امریکا در حقیقت پاکستان میں سی آئی اے کا ایک
سٹیشن قائم کرنے کا خواہشمند ہے جہاں سے وہ افغانستان کے حالات پر نظر رکھ
سکے ۔ امریکا افغانستان میں اپنی تاریخی شکست کے بعد اپنی فوجیں وہاں سے
نکال رہا ہے لیکن اس دوران اس کی کوشش ہے کہ کچھ ایسے حالات ضرور پیدا کر
دیے جائیں کہ جس سے افغانستان کے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے لئے
مشکلات پیدا ہوں۔ فرنٹ لائن اتحادی بن کر ہم نے امریکا کے لئے جو کچھ کیا
اس کے بدلے میں ہمیں بدامنی، دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کی سول
اور فوجی قیادت کو خوب اندازہ ہے کہ اس وقت امریکا کو ہوائی اڈے دینے کا
مطلب پاکستان کو ایک بار پھر اس بدامنی اور دہشت گردی کی طرف دھکیلنے کے
مترادف ہو گا جس سے ہم نے بہت قربانیوں کے بعد جان چھڑائی تھی۔ پاکستان کی
حکومت، حزب اختلاف اور اسٹیبلشمنٹ میں اس امر پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے
کہ ہم افغانستان کے حوالے سے کسی نئی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے ، کیونکہ
پاکستان مزید قربانیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کی طرف سے صاف انکار
کے بعد اب امریکا نے مشرقی وسطیٰ میں کسی جگہ اڈہ حاصل کرنے کی کوششیں شروع
کر دی ہیں۔
20 برس سر توڑ کوشش کے باوجود امریکا یہ بات منوا نہیں سکا کہ کابل پر
طالبان کا کنٹرول نہیں۔ اگر کابل پر طالبان کا کنٹرول قبول نہیں تو جا کیوں
رہے ہیں، درحقیقت امریکا اور غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا کا
فیصلہ ہی کابل پر طالبان کے کنٹرول کا اعلان ہے۔ پورے افغانستان کی اینٹ سے
اینٹ بجانے کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادی افغانوں کے جوش اور جذبہ شوق
شہادت کو شکست نہ دے سکے۔ طالبان کی فتح پر اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ،
بھارت سب خوف کی کیفیت میں ہیں۔ 150سے زائد اضلاع میں طالبان کا مکمل قبضہ
اور کنٹرول ہوچکا ہے اور کابل اب قریب ہی ہے ۔ آ ج جب طالبان فتح کے بالکل
قریب پہنچ چکے ہیں تو انہوں نے بھی فتح مکہ کی تاریخ کو دہرایا ہے اور
معافی مانگنے والے تمام افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے ۔ جس
پرلاکھوں افراد معافی طلب کرکے طالبان کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ اوراپنا
اسلحہ بھی انہوں نے طالبان کے پاس جمع کرا دیا ہے اور اپنے ہتھیار پھینک
دیے ہیں۔ طالبان کے اس رویے کے بڑے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ افغان افواج
کے دستے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے طالبان کی فوج میں شامل ہو رہے ہیں اور
24 سو افغان فوجیوں کی طالبان میں شمولیت نے تو کایہ ہی پلٹ دی ہے ۔ افغان
فورسز کی کمر ٹوٹ چکی ہے، امریکا کی جانب سے چھوڑے جانے والے اسلحہ اور بیس
کیمپ پر طالبان کا قبضہ ہو رہا ہے۔
افغانستان میں نیٹو فورسز نے ٹنوں کے حساب سے بارود اور بم، میزائل ان نہتے
لوگوں پر برسائے ۔ کون سا اسلحہ، میزائل اور بم ہے جو یہاں برسایا نہیں گیا۔
نیٹو افواج کی وحشیانہ بمباری کی وجہ سے آ ج پورا افغانستان کھنڈرات میں
تبدیل ہوچکا ہے ۔ لاکھوں افراد اس جنگ میں شہید ہوئے لاکھوں ہی زخمی اور
معذور ہوئے ۔ صرف پاکستان میں ہی30لاکھ افغان مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔
مگر اس سب کے باوجود ریگن، بش، بل کلنٹن، اوباما، جارج بش، ٹرمپ کے بعد
جوبائیڈن تک سب کے سب ناکام اور نامراد ثابت ہوئے ہیں، طالبان کی فہم اور
فراست نے آج اسلام دشمن قوتوں کو ذلت آ میز شکست سے دوچار کر دیا ہے ۔
امریکا کو ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد اس بات کا بھی پتا چل گیا ہے کہ دنیا
سے بڑی سے بڑی قوت مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو شکست نہیں دے سکی۔ غیر ملکی
افواج جب افغانستان میں موجود نہیں ہوں گی تو یہاں امن کا قیام یقینی
ہوگااور اسلامی ریاست بھی قائم ہوگی۔ اوروہ وقت بھی دور نہیں جب ایک ایسا
نظام حکومت قائم کیا جائے گا جہاں حاکمیت اعلیٰ قرآن وسنت کی ہوگی اور پوری
دنیا کے سامنے افغانستان میں ایک ایسا انقلابی نظام عملی طور پر نافذ العمل
کر کے دیکھایا جائے گاجہاں زکوٰۃ باٹنے والے تو موجود ہوں گے لیکن زکوٰۃ
لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ افغانستان میں ایک ایسی اسلامی ریاست جہاں حقیقی
عدل کا نظام اور سرمایہ دارانہ نظام کے بجائے مدینے کا نظام قائم ہوگا اور
اس کے اثرات پورے خطے میں محسوس ہونگے ۔ اسلامی ریاست کسی مذہب اور کسی
تہذیب کے خلاف نہیں بلکہ یہ تو امن اور آشتی کا پیغام دیتی ہے ۔اقلیتوں اور
خواتین کو جیتنے حقوق دین اسلام نے دیئے ہیں کسی بھی مذہب نے نہیں دیے۔
اسلامی ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے ہی اسلام کے اصل دشمن ہیں۔
افغانوں کی ہمت اور جرأت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، انہوں نے ہر دور میں ظلم
اور طاغوت کو للکارا ہے اور دشمنوں کو شکست فاش دی ہے ۔ افغانوں نے یہ جنگ
بھی اپنے عزم ولولے ، استقامت سے جیتی ہے اور ان کی لازوال قربانیوں کے
نتیجے میں آج پوری دنیا ان کے آگے سرنگوں ہوگئی ہے تواس کے پیچھے ان کا شوق
شہادت ، اور وہ جذبہ ایمانی ہے جس نے دنیا کی تمام ٹیکنالوجی اورہتھیاروں
کو شکست فاش دے دی ہے ۔ افغانستان کے بلندوبالا پہاڑ بھی آج اس عظیم الشان
کامیابی اور کامرانی پر خوشی سے جھوم اور مسکرا رہے ہوں گے ۔ جہاد
افغانستان کے شہدا بھی مطمئن ہوں گے کہ اﷲ نے ان کی قربانی کا ثمر دے دیا
ہے ۔ افغانوں نے بھی پوری دنیا کے فرعونوں اور طاغوتی قوتوں کو واضح پیغام
دیا ہے کہ افغانستان پر پنجہ آزمائی کرنے والے اپنے سر افغانستان کے پہاڑوں
پر مار مار پر انہیں پھاڑ توسکتے ہیں لیکن افغانوں کو شکست نہیں دے سکتے ۔
اس وقت طالبان کو بھی جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا ہو گا اور انہیں اپنے
دوست اور دشمن میں تمیز کرنا ہوگی۔ جبکہ ایران، پاکستان اور ترکی کو مل کر
افغانستان کی بحالی کے لیے کام کرنا ہوگا، کیونکہ ایک مضبوط اور خوشحال
افغانستان پورے خطے کے لیے ناگریز ہے ۔
|