اس عارضی زندگی میں جن بزرگانِ دین نے اپنی بزرگیت و
تصرفات و کرامت سے ہدایت کےچراغ کو پوری دنیا میں روشن کیا، ان میں سے کچھ
ایسی انمول ہستیاں بھی موجود ہیں جنہیں دنیا کبھی ان کی علمی کارھائے
نمایاں سے یاد کرتی ہے تو کبھی اسلام کی ترویج و اشاعت کےلئے تبلیغی خدمات
کی حیثیت سے ۔ان بزرگان دین کو ان کے اخلاق و کردار اور روحانی مقام و
مرتبے کے لحاظ سے بھی یا دکیا جاتا ہے۔ان بزرگوں نے اپنے علم اور تقوی و
پرہیزگاری سے اسلام کی تعلیمات کو عام کیا اسلام کی ترویج و اشاعت کی اور
کفر و شرک اور بدعت و خرافات کا قلع قمع کیا۔اس حیثیت سےامام اہلسنت اعلی
حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان ایک ممتاز شناخت
کے حامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ علماء کرام نے ان کو مجدد دین و ملت کے نام
سے مانا ہے۔زیر نظر قسط وارمضمون میں ان کی حیات و خدمات کے چند اہم گوشوں
کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا حافظ شاہ محمد احمد رضا خان فاضل بریلوی
علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بن
مولانا نقی علی خاں بن مولانا رضا علی خاں بن حافظ کاظم علی خاں بن شاہ
محمد اعظم خاں بن شاہ محمد سعادت یار خاں بن شاہ محمد سعید اﷲ خاں علیہم
الرحمۃ آپ کے جد اعلیٰ حضرت شاہ محمد سعید اﷲ خاں علیہ الرحمہ قندھار
افغانستان کے قبیلہ بڑھیچ کے پٹھان تھے مغلیہ دور حکومت میں لاہور تشریف
لائے اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، لاہور کا شیش محل ان کی جاگیر تھا،
لاہور سے آپ دہلی تشریف لائے آپ کی شجاعت وبہادری پر آپ کو شجاعت جنگ کا
خطاب بھی ملا،ان کے صاحبزادہ حضرت شاہ محمد سعید یار خاں علیہ الرحمہ کو
مغلیہ سلطنت نے ایک جنگی مہم سر کرنے روہیل کھنڈ بھیجا جس میں آپ نے فتح
پائی اور پھر یہیں آپ کا وصال ہوا ان کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد اعظم
خان علیہ الرحمۃ پہلے تو حکومتی عہدہ پر فائز رہے لیکن پھر امور سلطنت سے
سبکدوشی ہوکرعبادت و ریاضت میں مصروف رہنے لگے اور آپ نے شہر بریلی کو اپنا
مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ اس شہرِ بریلی میں مولانا شاہ محمد نقی علی خاں علیہ
الرحمہ کے یہاں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی
ولادت با سعادت: اعلٰی حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، ولی نِعمت ، عظیمُ
البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانہِ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دِین
ومِلَّت، حامیِ سُنّت، ماحِی بِدعت، عَالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ
خَیْروبَرَکت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رَضا
خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے مَحَلّہ جَسولی میں
۱۰ شَوَّالُ الْمُکَرَّم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق ۱۴ جون ۱۸۵۶ کو
ہوئی۔ سِنِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام اَلْمُختار (۱۲۷۲ھ) ہے
(حیاتِ اعلٰی حضرت ، ج۱، ص۵۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی) آپ کا
نامِ مبارَک محمد ہے، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام
سے مشہور ہوئے۔
نام و نسب:آپ کا تاریخی نام ’’المختار‘‘ (۱۲۷۲ء) ہے اورآپ کا اسم گرامی
’’محمد‘‘ ہے۔ اور آپ کے جدا مجد آپ کو احمد رضا کہہ کر پکارا کرتے اور
آپ اسی نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب افغانستان کے مشہور و معروف
قبیلہ بڑہیچ سے ہے جو افغان کے جدامجد قیس عبدالرشید کے پوتے ’’شرجنون‘‘
الملقب بہ شرف الدین کے پانچ بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے بڑہیچ سے جا ملتا ہے۔
(شاہ احمد رضا خان بڑہیچ افغانی از قلم محمد اکبر اعوان مطبوعہ کراچی ،
ص۳۵)
تکمیل تعلیم و فتوٰی نویسی : ان کی پیشانی سے نورِ سعادت کی کرنیں ایام
طفولیت ہی سے چمک رہی تھیں دیکھنے والوں نے دیکھاکہ وہ ایامِ طفولیت سے ہی
حق پسندی و حق شناسی کا مجسمہ تھے۔ ایک مرتبہ اپنے استادِ گرامی کے پاس
جلوہ افروز تھے کہ اسی اثنا میں ایک بچے نے استاذِ محترم کو سلام کیا تو
جواباً استاذ نے کہا: جیتے رہو ۔ فوراً انہوں نے لقمہ دیا کہ استاذِ محترم!
یہ تو جواب نہ ہوا۔ جواب تو وعلیکم السلام ہے۔ اس طرح کا اعتراض اور جواب
سن کر استاذِ گرامی ششدررہ گئے اور اس حق گوئی پر بے حد خوش ہوئے۔آپ کی
خدادادذہانت حاصل تھی اسی وجہ سے چھ سال کے عمر میں ہی آپ نے بریلی شریف
میں منعقدہ پروگرام موسوم بہ ’’محفلِ میلاد النبی ﷺ‘‘ میں میلاد النبی ﷺ کے
موضوع پر ایک عظیم الشان خطاب فرمایا۔ پھر آپ نے اردو، فارسی اورعربی کی
ابتدائی کتابیں مرزا غلام قادری بیگ سے حاصل کیں اور اکیس علوم کی تعلیم
آپ نے اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان سے حاصل کی ۔ ان میں سے کچھ رقم
قلم ہیں۔ علم تفسیر، علم حدیث، علم العقائد و الکلام، علم فلسفہ، کتب فقیہ
حنفی و شافعی مالکی و حنبلی، اصولِ فقیہ ، اصولِ حدیث، علم تکسیر، علم نجوم
وغیرہ ۔اور آٹھ سال کی عمر میں ہی آپ نے فن نحو کی مشہور و معروف کتاب
’’ہدایہ النحو‘‘ کی عربی شرح لکھی۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کے عمر میں
یعنی ۱۴؍ شعبان المعظم ۱۲۸۶ھ بمطابق ۱۹؍ نومبر ۱۸۶۹ء کو جملہ مروجہ علوم
و فنون سے فارغ التحصیل ہوئے اور ’’العلماء ورثتہ الانبیاء‘‘ کا تاج آپ کے
سر پر رکھا گیا۔ اسی دن آپ نے رضاعت کے متعلق پہلا فتوی لکھا، جواب بالکل
درست تھا، والد ماجد علامہ نقی علی بریلوی (م۱۲۹۷ھ )نے خوش ہوکر فتوی
نویسی کی اجازت دے دی اور مسند افتا پر بٹھا یا۔ پروفیسر محمود احمد صاحب
تحریر فرماتے ہیں: ’’مولانا احمد رضا خاں رحمتہ اﷲ علیہ نے تیرہ سال دس
مہینے اور چار دن کی عمر میں ۱۴ شعبان ۱۲۸۶ھ کو اپنے والد ماجد مولانا نقی
علی خان کی نگرانی میں فتوی نویسی کا آغاز کیا۔سات برس بعد تقریباً ۱۲۹۳ھ
میں فتوی نویسی کی مستقل اجازت ملی ۔ پھر جب ۱۲۹۷ھ میں مولانا نقی علی خان
کا انتقال ہوا تو کلی طور پر مولاناامام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ
فتوی نویسی کے فرائض انجام دینے لگے۔ آپ کے فتوی کا انداز آپ کے کتب فتوی
سے کیا جاسکتا ہے ۔ (حیات مولانا احمد رضا خان بریلوی، از پروفیسر ڈاکٹر
مسعود احمد، مطبوعہ کراچی ص۵۶)
جاری ہے۔
|