صدر ممنون حسین

جناب ممنون حسین اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔ممنون حسین پاکستان کے ان سیاسی رہنماؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی ایک ہی جماعت کے ساتھ بسر کی۔وہ شرافت و دیانت کا پیکر تھے۔عملی زندگی میں وہ انتہائی کم گو انسان تھے۔لیکن جب بھی گفتگو کرتے انتہائی نپی تلی اور با معنی اور با مقصد ہوتی۔وہ تعلقات بنانے اور قائم رکھنے میں بھی ایک خاص طرح کی کا سوچ اور فکر رکھتے تھے۔ان کا حلقہ احباب زیادہ وسیع نہ تھا لیکن دوستوں سے ان کا تعلق تھا وہ تا دم مرگ اسی طرح گزرا جس طرح آج سے کئی سال پہلے تھا۔منصب صدارت پر پہنچنے کے بعد بھی ان کی شخصیت کا یہ پہلو ہمیشہ نمایاں رہا۔ہمارے خاندان کے ساتھ ان کا تعلق انتہائی قریبی تھا۔صدر منتخب ہونے کے بعد مجھے کئی مرتبہ ان سے ملاقات کا موقع ملا لیکن میں نے ان کی شخصیت میں کوئی بدلاو نہ دیکھا۔وہ نہایت شفیق،مہربان،خوش اخلاق اور خدا ترس انسان تھے۔بطور صدر انہوں نے کئ لوگوں کی خاموشی سے مدد کی ۔

صدر ممنون حسین بنیادی طور پر ایک کاروباری شخصیت تھے اور اپنے کام سے کام رکھنے والے آدمی تھے۔وہ ذاتی زندگی میں انتہائی سادہ انسان تھے

صدر ممنون حسین ان سیاسی رہنماؤں میں سے ایک تھے جن کا کتاب اور مطالعہ کے ساتھ بھی گہرا شغف تھا،انکی گفتگو سے مطالعہ کی خوشبو آتی تھی۔قومی اور بین الاقوامی تاریخ پر ان کی گہری نگاہ تھی۔پاکستان کی ترقی کے حوالے سے وہ خاص ویژن رکھتے تھے۔وہ پاکستانی تہذیب اور ثقافت سے جڑے ہوئے انسان تھے۔وہ قدیم تہذیبی روایات قائم رکھنے کے قائل تھے۔وہ جدید ترقی کے تو حامی تھے لیکن جدید اخلاقی نظریات سے وہ کلی اتفاق نہ رکھتے تھے۔وہ خاندانی نظام کے حوالے سے بھی اپنی ایک الگ رائے رکھتے تھے۔جب بھی طلبا و طالبات کا کوئی وفد ان سے ملاقات کے لئے جاتا تو وہ ان کو اپنی زمین سے جڑی روایات کے ساتھ تعلق قائم رکھنے پر زور دیتے۔
انکی وفات سے پاکستان ایک مدبر راہنما سے محروم ہوگیا ہے
ابتدائی حالات۔
صدر ممنون حسین ملک کے بارہویں صدر تھے۔وہ سنہ 1940 میں انڈیا کے شہر آگرہ میں پیدا ہوئے، پاکستان کے قیام کے بعد کئی دیگر خاندانوں کی طرح ان کا خاندان بھی نقل مکانی کرکے پاکستان آ گیا۔پاکستان آنے کے بعد ان کے خاندان نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور یہیں پر اپنی تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع کیا۔اپنی ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی۔سکول اور کالج کی تعلیم کے دوران وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں کم ہی حصہ لیتے تھے البتہ پڑھائی کی طرف توجہ ہوتی تھی۔
انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی سے گریجویٹ کیا اور پھر اپنے کاروبار سے منسلک ہوگیے۔کاروبار کے ساتھ ساتھ وہ عام لوگوں سے اس انداز میں مختلف تھے کہ وہ پاکستان کے سیاسی حالات پر گہری نگاہ رکھتے تھے اور سیاسی حالات سے قطعاً لاتعلق نہ رہتے۔انہوں نے ہجرت کا غم اٹھایا تھا اور اور مسلم لیگ کے ساتھ ان کی محبت اسی وجہ سے تھی کہ اس نے پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا اس لئے وہ شروع دن سے ہی مسلم لیگ کے ساتھ ایک خاص رشتہ محبت رکھتے تھے۔اگرچہ اس دور میں انہوں نے کبھی عملی سیاست میں حصہ نہیں بھیجا تھا تاہم انہیں جب بھی ووٹ کے اختیار کا موقع ملا انہوں نے مسلم لیگ کے امیدوار کو ووٹ دیا۔ ممنون حسین کہتے تھے کہ سیاسی طور پر وہ سنہ 1970 سے مسلم لیگ سے منسلک رہے۔۔مسلم لیگ نون کے ساتھ بھی ان کے تعلق کی وجہ یہ تھی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ میاں نوازشریف کی قیادت میں ہی پاکستان مسلم لیگ نون اپنا موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔لیکن وہ مسلم لیگ کے نمایاں رہنماؤں میں شمار نہیں ہوتے تھے۔اس دور میں سندھ مسلم لیگ کا نمایاں چہرہ سید غوث علی شاہ،جناب الہی بخش سومرو،حلیم عادل شیخ اور دیگر راہنما تھے۔ممنون حسین کبھئ بھی نمایاں راہنما نہ رہے۔سنہ 1993 میں جب پاکستان کے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کی تو ان دنوں ہی ممنون حسین شریف خاندان کے قریب پہچنے اور بعد میں وہ مسلم لیگ سندھ کے قائم مقام صدر سمیت دیگر عہدوں پر فائز رہے۔ممنون حسین سنہ 1997 میں سندھ کے وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی کے مشیر رہے، سنہ 1999 میں انہیں گورنر مقرر کیا گیا، مگر صرف چھ ماہ بعد ہی میاں نواز شریف کی حکومت کا تخہ الٹ گیا اور وہ معزول ہوگئے۔گورنری سے معزول ہونے کے بعد وہ چپکے سے اٹھے اور جامعہ کلاتھ مارکیٹ میں واقع اپنی دکان پر آکر بیٹھ گئے اور کاروبار کا دوبارہ سے آغاز کر دیا۔ان کی عدم موجودگی میں اگرچہ ان کے صاحبزادوں نے کاروبار سنبھال لیا تھا تاہم وہ بھی اس معاملے میں پیچھے نہ رہے اور اپنا وقت دوبارہ دکان اور کاروبار پر صرف کرنے لگے۔کراچی کے علاقے جامع کلاتھ مارکیٹ بندر روڈ پر ممنون حسین کپڑے کی تجارت کرتے رہے ہیں، اسی علاقے میں ان کا گھر بھی تھا بعد میں وہ ڈیفنس میں منتقل ہوگے۔1999 کے بعد مسلم لیگ پر کڑا وقت آیا۔میاں نواز شریف اور ان کے خاندان پس دیوار زنداں چلا گیا،یہی وہ وقت تھا جب وہ پہلی مرتبہ شریف فیملی کے نزدیک آئے۔گندرو میاں نواز شریف کراچی کی ایک جیل میں بند تھے تب صدر ممنون حسین ان کی ذاتی ضروریات کا خیال رکھنے میں پیش پیش رہتے۔اس طرح انہوں نے مسلسل محنت اور رابطے کے ساتھ میاں نواز شریف کے دل میں جگہ بنا لی۔مسلم لیگ کی صف اول کی قیادت نے شاید ان کو کبھی قائد یا رہنما تسلیم نہ کیا لیکن نواز شریف نے ان کو اپنے دل میں بٹھا لیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب وہ صدرِ پاکستان منتخب ہوگئے۔میاں نواز شریف کے دورِ اسیری اور جلاوطنی کے بعد مسلم لیگ نواز کے احتجاج میں ممنون حسین شاذو نادر ہی نظر آتے تھے، ان کا کردار انتہائی غیر متحرک رہا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ شخصی طور پر احتجاج کا مزاج رکھنے والے آدمی ہی نہ تھے۔بلکہ وہ ہر معاملے میں گفتگو اور ڈائلاگ کے قائل تھے۔اس لیے انہوں نے نعرے تو نہ لگائے البتہ خاموشی سے میاں نواز شریف کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔سندھ میں مسلم لیگ نواز کے رایمن میں سید غوث علی شاہ، الہی بخش سومرو، سلیم ضیا، سردار رحیم اور علیم عادل شیخ شامل تھے

پھر وقت نے پلٹا کھایا علیم عادل شیخ مسلم لیگ ق میں چلے گئے، سردار رحیم نے مسلم لیگ فنکشنل میں شمولیت اختیار کی اور الہی بخش سومرو نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔یوں ممنون حسین مسلم لیگ پہلے درجہ کی قیادت میں جگہ بنا سکے۔

میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ممنون حسین دوبارہ منظرِ عام پر آئے، انھیں مسلم لیگ نواز کے جلسے اور جلوسوں میں انتہائی کم گو دیکھا گیا ان کی تقریر سیاست کی بجائے میاں نواز شریف کی شخصیت کے گرد گھومتی تھی

تجزیہ نگاروں کا یہ ماننا ہے کہ یہ ان کے کیریئر کا فیصلہ کن دور تھا اور صدارت کے منصب کے لیے نامزدگی کو دراصل 1999 میں مسلم لیگ (ن) کے لیے مشکل دور میں شریف خاندان سے وفاداری کا صلہ قرار دیا گیا، البتہ مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد عام طور پر پارٹی میں زیادہ متحرک نظر نہیں آتے تھے۔

2002 میں ممنون حسین نے کراچی کے حلقہ این اے-250 سے الیکشن لڑا لیکن وہ ناکام رہے۔

2013 میں جب نواز شریف نے ان کا ایوان صدر کے لیے امیدوار کے طور پر انتخاب کیا تو وہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے اور سندھ میں ٹیکسٹائل کا کاروبار چلا رہے تھے۔ سیاسی تجزیہ کاروں اور سول سوسائٹی کا ماننا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ان کی تقرری پیپلز پارٹی اور دیگر افراد کے مطالبے کو مدنظر رکھتے ہوئے کی تھی جو مسلم لیگ پر زور دیتے تھے کہ وہ اعلیٰ عہدوں پر تقرری کے لیے صوبہ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں کے لوگوں کو بھی موقع دیں۔
ممنون حسین نے کہا تھا کہ میرا تعلق کراچی سے ہے، اگر میرا انتخاب ہوا تو میں سندھ کے مسائل حل اور کراچی میں امن کی بحالی کی کوشش کروں گا، سندھ میں ترقی کا آغاز ہوگا۔
نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ممنون حسین کی نامزدگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جو 'غیر متنازع' ہے۔
ممنون حسین 30 جولائی 2013 کو پاکستان کے 12 ویں صدر منتخب ہوئے تھے اور بحیثیت صدر غیرجانب داری کا تاثر دینے کے لیے انتخابات کے نتائج کا اعلان ہونے کے فوراً بعد ہی مسلم لیگ (ن) کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
ممنون حسین نے بحیثیت صدر اپنی پانچ سالہ میعاد 8 ستمبر 2018 کو مکمل کی تھی
ممنون حسین کے صدارتی انتخاب میں کل 1174 اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں میں سے 1123 اراکین ووٹ ڈالنے کے اہل تھے جن میں سے 887 اراکین نے ووٹ ڈالے۔
انتخابی نتائج کااعلان چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت 50 نشستیں خالی ہیں۔
صدارتی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممنون حسین اور تحریک انصاف کے امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہواچیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم انتخابی عمل میں ریٹرننگ آفیسر کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ سمیت چاروں صوبائی ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پریذائیڈنگ آفیسر کے فرائض سرانجام دیتے رہے
اس انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار میاں رضا ربانی تھے تاہم پاکستان پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کیا اور صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔
مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے 446 کے ایوان میں 277 ووٹ جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کو 34 ووٹ ملے۔
قومی اسمبلی کی 16 نشستیں خالی تھیں ۔بلوچستان اسمبلی میں کل 65 میں سے 56 ووٹ ڈالے گئے جن میں سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممنون حسین نے 55 ووٹ حاصل کئے جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار کو ایک ووٹ ملا۔پنجاب اسمبلی میں کل 371 اراکین میں سے 339 نے ووٹ ڈالا جبکہ کل 65 ووٹوں میں سے یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممنون حسین کو 54 اور تحریک انصاف کے امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین کو 4 ووٹ ملے۔
اسی طرح سندھ اسمبلی میں سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممنون حسین کو 25 ووٹ ملے جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین کو 2 ووٹ ملے۔
خیبر پختونخوا سے تحریک انصاف کے امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کو 36 ووٹ ملے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممنون حسین کو 21 ووٹ ملے۔
اس طرح چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے 706 کے الیکٹورل کالج میں سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممنون حسین 433 ووٹ لے کر دو تہائی اکثریت سے کامیاب قرار پائے-
وہ پاکستان کے 13 ویں صدر مملکت منتخب ہوئے۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو مسلم لیگ (ن) کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علماء اسلام (ف)، مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیپلز پارٹی، فاٹا سے آزاد اراکین نے ووٹ دیا جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار کو تحریک انصاف کے علاوہ جماعت اسلامی کے اراکین نے بھی ووٹ دیا۔
مغربی رسومات کے مخالف۔
،صدر ممنون حسین پاکستانی ثقافت سے جڑے ہوے شخص تھے۔وہ پاکستان کی تہذیبی روایات کو فروغ دینے کے قائل تھے۔مغرب سے درآمد شدہ رسم و رواج کو اپنے ملک میں رائج کرنے کے حق میں نہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ فروری 2016 میں ممنون حسین نے ویلنٹائن ڈے کو اسلام اور پاکستانی ثقافت کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے نہ منانے کی اپیل کی تھی۔انہوں نے اسلام آباد میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے صدرِ پاکستان کا کہنا تھا کہ ویلنٹائن ڈے مغرب کی ثقافت کا حصہ ہے اسلام اور پاکستانی ثقافت میں اسے منانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
بطور صدر کارکردگی۔
پاکستان میں منصب صدارت آئینی اور دستوری عہدہ ہے۔ اس کو انتظامی طور پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔صدر ممنون حسین بھی اپنے آئینی دائرہ کار میں محدود رہے۔اور کبھی بھی اپنے حدود سے تجاوز نہ کیا۔ان کی خاموشی کے متعلق طرح طرح کے قصے مشہور کیے گئے۔لیکن انہوں نے کبھی ان کا جواب نہ دیا۔وہ حکومت کے ہر فیصلے کی تائید کرتے۔اور کسی فیصلے کے ساتھ اختلافی نوٹ تک لکھنے کا موقع نہ آیا۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو وہ چوہدری فضل الہی اور جناب رفیق تارڑ کے عہد صدارت کا تسلسل معلوم ہوتے تھے۔نہ کسی سے کچھ کہتے تھے نہ کسی سے کچھ سنتے تھے۔ایسے شریف نفس اور کم گو صدر پاکستان کی تاریخ میں خال خال ہی گزرے گی۔ان کے منصب صدارت سے ہٹنے کے بعد جناب آصف علی زرداری نے منصب صدارت کو خوب طاقت بخشی۔کیونکہ وہ خود ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ تھے لہٰذا ان کا کردار سب کا تمام صدور کے مقابلے میں متحرک اور اہم رہا۔
صدارت سے سبکدوش ہونے کے بعد کی مصروفیات۔
صدارت سے سبکدوش ہونے کے بعد صدر ممنون حسین نے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔اور وہ زیادہ وقت اپنے گھر میں گزارتے رہے۔شہر کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں سے بھی دور رہے۔کچھ عرصہ بیماری میں مبتلا رہنے کے خالق حقیقی سے جا ملے۔صدر ممنون حسین کی وفات پر ملک کے تمام سیاسی سماجی اور عسکری حلقوں نے تعزیت کا اظہار کیا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
 

Pir Farooq Bahaul Haq Shah
About the Author: Pir Farooq Bahaul Haq Shah Read More Articles by Pir Farooq Bahaul Haq Shah: 26 Articles with 19925 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.