گاندھی جی پر ناتھو رام گوڈسے نے جب وہ گولی چلائی تو
انہوں ’ہے رام‘ کہہ کر دم توڑ دیا ۔ اس مطلب یہ تھا کہ اب جلد یا بہ دیر
ہندوستان میں راون راج آہی جائے گا ، اس لیے اس دن کی بنیاد پڑ گئی تھی ۔
گاندھی جی کا اندازہ درست تھا لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ ملک میں راون کا
راج ’اچھے دن ‘ کے بھیس میں آئے گا ۔ رامائن میں بھیس بدلنا بڑی اہمیت کا
حامل ہے۔ راون نے جب سیتا کو اغوا کرنے کا ارادہ کیا تو مریچانامی راکشش کے
پاس گیا۔وہ بھیس بدلنے میں مہارت رکھتا تھا ۔راون اس کو اپنے منصوبے میں
شامل کرکے گوداوری کے کنارے پنچوٹی لے آیا ۔ اس کے بعد مریچا ایک نہایت
خوبصورت ہرن کا بھیس بدل کرسامنے آیا۔ اس کو آپ آر ایس ایس کا ہندوتوا
سمجھ لیں۔ سیتا نے اسے دیکھ کر رام سے اس کا شکار کرنے کے لیے کہا ۔ سیتا
کی حفاظت کے لیے لکشمن کو گھر پر چھوڑ کر رام شکار کے لیے نکل کھڑے ہوئے
حالانکہ لکشمن بھی وہ شکار کرسکتے تھے خیر اس دیومالائی داستان کے مطابق جب
رام نے ہرن پر تیر چلایا تو وہ رام کی آواز میں لکشمن اور سیتا کو مدد کے
لیے بلانے لگا جیسے سنگھ پریوار آئے دن ہندو خطرے میں ہے کی دہائی دیتا
رہتا ہے ۔
اس پکار کو سن کر سیتا نے لکشمن کو اپنے بھائی کی تلاش میں بھیجا ۔ لکشمن
نے گھر کے چاروں طرف ایک ریکھا(لکیر) کھینچی اوربھابی کو یہ ہدایت کرکے نکل
گئے کہ آپ اس کے باہر نہ نکلنا کیونکہ کوئی اس کے اندر نہیں آسکے گا۔ اب
راون بھکشو کا بھیس بدل کر نمودار ہوگیا ۔ ہمارے پردھان سیوک بھی ہر الیکشن
میں نیا بھیس بدل لیتے ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور والا کردار اب بے فائدہ
ہوگیا اور ان کی داڑھی آہستہ آہستہ مختصر ہونے لگی ہے۔ خیر راون نے صدا
لگائی بھکشا دے دو جیسے آج کل نیتا لوگ ووٹ دے دو کی رٹ لگائے رہتے ہیں ۔
سیتا نے گھر کے اندر سے بھکشا دی تو وہ ناراض ہوکر واپس جانے کی اداکاری
کرنے لگا جیسے ٹیلیویژن کے پردے پر آنسو بہا جاتے ہیں ۔ سیتا نے سوچا ایک
لمحہ کے لیے باہر جاکر بھکشا دے دینے میں کیا حرج ہے۔ فوراً لوٹ آوں گی ۔
پھر کیا تھا راون بھی مودی جی کی مانند ہندوستانی جمہوریت کو لے کر فرار
ہوگیا۔ ہندوستان کی عوام نے فریب آکرایک دن ووٹ کیا دیا کہ ایک سیاسی نظام
کو اغوا کرکے یرغمال بنالیا گیا۔ گاندھی جی کے ’ہے رام ‘ کی کہانی کا اس
طرح ’رام نام ستیہ ہوگیا‘۔
یہ باتیں تو زیب داستاں کے لیے تھیں اب آئیے اصل مدعا یعنی رام کے نام پر
چل رہے رئیل اسٹیٹ گھوٹالوں کی طرف۔ بابری مسجد کے حق میں عدالت عظمیٰ نے
سارے شواہد تسلیم کیے۔ اس نے مانا کہ وہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں
بنائی گئی تھی ۔ اس میں مورتیوں کو رکھنا غلط فعل تھا ۔ مسجد کے اندر
سرکاری پابندی کے وقت تک نماز ہوتی تھی ۔ اس کا انہدام جرم عظیم تھا ۔ اس
کے باوجود ہندووں کی شردھا’عقیدت ‘ کی بنیاد پر مسجد کی جگہ ہندووں کے
حوالے کردی گئی ۔ اس کے بعد ساری دنیا کے سامنے عقیدت کی پول کھلنا شروع
ہوگئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آس پاس کے مندر برضا ورغبت اپنے دیواستھان
مندر ٹرسٹ کو دان یعنی خیرات کردیتے لیکن اچانک رام بھکتوں کی شردھا نہ
جانے کہاں غائب ہوگئی اور وہ اسے بڑھا چڑھا کر اونچی قیمت پر فروخت کرنے
لگے ۔ عام ہندووں نے سوچا ہمارے درھرماچاریہ اس بدعنوانی کی گنگا میں ڈبکی
لگارہے ہیں تو وہ خود اپنی زمین مندر کو وقف کرنے بجائے مہنگے داموں پر
بیچنے لگے۔ سرکاری افسران اور سیاستدانوں کو خیال ہوا ہم کیوں پیچھے رہیں۔
انہوں نے اپنا کمیشن رکھ زمین کے بھاو اور بڑھا دیئے ۔ ان سارے پاپیوں کے
پاپ ڈھوتے رام کی گنگا کو بدعنوانی کے نالے نے میلا کردیا ۔
یہ کوئی خیالی الزام نہیں ہے بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ اس کا ایک پہلو تو یہ
ہے کہ ایودھیا میں جس زمین کو رام مندر کے لیے تحویل میں لیا جارہا ہے اس
کے ذمہ داروں کو منہ مانگی قیمت چکائی جارہی ہے نیز متبادل گھر یا مندر
بنانے کے لیے جگہ بھی دی جارہی ہے ۔ رام مندر ٹرسٹ پر اس وجہ سے دوہری مار
پڑ رہی ہے۔ زمین دینے والے سنتوں مہنتوں نے قیمت کی وصولی تو تسلیم کی مگر
اس میں پوری شفافیت کی بات کرتے ہیں۔ ظاہر ہے روپیہ لینے کے بعد حزب اقتدار
پر الزام تراشی بے حد مشکل ہوجاتی ہے اور ایسی جرأت مظاہرہ کم لوگ کرپاتے
ہیں ۔ فقیرے رام مندر کے مہنت رگھویر شرن داس سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے
اپنا مندر کیوں بیچ دیا تو وہ کہتے ہیں مندر فروخت نہیں منتقل کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ فقیرے رام مندر جیسے کئی مندر دوسری جگہ منتقل ہوسکتے ہیں
رام جنم بھومی مندر کیوں نہیں ؟ بابری مسجد کو رام کی جائے پیدائش ثابت
کرنا ویسے بھی ناممکن ہے ۔ اس لیے بابری مسجد سے ہٹ کر کہیں اور وہ مندر بن
جاتا تو بکھیڑا کیوں کھڑا ہوتا ؟ اس وقت تحریک چلانے کامقصد اقتدارکا حصول
تھا اور اب مندر بنانے کی غایت اقتدار کو بچانا ہے۔
کوشلیا بھون مندر کے مہنت یشودہ نندن نے کہا کہ ان کے ساتھ کوئی زور
زبردستی نہیں کی گئی۔ اس کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ جب بیٹھے بٹھائے چار کروڈ
روپئے مل گئے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا ہاں اگر وہ مندر دینے سے انکار
کرتے تو زبردستی کی نوبت آتی ۔ ایک مندر دشرتھ گدی نام سے ہے ۔ اس کے مہنت
برج موہن داس کی ۲۶ بسوا زمین کے عوض ۷ کروڈ ۳۵ لاکھ کی خطیر رقم دی گئی
جبکہ اس زمین کی سرکاری قیمت صرف ایک کروڈ ۱۳ لاکھ بنتی ہے۔ برج موہن داس
نے مندر سےمتصل ۱۶ بسوا کھیت کے ۵ کروڈ وصول کرلیے جبکہ اس کی قیمت ۷۰ لاکھ
بنے گی ۔ اسی شخص نے اس سے ملحق ۵ بسوا زمین ایک کروڈ ۷۵ لاکھ میں بیچ دی
جبکہ اس کی قیمت تقریباً ۲۲ لاکھ ہونی چاہیے ۔ اتنا کچھ مل جانے کے باوجود
مہنت برج موہن کو انتظامیہ سے شکایت ہے کہ ان کی ۱۰ بسوا زمین کا معاوضہ ۲۰
لاکھ روپیہ دشرتھ محل کے مہنت دیویندر پرساد آچاریہ کو دے دیا گیا جو ان
کی حق تلفی ہے ۔ یہ تو ہے رام مندر سے متعلق عقیدت کا بے مثال مظاہرہ ۔
برج موہن داس کے اس دعویٰ کو مہنت دیویندر پرساد آچاریہ مسترد کرتے ہوئے
کہتے ہیں یہ زمین ۱۸۶۵ ء سے ان کے آباو اجداد کے نام درج ہے لیکن سوال یہ
ہے کہ دیویندر پرساد اچاریہ کو ۱۰ بسوا زمین کے لیے صرف ۲۰ لاکھ اور مہنت
برج موہن کو ۵ بسوا کے لیے ایک کروڈ ۷۵ لاکھ ؟ آخر یہ اتنا بڑا فرق کیوں
ہے؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ مندروں کا معاملات تو خطۂ اراضی کےحق ملکیت کے
شواہد کی بنیاد پرسلجھائے جاتے ہیں مگر مسجد کی بات آتے ہی درمیان عقیدت
چلی آتی ہے۔ رام مندر زمین کی بابت بدعنوانی کا بھانڈا سب سے پہلے
سماجوادی پارٹی کے سابق رکن اسمبلی پون پانڈے اور عام آدمی پارٹی کے رکن
پارلیمان سنجے سنگھ نے اٹھایا کہ دس منٹ میں ایک زمین دو کروڈ سے ساڑھے
اٹھارہ کروڈ کی کیسے ہوگئی؟ ایک ہی دن میں دونوں اندراج ہوئے اور اس میں
گواہ مشترک تھے۔ گواہوں میں سے ایک مندر کے ٹرسٹی انیل مشرا اور دوسرا بی
جے پی کا میئررشی کیش اپادھیائے تھا ۔ اسی کے گھر پر سودہ طے پایا۔ اس لین
دین میں سلطان انصاری کے ساتھ روی موہن تیواری کو پارٹنر بنایا گیا وہ میئر
کا رشتے دار ہے۔
اس قدر واضح ثبوت کے باوجود ٹرسٹ کے سیکریٹری نےچمپت رائے نے کمال ڈھٹائی
کا مظاہرہ کرتے دھمکی آمیز میں انداز میں سنجے سنگھ اور پون پانڈے کو
ڈرانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں ڈرے۔ اسی کے ساتھ ہر روز نت نئے معاملات
سامنے آنے لگے ۔ رام مندر تعمیراتی ٹرسٹ کے صدر مہنت شری نریتیہ گوپال داس
نے بھی ٹرسٹ کے داخلی اور ٹرسٹ کے طریقۂ کار پر سوالات اٹھائے ، رام للا
مندر کے پچھلے پچیس سال سے پجاری ستیندر داس نے بھی تحقیقات کا مطالبہ
کردیا ۔ سنت گیان داس نے ۱۰۰ سادھو سنتوں کا اجتماع کرکے تحقیق و تفتیش کا
مطالبہ کیا ۔ یہ سب لوگ چاہتے ہیں تحقیق و تفتیش کے دودھ کا دودھ اور پانی
کا پانی کردیا جائے ۔ الزامات اگر درست ہیں تو رام کے نام پر چندہ چوری
کرنے والوں سزا دی جائے ورنہ الزام لگانے والے کارروائی کی جائے ۔ رام مندر
کی تحریک کے دوران سنگھ پریوار نے رام راج کے جو حسین خواب دکھلائے تھے ان
کی تعبیر اتنی بھیانک ہوگی یہ تواس کے کٹر ّسےکٹرّ دشمن نے بھی نہیں
سوچاتھا خیر یہ تو بس ایک جھانکی ہے پوری پکچر باقی ہے یعنی بقول میر تقی
میر ؎
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|