امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ نے 3جولای بروز جمعہ
کو ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ہے جسمیں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے افغانستان
آنے کے لگ بھگ 20 سال بعد صدر بائیڈن کے اعلان کے مطابق افواج کا انخلا
مکمل ہونے کے قریب ہے۔ جب کہ امریکہ کی فوج دارالحکومت کابل اور دارالحکومت
میں بین الاقوامی ہوائی اڈے پر تعینات رہے گی۔رپورٹ کے مطابق امریکی حکام
کا یہ کہنا تھا کہ امریکہ کی فوج کے اہلکاروں کی اکثریت اور ساز و سامان کا
بڑا حصہ افغانستان سے نکالا جا چکا ہے۔ جب کہ رواں سال اپریل میں اعلان
کردہ ستمبر کے اوائل کی ڈیڈ لائن سے قبل ہی اگست کے اختتام تک انخلا کا عمل
مکمل کر لیا جائے گا۔دوسری طرف صدر جو بائیڈن سے جب امریکہ میں روزگار سے
متعلق رپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے افغانستان کی صورتِ حال پر سوال کیا گیا تو
صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ توقعات کے مطابق درست راستے پر گامزن ہیں۔
جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ اس جنگ میں 20 برس سے تھا۔ انہوں نے اس
اقدام کو ’منطقی‘ قرار دیتے ہوئے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ خوش گوار
چیزوں کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔افغانستان کے متعلق سوال پر انہوں نے
برہمی کا اظہار کیا تھا‘البتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکی فوج
کے انخلا کے بعد زمینی صورتحال قابو میں نہیں رہے گی۔امریکی حکام نے بھی
اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی فوج میں کمی کیے جانے کے بعد
زمینی صورتِ حال خراب ہو گئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی کا جمعہ 3 جولائی کو صحافیوں سے گفتگو
میں کہنا تھا کہ صدر جو بائیڈن بہت عرصے سے یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں
جنگ فوج کے ذریعے نہیں جیتی جا سکتی۔ اور یہ رائے امریکہ کے شہریوں کی بڑی
تعداد اور رہنماؤں کی بھی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انخلا سے قبل کیے گئے اندازوں میں بعد کی صورتِ حال
سے متعلق قیاس آرائیاں نہیں کی گئی تھیں۔جنگوں سے متعلق جریدے وائڈ آف
امریکہ کی رپورٹ میں‘فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز’کے مبصرین کی رائے
کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کا
عمل شروع ہونے کے بعد تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔امریکی ماہرین کا یہ بھی خیال
ہے کہ طالبان نے ملک کے متعدد اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے اور طالبان کے زیرِ
کنٹرول علاقوں میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔افغان حکومت اور طالبان حکام کے
دعوؤں کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد ہلاکتوں میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا
گیا ہے۔
امریکی حکام نے وائس آف امریکہ کو 3 جولائی کو تصدیق کی کہ امریکی اور
اتحادی افواج نے بگرام ایئر فیلڈ افغان فورسز کے حوالے کر دی ہے۔کابل کے
شمال میں 60 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع بگرام ایئر بیس طالبان کو اقتدار سے
ہٹانے اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف استعمال ہوتی رہی
ہے۔پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی کا جمعے کو کہنا تھا کہ بگرام ایئر
بیس گزشتہ 20 برس سے فراہم کی جانے والی فضائی مدد کا مرکز تھا۔امریکی
فورسز کابل میں سفارت کاروں کی حفاظت، افغان سیکیورٹی فورسز کی رہنمائی اور
القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف واشنگٹن کی معاونت کے لیے موجود رہے
گی۔
بگرام ایئربیس خالی۔انخلا کی جانب ایک بڑا قدم۔ امریکہ میڈیا کی رپورٹ کی
مطابق نیٹوفورسز نے افغانستان میں سب سے بڑا بگرام ائیر بیس مکمل طور پر
خالی کردیا ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق 20سال بعد امریکہ نے بگرام ائیر بیس
افغانستان کے حوالے کردیا دیا ہے۔ امریکا 300 سی 17 ٹرانسپورٹ طیاروں کے
ذریعے اپنا فوجی ساز و سامان پہلے ہی افغانستان سے نکال چکا ہے۔مئی 2021
میں امریکہ نے جنوبی افغانستان میں قندھار ایئر فیلڈ سے بھی انخلا کومکمل
کیا تھا جو دوسرا سب سے بڑا غیر ملکی فوجی اڈہ تھا۔امریکی فوجی جو سامان
ساتھ نہیں لے جا رہے، اسے طالبان سے بچانے کیلیے تباہ کردیا گیا ہے۔بگرام
ایئربیس پر20سالوں میں طالبان نے کئی حملے کیے جن میں 15امریکی فوجی بھی
ہلاک ہوئے۔ یہ ایئربیس امریکی اور نیٹو افواج کے زیر استعمال رہنے والا سب
سے بڑا فوجی اڈہ ہے، جو 1980 کی دہائی میں سابق سویت یونین نے تعمیر کیا
تھا۔امریکا نے 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت پر
حملوں کے ردعمل میں افغانستان میں جنگ شروع کی تھی۔ سابق صدر جارج ڈبلیو بش
نے افغانستان میں پہلے فضائی حملوں کا حکم دیا تھا اور پھر انھوں نے
افغانستان میں زمینی فوج اتار دی تھی۔ اس جنگ کو اس سال اکتوبر میں بیس سال
پورے ہوجائیں گے۔افغانستان میں 25 ہزار امریکی فوجی اور 16 ہزار سول
کنٹریکٹر شامل تھے۔ افغانستان سے تمام امریکی فوجی اس سال 11 ستمبر کو نائن
الیون حملوں کے بیس سال مکمل ہونے سے پہلے پہلے نکل جائیں گے۔
جرمن فوج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہوگیا ہے۔ نیٹو اتحاد کے تحت جرمنی
افغانستان میں امریکہ کے بعد سب سے بڑا فوجی دستہ رکھنے والا دوسرا ملک
تھا۔ جرمنی کے افغانستان میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوجی تعینات تھے۔جنگجو اور
عسکریت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں 59 جرمن فوجی ہلاک ہوئے یہ جرمنی کا
دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سب سے مہلک فوجی مشن تھا۔
قطر معاہدے کے مطابق امریکی افواج نے افغانستان سے انخلا کا سلسلہ شروع کر
دیا ہے۔دنیا کے تمام دارالحکومتوں میں اس حوالے سے دلچسپی دیکھی جا رہی
ہے۔تجزیہ نگار یہ بات سن کر عورت سے کہہ رہے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلاء
کے بعد افغانستان کے حالات کو پرامن اور معمول پر رکھنا ایک مشکل ٹاسک
ہوگا۔افغانستان کے طول و عرض میں طالبان کی صف بندی ایک مرتبہ پھر نئے سرے
سے ہو رہی ہیں۔افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اس کے مستقبل
کے بارے میں عالمی سطح پر یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا افغان طالبان
دوبارہ وہاں قابض ہونے والے ہیں اور کیا وہاں دوبارہ 90 کی دہائی والے
حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں؟یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا
ستمبر میں مکمل ہونا ہے لیکن اس سے پہلے ہی یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مختلف
صوبوں میں افغان فوج اور پولیس کے یونیفارم میں ملبوس سرکاری دستے طالبان
کمانڈروں کے سامنے ہتھیار پھینک کر انکے ساتھ وفاداری کا اعلان کر رہے
ہیں۔ہر دوسرے دن افغانستان سے افغان طالبان کے مختلف صوبوں کا کنٹرول لینے
کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ افغان حکومت کا کنٹرول روز بروز کمزور ہوتا جارہا
ہے بلکہ بعض مقامات پر تو ان کی نااہلی کھل کر سامنے آ رہی ہے۔بین الاقوامی
مبصرین یہ بات تسلسل سے کہہ رہے ہیں کہ امریکی فوج کی موجودگی کے بغیر
افغانستان کی سول حکومت اتنی طاقت نہیں رکھتی کہ وہاں کے تمام صوبوں پر
اپنی رٹ قائم کر سکے۔ان حالات میں افغان عوام کے ذہنوں میں مختلف سوالات
جنم لے رہے ہیں اور پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ایک مرتبہ پھر افغانستان خانہ
جنگی کا شکار ہوجاے گا؟ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی میں بیس سال
سے جاری جزوی ترقی کا عمل رک جاے گا؟ کیا خانہ جنگی کے سبب ایک مرتبہ پھر
افغانستان سے بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی پر مجبور ہوجایں گے؟ اور
اگر افغانستان میں سیاسی عدم استحکام کی لہراء تو اس کے پاکستان پر کیا
اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ سوال بھی ہنوز جواب طلب ہے کی غیر ملکی فورسز کے
انخلا کے بعد افغانستان میں قوت حاکمہ کس کے پاس ہوگی،اقتدار اور طاقت کے
مراکز پر کون قابص ہوگا، کیا طالبان اور افغان حکومت مفاہمت کے تحت معاملات
حال کرلیں گے یا یہ خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کریں گے؟
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ماضی کی مثالیں سامنے ہیں جب روس کے افغانستان سے
چلے جانے کے بعد حالات کسی کے قابو میں نہیں رہے تھے اور مجاہدین آپس میں
لڑنے لگے تھے۔ ایسے حالات میں عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ جانی نقصان
زیادہ ہوتا ہے اور ملک کا انفرا سٹرکچر بھی تباہ ہوتا ہے۔غیر ملکی افواج کے
انخلاء کے بعد کیا ہو سکتا ہے اور اس کے افغانستان اور پڑوسی ممالک پر کیا
اثرات پڑ سکتے ہیں، یہ جانچنے کے لیے پہلے افغانستان کی موجودہ صورت حال کا
جائزہ لینا ضروری ہیزرائع کے مطابق اس وقت افغانستان میں خوف کی فضا پائی
جاتی ہے۔عوام اور خواص ایک انجانے خوف میں مبتلا ہیں۔ماضی کے حالات کی
روشنی میں مستقبل ایک ڈراؤنے خواب کی مانند معلوم ہوتا ہے۔ انخلا سے پہلے
افغانستان میں کسی حد تک سیاسی سطح پراستحکام پیدا ہو گیا تھا، ترقیاتی کام
جاری تھے اور ملک کو ایک سمت کا تعین ہو گیا تھا، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ
سب کچھ پھر سے ماضی کی طرف سفر شروع ہوگیا ہو۔ترقی معکوس کا یہ خوف شعوری
اور لاشعوری طور پر افغانستان میں محسوس ہوتا ہے۔ ماضی میں افغانستان میں
مختلف دھڑوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں تو پورا ملک انکی لپیٹ میں
آگیا تھا۔۔ قطر کے شہر دوحہ میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان
کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے جاری ہے۔ افغان طالبان کے
سیاسی دفتر کے ترجمان کے مطابق ان مذاکرات کے لیے وقت کا تعین ان کے فوکل
پرسنز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ان مذاکرات کی تفصیل سامنے نہیں لائی جا
رہی۔ایک طرف یہ مذاکرات ہو رہے ہیں تو دوسری جانب افغانستان میں افغان
طالبان اور افغان حکومت کی فورسز کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہو
رہی ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے حلف اٹھانے کے بعد افغانستان سے امریکی فوج کے
انخلا کا اعلان کیا تھا اور اسکے لیے 11 ستمبر کی حتمی تاریخ بھی طے کردی
تھی۔انخلا کے اعلان کے بعد انخلا کا آغاز اس سال یکم مئی سے ہو چکا ہے۔
مبصرین کے مطابق گیارہ ستمبر کا اعلان امریکہ نے نائین الیون کی مناسبت سے
کیا ہے۔ اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد
افغانستان میں حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔افغانستان میں موجودہ صورتحال یہ ہے
ملک میں ایک حد تک کشیدگی ضرور ہے لیکن تاحال کسی بڑی جھڑپ کی اطلاع نہیں
ملی افغان طالبان کی پیش رفت جاری ہے۔ طالبان نے مختلف صوبوں میں اضلاع کے
دیہی علاقوں کا کنٹرول حاصل کیا ہے اور ان میں بیشتر وہ علاقے ہیں جہاں
طالبان پہلے سے موجود تھے۔ افغان حکومت کے فوجی بعض علاقوں میں پیچھے ہٹے
ہیں اور انیوں نے ہتھیار بھی ڈالے ہیں جس سے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
مفاہمت کے تحت فوجیوں نے کچھ علاقے طالبان کے آنے پر خالی کیے ہیں تاکہ
انسانی جانوں کا نقصان نہ ہو۔ زرائع کے مطابق افغان فورسز کے پاس فضائی
حملوں کی صلاحیت ہے لیکن موجودہ صورتحال میں منصوبہ سازوں نے یہی مشورہ دیا
ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ جنگ کرنے سے حالات خراب ہو سکتے ہیں اور حکومت
اپنے شہریوں اور فوجیوں کا نقصان نہیں چاہتی، اس لیے اب تک کسی بھی علاقے
سے کسی بڑے حملے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ 2001 میں افغانستان پر قبضے کی جنگ میں امریکہ طالبان کو ہرانے
میں ناکام رہا جس کے بعد دونوں فریقین میں ایک امن معاہدہ ہوگیا۔ امریکہ
اور افغان طالبان کے درمیان یہ امن معاہدہ فروری 2020 میں قطر کے
دارالحکومت دوحہ میں طے ہوا تھا اور اس پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کا
فیصلہ بھی ہوگیا تھا اور اسکی تمام جزئیات طے کر لی گیئں تھیں۔ یعنی قیدیوں
کی رہائی، بین الافغان مذاکرات، افغانستان کے بارے میں کسی یورپی ملک میں
مذاکرات اور غیر ملکی افواج کے انخلا کا ٹائم فریم تک طے کر دیا گیا تھا۔
طالبان کی نئی صف بندی : ایک طرف تو امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات
جاری تھے تو دوسری طرف طالبان بھی نء صف بندی میں مصروف ہوگیے۔اس کا عکس
پاکستان میں یوں نظر آیا کہ پاکستان کی سطح پر کالعدم تنظیم تحریک طالبان
پاکستان کے مختلف دھڑوں کے درمیان بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشنز اور قائدین کی ہلاکت کی
وجہ سے تنظیم مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی لیکن پھر ان دھڑوں کو یکجا
کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں۔
اگست 2020 میں جماعت الاحرار اور حزب الاحرار نے تحریک طالبان پاکستان میں
ضم ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔یہ دھڑے اپنے اپنے طور پر شدت پسندی کی
کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اس
انضمام کے موقع پر بیان جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا کہ‘جماعت الاحرار
کے سربراہ عمر خالد خراسانی اور حزب الاحرار کے امیر عمر خراسانی نے تحریک
طالبان پاکستان کے امیر ابو عاصم منصور کے ساتھ ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتے
ہوئے اپنی سابقہ جماعتوں (جماعت الاحرار اور حزب الاحرار) کے خاتمے کا
اعلان کیا اور اس بات کا عہد کیا کہ ان کی جماعتیں تحریک طالبان پاکستان کے
شرعی اصولوں کی پابند ہوں گی۔اس انضمام کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں
میں تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا جن میں سیکیورٹی فورسز پر حملے اور
ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات زیادہ ہوئے ہیں۔
نئی افغان صورتحال کے پاکستان پر اثرات۔ افغانستان کے اندرونی حالات جو بھی
کروٹ لیں،کوی بھی دھڑا طاقت کے سنگھاسن پر بیٹھے،یا عالمی سطح پر جیسی بھی
افغان پالیسی سامنے اے، اس کے اثرات ہمسایہ ممالک خاص طور پر پاکستان پر
ضرورت پڑتے ہیں۔ادھر پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ
افغان طالبان کے مذاکرات کار‘امن عمل میں سہولت کاری’کے لیے پاکستان آتے
ہیں اور پاکستان اُن کے ساتھ اسی مقصد کے لیے مل کر کام کر رہا ہے۔افغان ٹی
وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ یہ تاثر عام ہے کہ
افغانستان میں پاکستان کی توجہ صرف ایک مخصوص دھڑے پر ہے لیکن ایسا نہیں
ہے، بلکہ پاکستان سب کے ساتھ دوستی چاہتا ہے۔جب اُن سے پوچھا گیا کہ طالبان
مذاکرات کار نے عوامی طور پر یہ کہا کہ وہ مشاورت کے لیے پاکستان جا رہے
ہیں، ملّا عبدالغنی برادر کئی مرتبہ پاکستان آئے ہیں اور وہ کوئٹہ بھی جاتے
رہے ہیں، تو اس پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایسا‘امن عمل میں سہولت
کاری’کے لیے ہوا ہے۔’وہ افغانستان میں ہیں۔ آپ کو اُن کے ساتھ مل کر کام
کرنا چاہیے۔ ہم مدد کرنے اور تعمیری کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے
ہیں۔’تاہم اس دوران پاکستان میں ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ
افغانستان میں طالبان کی حکومت واپس آنے سے پاکستانی طالبان بھی واپس آ کر
مضبوط ہوں گے جس سے دہشت گردی میں اضافہ ہوجائے گا۔موجودہ غیر یقینی حالات
میں بھی بیشتر مبصرین اور تجزیہ کار اس بارے میں متفق ہیں کہ غیر ملکی
افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان پر بھی اس کے اثرات ہوں گے
لیکن ان اثرات کی شدت کا اندازہ لگانا ابھی ممکن نہیں اور نہ ہی یہ کہا جا
سکتا ہے کہ کتنے علاقے متاثر ہو سکیں گے اس بارے میں متضاد رائے سامنے آ
رہی ہے۔
غیر ملکی اخبارات میں شائع ہونے والے بعض مضامین سے یہ تاثر ملتا ہے کہ غیر
ملکی افواج کے انخلا کے بعد امکان ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو
اور اس کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں مختلف گروہ
اپنی اپنی پوزیشن بھی مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔زرائع کے مطابق
افغانستان میں سب سے بڑا گروہ افغان طالبان کا ہے اور اب اس وقت طالبان
کابل کے قریب اپنی پوزیشن مستحکم کر رہے ہیں لیکن بظاہر ایسا نظر نہیں آتا
کہ طالبان کابل پر حملہ کر سکیں گے۔افغان طالبان کے علاوہ دیگر گروہ جیسے
القاعدہ اور داعش سے تعلق رکھنے والے شدت پسند بھی انھی علاقوں میں متحرک
ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کا کہنا ہے کہ جہاں تک
پاکستان پر اس کے اثرات کا تعلق ہے تو پاکستان حکومت کی کوشش ہوگی کہ اس کے
اثرات کم سے کم سامنے آئیں اور اس کے لیے گذشتہ پانچ سال سے اس کی تیاری کی
جا رہی ہے جس میں پاک افغان سرحد پر خار دار تار لگائی جا رہی ہے۔ اس کے
علاوہ قبائلی علاقوں میں ایف سی آر کے قوانین ختم کرکے ان علاقوں کا انضمام
صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ کر دیا گیا ہے جس کے بعد ملک کا قانون وہاں
نافذ ہوگیا ہے۔ ان اقدامات سے پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوگی۔برگیڈئر محمود
شاہ نے مزید کہاکہ طالبان افغانستان میں اقتدار میں آتے ہیں یا نہیں یہ
ابھی واضح نہیں ہے لیکن یہ بات معلوم ہے کہ افغان طالبان افغانستان کے ان
علاقوں میں مضبوط ہیں جو پاکستان کی سرحد کے قریب واقع ہیں۔ ان کا کہنا تھا
کہ افغان طالبان پاکستانی طالبان کی ان پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتے جس کے
تحت پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہیاور بار بار افغان طالبان
نے پاکستان طالبان کو تشدد کی کارروائیوں سے روکنے کی کوشش کی ہے۔
بریگیڈئیر محمود شاہ کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے اندر تشدد کے جو واقعات پیش
آتے ہیں ان میں بیشتر کے پیچھے مبینہ طور پر افغانستان کی خفیہ ایجنسی این
ڈی ایس اور بھارت ملوث ہوتے ہیں۔ لہازا اگر‘افغان طالبان مضبوط ہوتے ہیں تو
یہ کارروائیاں نہیں ہو سکیں گی۔
|