ہو۔ نیفتالی جب تک وزیر اعظم ہیں تب تک تو وہ اس اتحاد کے ساتھ رہیں گے اس لیے کہ مخالف محاذ میں انہیں یہ عہدہ نہیں ملے گا لیکن دوسال بعد جب وہ لاپد کے حق میں دستبردار ہوجائیں گے تو ان کے نزدیک اس محاذ میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگااور اسرائیل پھر ایک بار سیاسی خلفشار سے دوچار ہوجائے۔ فی الحال سبھی چاہتے ہیں کہ یاہو نامی برگدکا پیڑ گرجائے جو ان کو پنپنے نہیں دیتا تھا لیکن اس کے بعد سبھی ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوجائیں گے اور لڑ بھڑ کرخود تباہی کے دہانے پر پہنچا دیں گے ۔ مادہ پرستانہ تہذیب کا یہی انجام ہے ؎
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451119 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.