عبدالستار ایدھی 1928ء کو بھارتی ریاست گجرات کے ایک
نواحی قصبے بانٹوا میں عبدالشکور ایدھی کے گھر پیدا ہوئے ۔آپ اپنی سوانح
عمری میں اپنے خاندان اور بچپن کے واقعات کا تذکرہ کچھ ان الفاظ میں کرتے
ہیں کہ میرے والد قناعت پسند انسان تھے۔انہوں نے اپنا طرز زندگی نچلے طبقے
کے لوگوں جیسا اپنارکھا تھا ،میری والدہ کا نام "غربا"تھا ۔ہم دھوبی باڑہ
میں رہتے تھے۔مجھے جس مدرسے میں حصول تعلیم کے لیے داخل کرایا گیا ،مجھے
تعلیم میں کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن میری شرارتوں اور اوٹ پٹانگ حرکتوں سے
توجہ ہٹانے کے لیے مجھے ہر جماعت کا مانیٹر بنا دیا جاتا ۔تین سو برس پہلے
ٹھٹھہ میں ایک مذہبی پیشوا نے ہمارے آباؤ و اجداد کو مسلمان کرکے ان کا نام
"مومن " رکھا تھا جس کا مطلب پکا مسلمان اور صاحب ایمان تھا۔بعد میں یہ نام
بگڑ کر "میمن " ہوگیا ۔ماں سکول جاتے ہوئے مجھے اس ہدایت کے ساتھ دو پیسے
دیتیں کہ ان میں سے ایک پیسہ لازمی طور پر کسی حاجت مند کو دے دوں ۔وہ کہا
کرتی تھیں کسی کو کچھ دینے سے پہلے یقین کرلینا کہ تم سے خیرات لینے والا
واقعی حقدار بھی ہے کہ نہیں ۔میں جونہی سکول سے واپس آتا تو ماں مجھ سے
فورا پوچھتیں ۔تم نے پیسوں کا کیا کیا؟ میری اکھڑی اکھڑی وضاحت سنتے ہی وہ
کہتیں ۔خود غرض لوگ اپنے سوا کسی کو بھی کچھ دینا نہیں جانتے ۔میں والدہ کے
غصے سے بچنے کے لیے تیز تیز کھانا کھاتا ۔مارا ماری میں برتن صاف کرتا اور
جس عجلت کے ساتھ کام ختم کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ۔والدہ بھی اسی شدت
سے کے ساتھ کہتیں ۔دیکھو بیٹا۔ غریبوں کی ہر ممکن مدد کیا کرو ۔اوپر والے
کو راضی رکھنے کا یہی ایک راستہ ہے ۔ماہ رمضان کے مقدس مہینے میں قبیلے کی
دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر والدہ کھانے پینے کی چیزوں کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ
تیار کرتیں جنہیں میں بے کس و ناچار رشتہ داروں اورغریبوں کو ان کے گھروں
کی شکستہ کھڑکیوں کے ذریعے پہنچا آتا۔اس لمحے ماں ایک سرگوشی کے انداز میں
میری رہنمائی کرتیں کہ اصل خیرات اسے کہا جاتا ہے،جب دائیں ہاتھ کا پتہ
بائیں کو نہ چلے ۔ماں کی ہدایت پر میں اکثر بانٹوا کے گلی کوچوں میں کسی
معذور یا اپاہج کی اعانت کے لیے گھومتا رہتا۔میری مہربان اور نرم دل ماں ،
ان خیراتی کاموں کی وجہ سے اکثر بھول جاتیں کہ میں ایک مدرسے میں پڑھتا بھی
ہوں اور میری پڑھائی کا حرج ہورہا ہے لیکن وہ مطمئن تھیں کہ میں ان کی مرضی
و منشا کے مطابق غریبوں کے لیے دوڑ دھوپ میں کسی قسم کا جھول نہیں دیتا
۔والدہ نے زندگی کے ابتدائی دنوں میں میرے لیے سماجی خدمت کے کاموں کو جو
چناؤ کیا تھا شاہد اسی نے میرے دل میں انسان دوستی کی بنیاد رکھ دی تھی ۔جب
تعلیم سے میرا دل بھر گیا تو گیارہ سال کی عمر میں مجھے کپڑے کے ایک تاجر
حاجی عبداﷲ کی دکان پر نوکری مل گئی ۔پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب قائد
اعظم محمد علی جناح نے بانٹوا کے مسلمانوں سے خطاب کرکے کہا کہ مسلمانوں کا
ہندوستان میں رہ جانا بھارت کے لیے مفید اور پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت
ہوگا کیونکہ اس طرح پاکستان ،میمن برادری کے انتہائی تجربہ کار ،کاروباری
لوگوں سے محروم ہو جائے گا۔چنانچہ قائد اعظم ؒ کے حکم پر میمن برادری کے
تمام لوگوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا ۔6ستمبر 1947ء کے دن ہم اس ریل
گاڑی کے منتظر تھے جس نے ہمیں "اوچھ پورٹ" کے مہاجر کیمپ تک لیجانا تھا ۔
میمن برادری کے چار ہزارافراد کشتیوں میں بیٹھ کر کراچی کو چل پڑے۔سمندری
سفر دو دن بھوکے پیاسے رہ کر طے کیا ۔1948ء میں ہمیں معلوم ہوا کہ میٹھادر
میں پہلی مخیر تنظیم کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔تنظیم کا نام بانٹوا میمن
ڈسپنسری رکھا گیا ۔میٹھادر میں خواتین کی زبوں حالی دیکھ کر مجھے "میٹرنٹی
ہوم" شروع کرنے کا خیال آیا ۔زکوۃ ، صدقہ اور خیرات کا سلسلہ بڑھ رہا تھا
۔والدہ کی بیماری کے دوران ایک اچھوتے پہلو سے میرا سامنا ہوا ۔زیادہ بیمار
لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت ناپید
تھی ۔پورے کراچی میں ایک ایمبولینس تھی وہ بھی ریڈ کراس کی ملکیت تھی ۔انہی
مسائل کو مدنظر ہوئے ہم نے ایدھی ایمبولنس سروس کا آغا ز کیا جس کا دائرہ
کارپاکستان کے تمام شہروں تک پھیل چکا ہے ۔بلکہ ہوائی جہاز اوربھی ہیلی
کاپٹر بھی انسانی خدمت کے لیے موجود ہیں ۔تمام مراکز وائرلیس سسٹم سے ایک
دوسرے سے مربوط ہیں ۔اب تک کروڑوں انسانوں کی خدمت کا فریضہ ایدھی فاؤنڈیشن
کے پلیٹ فارم پر انجام دیا جا چکا ہے بلکہ پاکستان سے باہر بھی جہاں قدرتی
آفات حملہ آور ہوتی ہیں ، ایدھی فاؤنڈیشن دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے
موجود ہوتی ہے ۔8جولائی 2016ء کے دن عالمی سطح پر دکھی انسانیت کی خدمت پر
مامور عظیم سماجی رہنما عبدالستار ایدھی اس دنیا سے رخصت ہوگیا ۔ ایدھی
فاؤنڈیشن کو بیشمارقومی اور بین الاقوامی ایوارڈوں اور اعزازات سے نوازا جا
چکا ہے بلکہ گنز بک آف ریکارڈ میں بھی اید ھی فاؤنڈیشن میں شامل ہے ۔ دعا
ہے کہ اﷲ تعالی عبدالستار ایدھی کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔آمین |