وطن عزیز میں مودی بھکتوں کے سارے دلائل جب بےوزن ہوجاتے
ہیں تو جھنجھلا کر کہہ دیا جاتا ہے ’آئے گا تو مودی ہی‘۔ یہ نعرہ جس شدو
مد کے ساتھ ہندوستان میں لگایا جاتا ہے اس سے زیادہ زور شور سے اسرائیل کے
اندر لگایا جاتا ہوگا جوبھی ہوجائے ’ آئے گا تو یاہو ہی‘۔ایسا کہنا درست
بھی ہے کیونکہ بن یامین نیتن یاہو کو اسرائیل میں سب سے طویل عرصہ تک وزیر
اعظم بنے رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے دو قسطوں میں جملہ پندرہ سال
حکومت کی لیکن اس کے باوجود اقتدار پر قابض رہنے کی ہوس ختم نہیں ہوئی
۔ہاہو نے استعفیٰ دیتے ہوے کہا میں بہت جلد لوٹ کر آوں گا۔ مہاراشٹر کے
سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فردنویس نے بھی ۵ سال سرکار چلانے کے بعد چور
دروازے سے صبح ۵بجے اجیت پوار کے ساتھ حلف برداری کی لیکن دال گلی نہیں ۔
اس کے دو دن بعد رسوا ہوکر استعفیٰ دیتے وقت ان کی زبان پر یہی الفاظ تھے
’میں یقیناً لوٹ کر آوں گا‘۔ مہاراشٹر کی سیاست کا یہ جملہ اب عام بول چال
کی زبان میں ایک مذاق بن چکا ہے۔ اس لیے کہ دوبارہ اقتدار میں لوٹنے کے
سارے چراغ بجھ چکے ہیں بقول احمد فراز؎
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
وزیر اعظم نیتن یاہو اور مودی جی اچھے دوست ہیں۔ ان دونوں کی عمر میں ایک
سال کا فرق ہے اور جس طرح مودی جی آزاد ہندوستان پیدا ہونے والے پہلے وزیر
اعظم ہیں اسی طرح قیامِ اسرائیل کے بعد جنم لینے والے اولین وزیر اعظم نیتن
یاہو ہیں۔ اس اشتراک کے علاوہ ان میں بہت کچھ مختلف ہے مثلاً یاہو اپنی
پارٹی کے صدر اور حزب اختلاف کے رہنما بھی رہے لیکن مودی جی کو یہ سعادت
نصیب نہیں ہوئی ۔ ذاتی زندگی میں یاہو نے چائے وغیرہ بیچنے اور مگر مچھ کو
اٹھاکر لانے جیسے کارنامے نہیں کیے۔ شادی کرنے کے بعد قومی مفاد کے نام پر
اپنی اہلیہ سےکنارہ کش ہوکر اسے لٹکا کر رکھنے کا جرم یاہو نے نہیں کیا ۔
یاہو نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں مگر پہلی دو بیویوں کو طلاق دے کر
آزاد کردیا ۔ تیسری بیوی کی بڑی بڑی حماقتوں کے باوجود اب ہنوز ساتھ ہے ۔
یاہو کے دو ناجائز تعلقات بھی منظر عام پر آئے مگر اسرائیل کی مادر پدر
آزاد معاشرت میں اس کو معیوب نہیں سمجھا گیا۔ اس کا اعتراف کرنے کے باوجود
وہ انتخابی کامیابیاں درج کراتے رہے۔ اس سے اسرائیلی سماج کے جنسی انحطاط
کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
نیتن یاہو کا بچپن اسرائیل اور امریکہ میں گزرا۔ انہوں نے مشہور زمانہ ایم
آئی ٹی سے ڈگری حاصل کی جو اصلی ہے۔ یاہو نے اسرائیل ڈیفنس فورس میں کام
کیا مگر چونکہ گجرات میں سیاست اور تجارت کے سوا کسی پیشے میں دلچسپی نہیں
لی جاتی اس لیے مودی جی نے فوج یا نیم فوجی دستوں کا رخ نہیں کیا۔ سیاست
میں یاہو کا داخلہ سال ۱۹۹۳ء میں لیکڈ پارٹی کے سربراہ اور حزب اختلاف
رہنما کے طور پر ہوا۔ ۱۹۹۶ میں وہ شیمون پیریس کو شکست دے کر اسرائیل کے سب
سے کم عمر وزیر اعظم بن گئےلیکن تین سال کے اندر ان کی سرکار گرگئی ۔ یاہو
کے پہلی بار اور آخری مرتبہ اقتدار سے بے دخلی کت اسباب میں کمال مماثلت
ہے ۔ اس وقت یاہو کے انتہا پسند حامی ان کی یاسر عرفات سے بات چیت کے بعد
ہیبرون میں مراعات دینے سے خفا ہوگئے تھے۔ اس بار بھی انہیں لوگوں نے منصور
عباس سے حمایت لینے کی مخالف کی ورنہ سرکار بن جاتی۔ دوسرا سبب ان پر لگنے
والا ایک لاکھ ڈالر کی گھپلے بازی کا الزام تھا اور اس بار بھی بدعنوانی کے
وجہ سے نئی امید پارٹی کے صدر گیڈیون سعر نے حمایت سے انکار کردیا ۔ یعنی
گزشتہ ۲۲ سال کے اندر اسرائیلی سیاست میں عربوں کے تعلق سے اور وزیر اعظم
کی بدعنوانی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔ کتے کی دم جیسی پہلے ٹیڑھی
تھی اب بھی ٹیڑھی ہی رہی۔
سن ۱۹۹۹ء میں یہود براک سے شکست کھانے کے بعد نیتن یاہو نے سیاست سے کنارہ
کشی اختیار کرکے ایک نجی کمپنی میں مستشار کا عہدہ سنبھال لیاتھا۔ حیرت کی
بات ہے کہ ۵۰ سال کی عمر میں جو شخص بہ آسانی سیاست چھوڑنے پر تیار ہوگیا
تھا وہ اب ۷۲ سال کی عمر میں اقتدار سے چپکا رہنا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ
ہے کہ بے شمار عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والا یہ شخص اپنی عمر کا آخری
حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا نہیں چاہتا۔ اسرائیل کی آپسی سیاسی سر
پھٹول کی وجہ سے سن ۲۰۰۰ میں یہود براک کو استعفیٰ دینا پڑا تو صرف وزیر
اعظم کا انتخاب ہونا تھا لیکن نیتن یاہو نے کہا مستحکم حکومت کی خاطر عام
انتخاب کرائے جائیں اور یہ وعدہ کیا کہ وہ وزیر اعظم کا عہدہ نہیں سنبھالیں
گے ۔ اس بار یہ حالت ہے کہ وہ جلد ازجلد دوبارہ وزیر اعظم کی کرسی سنبھالنے
کے لیے بے چین ہے۔ ایسا کیوں ؟ اس سوال کے جواب میں اسرائیلی قوم پر ستی
اور جمہوری سیاسی نظام کے بہت سارے راز پوشیدہ ہیں۔
اس وقت عملی سیاست سے کنارہ کشی کے سبب ان سے زیادہ سخت گیر اور کم مقبول
ایریل شیرون سن ۲۰۰۲ء میں وزیر اعظم بن گئے ۔ ایریل شیرون نے اقتدار
سنبھالنے کے بعد یاہو کو وزیر خارجہ کا عہدہ سونپ دیا ۔ سیاست میں واپسی کے
بعد نیتن یاہو نے ایریل شیرون کو لیکڈ پارٹی کی صدارت سے ہٹاکر خود اس پر
قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ اس آپسی رسہ کشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیرون
نے لیکڈ کو توڑ کر یاہو سے پیچھا چھڑانے کی خاطر قدیمہ پارٹی بناڈالی اور
اس کی وجہ سے یاہو سمیت لکڈ کو دس سالوں تک سیاسی بن باس لگ گیا۔ اس بار یہ
ہوا کہ شیرون کی طرح یاہو کے چہیتے مگرزیادہ سخت گیر اور کم مقبول نیفتالی
بینیٹ ساتھ چھوڑ کر وزیر اعظم بن گیا ۔ اس طرح پھر ایک بار یاہو کی حماقت
کے سبب لیکڈ اور یاہو کو پھر اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا نیز وہ وزیر اعظم
سے حزب اختلاف کے رہنما بنادیئے گئے۔ اس طرح تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے۔
ایریل شیرون نے اپنے رائے دہندگان کی خوشنودی کے لیے خود کو نیتن یاہو سے
زیادہ اسلام دشمن بناکر پیش کرنے کے چکر میں فلسطین پر مظالم بڑھا دیئے۔ اس
کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۰۰۰ سے ۲۰۰۵ کے درمیان دوسری تحریکِ انتفادہ چلی اور
اس کے نتیجے میں غزہ سے اسرائیلی تسلط کے خاتمہ ہوا ۔ ایریل شیرون سے یہ
توقع کسی کو نہیں تھی کہ وہ غزہ سے اپنی فوج بلا لے گا لیکن حماس کی مزاحمت
اورانتخابی کامیابی نے اسے مجبور کردیا۔ وہ شاید اسی کام کے لیے وارد
ہواتھا ۔ اس کے بعد ۲۰۰۶ میں شیرون بیمار ہوکر کوما میں چلا گیا اور یہود
اولمرٹ نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا۔ ۲۰۰۹ میں یوں تو قدیمہ کو لیکڈ
سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں مگر نیتن یاہو نے تگڑم بازی کرکے اپنی حکومت
بنالی اور وزیر اعظم بن گئے۔ اس کے بعد ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۵ میں وہ پھر سے کامیاب
ہوگئے لیکن ۲۰۱۹ میں گاڑی پھنس گئی کیونکہ کسی محاذ کو اکثریت نہیں ملی ۔
اس کے بعد دوسال تک اسرائیل زبردست سیاسی بحران کا شکار رہا اور اس عرصے
میں وہاں یکے بعد دیگرے چار بار الیکشن ہوئے اور ہر بار معلق ایوانِ
پارلیمان معارض وجود میں آئی ۔ اس نے اسرائیلی عوام کی سیاسی پختگی پر بھی
ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا۔ ان لوگوں پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں
یہاں خود اپنے لیے بھی دعا کسی کی نہیں
یہ حسن اتفاق ہے کہ پہلے امریکہ میں مودی جی کے قدامت پسند دوست ڈونلڈ ٹرمپ
شکست فاش سے دوچار ہوئے اور اس کے بعد نیتن یاہو بھی اسی انجام کو پہنچے ۔
اس فہرست میں بظاہر اگلا نمبر تو نریندر مودی کا ہی ہے نظر آتا ہے اور
بعید نہیں کہ ہندوستان میں نیفتالی بینیٹ کا کردار یوگی ادیتیہ ناتھ ادا
کرے۔ خیر ۲۰۱۴ میں انتخابی کامیابی کے بعد مودی کے پہلے دو ڈھائی سال تو
ٹھیک ہی گزرے ۔ اس کے بعد نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور رافیل بدعنوانی بدنامی
کا سبب بنی ۔ وہ اگر ۲۰۱۹ میں ہار جاتے تو کم ازکم ان پر کورونا سے نمٹنے
میں زبردست ناکامی کا الزام نہیں آتا۔ مغربی بنگال کی بھی بھیانک رسوائی
سے بچ جاتے ۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یوگی جیسا کٹھ پتلی بھی انہیں آنکھیں
دکھا سکتا ہے اور اپنی شبیہ بچانے کے لیے انہیں سنگھ کا محتاج ہونا پڑسکتا
ہے۔ چین ملک کی شمالی سرحد پر ۵۶ انچ والا سینہ پچک سکتا ہے۔ ۲۰۲۴ تک اور
بھی بہت کچھ ہوگا اوراگر وہ کافی ہوجائے گا تو مودی جی شکست کھانے کے بعد
جھولا اٹھا کرچل دیں گے ۔ بصورتِ دیگر پھر جیت کر اپنی سزا پوری کریں گے ۔
سچ تو یہ ہے کہ ٹرمپ اور یاہو کے انجام میں مودی اور ان جیسے لوگوں کے لیے
سامانِ عبرت ہے جو کہتے ہیں ’آئےگا تو مودی ہی‘۔
ٹرمپ کی ہار پہ سوگوار تھا میرا نمبر اب آیا
میری ہار پہ مودی چپ ہے اگلا نمبر اس کا ہے
|