جنوبی ایشیا اس وقت بڑی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے ۔افغانستان
میں امریکی افواج کے انخلاء کے اعلان کے ساتھ ہی افغانستان میں صورتحال پھر
سے بد تر ہوتی جارہی ہے ۔ تاجکستان سے ملحقہ سرحد پر طالبان نے اپنا کنٹرول
مکمل کر لیا ہے ، قندوز سمیت بڑے شہر طالبان کے محاصرے میں ہیں ، جبکہ بہت
سے صوبوں پر طالبان کا قبضہ مکمل ہوچکا ہے ۔امریکہ ایک بار پھر انارکی کے
عروج پر افغانستان سے انخلاء چاہتا ہے ۔ اس کی غیر واضح اور مبہم پالیسی کی
بدولت افغان حکومت سخت پریشانی کا شکار ہے ۔ افغان صدر اشرف غنی اور عبداﷲ
عبداﷲ کا امریکہ دورہ کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ امریکہ سے آئندہ
لائحہ عمل پر کوئی نیا وعدہ لینا چاہتے تھے لیکن امریکہ کی اپنی خواہش کے
باوجود وہ اس بات کا حتمی فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ اسے کس حد تک افغانستان
میں اپنا وجود برقرار رکھنا ہے ۔ طالبان کے مسلسل بڑھتے قدموں نے افغان
سیکورٹی فورسز کی تربیت کا پول بھی کھول دیا ہے ۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ
افغان سیکورٹی فورسز بھی اپنی حکومت پر اعتماد نہیں کر پارہے اورشاید یہی
وجہ ہے کہ وہ طالبان کا نہ صرف استقبال کررہے ہیں بلکہ اپنے اہم مراکز اور
اسلحہ بھی ان کے حوالہ کرکے گھروں کو واپس روانہ ہورہے ہیں ۔ افغانستان میں
موجود وارلارڈز بھی طالبان سے لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ افغان فورسز کو
اس وقت کہیں بھی فضائی حملوں کے ذریعے مدد نہیں مل رہی جس کی وجہ سے ان کا
مورال مسلسل کم ہورہا ہے ۔ خود افغان حکام کے مطابق طالبان کابل سے صرف چند
منٹوں کی مسافت پر ہیں ۔طالبان بھی شاید ابھی شہروں پر مکمل کنڑول کرنے کے
لیے امریکی افواج کے مکمل انخلاء کا انتظار کررہے ہیں اس لیے بڑے شہروں کا
محاصرہ کرنے کے باوجود وہ شہروں میں داخل نہیں ہورہے ۔ یہ تصویر کا ایک
پہلو ہے جو اس وقت میڈیا میں پیش ہو رہا ہے تصویر کا دوسرا رخ میڈیا شاید
اس طرح سے نہیں دکھا رہا ۔ کابل سمیت کئی شہروں میں مسلح شہریوں کی جانب سے
طالبان کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں مظاہروں کی تصاویر سے دیکھا جا سکتا
ہے کہ ان کے پاس مشین گنیں ، راکٹ لانچر اور دیگر اسلحہ موجود ہے ۔ ان کا
کہنا ہے کہ وہ اب دوبارہ طالبان کو بذور طاقت قبضہ کرنے نہیں دیں گے ۔
افغانستان میں موجود دیگر قومیتیں بھی طالبان کی حکومت آسانی سے تسلیم نہیں
کریں گی ۔ شمالی اتحاد سے وابستہ کمانڈر اور جنگجو جب طالبان کے خلاف
مزاحمت کا آغاز کریں گے توکئی وارلارڈز اور نسلی و لسانی گروپ بھی اپنے حق
کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں ان حالات میں عام افغان شہری بڑی تعداد میں ملک سے
انخلاء کر سکتے ہیں بلکہ کئی جنگجو افراد بھی وقتی طور پر پسپائی کی حکمت
عملی اپنا سکتے ہیں ان دونوں صورتوں میں ایک بڑا نتشار پاکستان کی سرحد پر
دستک دے رہا ہے ۔افغانستان سے ملحقہ دیگر ممالک کی طرف یہ رجحان بہت کم ہو
گا ۔شاید کچھ ہزارہ افراد کی جانب سے ایران کا رخ ہو لیکن ایران اس سلسلہ
میں پہلے ہی بہت محتاط اقدامات اٹھا چکا ہے ۔ لہذٰا سارا بوجھ پاکستان کی
سرحد پر ہی ہو سکتا ہے۔
اسی طرح کشمیر کے حالات میں کسی طرح کی بہتری نظر نہیں آرہی ۔ بھارت کی طرف
سے یکطرفہ کشمیری خودمختاری کے اقدامات کو ختم کرنے کے بعد جس تحریک کا
آغاز ہوا تھا وہ ختم ہوتی نظر نہیں آرہی ۔ اگرچہ بھارتی وزیر اعظم نریندرا
مودی کی مخصوص بھارت نواز کشمیری رہنماؤں کی ملاقات کا کوئی خاطر خواہ
نتیجہ سامنے نہیں آسکا لیکن یہ واضح ہے کہ اس نے5اگست سے پہلے کا سٹیٹس
بحال کرنے سے انکار کیا ہے ۔پاکستان اس مسئلہ میں بھی براہ راست فریق ہے
اور وزیر اعظم واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان بھارت کے تعلقات اس
اقدام کے خاتمہ کے بعد ہی آگے بڑٖھائے جاسکتے ہیں اور اس کی بحالی تک بات
چیت بھی ممکن نہیں ہے۔ کرونا وباء کے پیش نظر پاکستان سمیت تمام جنوبی
ایشیا ئی ممالک معاشی اعتبار سے بہت نیچے درجے پر جا رہے ہیں ایسے میں
پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کا مکمل ہونا بھی ایک بڑا
اہم سنگ میل ہے ۔ پاکستان کو جن معاشی مسائل کا سامنا ہے وہ کسی حد تک ان
منصوبوں سے ختم ہو سکتے ہیں تاہم یہ تبھی ممکن ہے جب افغانستان اور کشمیر
میں کسی حد تک امن بحال ہو جائے گا۔ ان اہم اور سنگین مسائل کی موجودگی میں
یہ ضروری تھا کہ سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے حکومت ، اپوزیشن اور
افواج مل کر کسی اہم فیصلہ پر پہنچتی۔ یہ فیصلہ کسی بھی سیاسی مفاد یا
سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ ملک کی سلامتی کے متعلق تھا اور جب تک یکجہتی کے
ساتھ ان چیلنجز سے نبٹنے کے لیے کوئی متفقہ فیصلے نہیں کیے جاتے اس وقت تک
ان سے نبٹنا بہت مشکل ہے۔ ایسے وقت میں ملک کی فوجی قیادت کی جانب سے تمام
اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینا سیاسی کشیدگی کی انتہا کے دوران ایک
خوشگوار ہوا کا جھونکا محسوس ہو رہا ہے ۔
پالیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا ان کیمرہ اجلاس تقریبا ًآٹھ گھنٹے سے
زائد جاری رہا جس میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل لیفٹیننٹ فیض حمید نے ملک کی
پارلیمانی و سیاسی قیاد ت کو ملک کی داخلی سلامتی ، خارجہ امور اور خطے میں
وقع پذیر ہونے والی تبدیلوں پر بریفنگ دی جس سے تقریبا تمام رہنما مطمئن
نظر آئے ۔ ذرائع اور خود کئی سیاسی رہنماؤں کے مطابق اس طویل اجلاس میں
ذیادہ گفتگو افغان تنازع، امن بات چیت ، پاکستان کے کردار اور امریکی افواج
کے انخلاء کے بعد کی صورتحال پربات چیت ہوئی ۔ اسی حوالہ سے رہنماؤں کو یہ
بھی بتایا گیا کہعسکری قیادت آئندہ کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے
افغانستان کی سرحد پر پیدا ہونے والے خطرات سے بالکل آگاہ ہے بلکہ اس وقت
افغان سرحد پر باڑ کا کام بھی نوے فیصد مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ تجارتی
معاملات کو کنٹرول کرنے اور افغان شہریوں کی آمد روفت کے حوالہ سے بھی ایک
موثر نظام تشکیل دیا جا چکا ہے۔اس اجلاس اور بریفنگ کی سب سے اہم بات یہ ہے
کہ کم از کم اپوزیشن کی تمام جماعتیں عسکری قیادت اور کردار سے مطمئن نظر
آئیں۔ یقینی طور پر یہ ایک اہم پیش رفت ہے اور نہ صرف سیاسی طور پر اس کی
بہت اہمیت ہے بلکہ عالمی سطح پر ایک بہت مثبت پیغام ہے ۔ اس کا کریڈٹ عسکری
قیادت کے ساتھ ساتھ یقینی طور پر ہماری اپوزیشن کو بھی جاتا ہے ۔ اس کے
ساتھ ساتھ وزیراعظم کا اس بیٹھک میں نہ ہونا بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ یہ
درست ہے کہ وزیراعظم اپوزیشن رہنماؤں کے حوالہ سے ایک رائے رکھتے ہیں لیکن
جب بات ملکی سلامتی کی آئے تو اپنی ضد ، انا کو قربان کر دینا چاہیے ۔ کبھی
کبھی یہ ثابت کرنا ضروری ہوتا ہے کہ پاکستان ہم سب سے اہم ہے ۔ وزیراعظم
گلگت بلتستان کے اجلاس میں بھی غائب تھے ، فیٹف کے موقع پر دی گئی بریفنگز
میں بھی شرکت نہیں کی ۔جب وزیراعظم کی تقریر کے لیے اتفاق ہو سکتا ہے اور
حکومتی عہدیدار اور اپوزیشن رہنمااس بات پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ وزیراعظم
کی تقریر کے دوران وہ احتجاج نہیں کریں گے اور اس کے جواب میں وزیراعظم بھی
کرپشن کے خلاف اس انداز سے نہیں بولیں گے جس طرح ان کا عام انداز ہے تو پھر
ملک کی داخلہ و خارجہ سلامتی ان مسائل سے ذیادہ اہم ہے ۔ وزیراعظم کو قوم
نے ایک بڑے عہدے پر بٹھایا ہے اس لیے ملکی سلامتی کے معاملات میں ان کا دل
بھی اتنا ہی بڑا ہونا چاہیے ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس وقت درست سمت میں
جارہی ہے ۔موجودہ حکومت سلامتی مسائل پر بالعموم اور افغان مسئلہ پر
بالخصوص کسی تذبذب کاشکا ر نہیں ہے اور بڑا واضح موقف رکھتی ہے اس کے لیے
یہ بھی ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے ۔ ملک میں
پارلیمنٹ سپریم ہوگی تو ملک کی ترقی کا رخ بھی درست سمت رہے گا۔
|