روزنامہ نوائے وقت نے اردو صحافت کو بے شمار ایسے افراد
فراہم کیے ہیں جنہوں نے آگے چل کر صحافت کی دنیا میں اپنا نام پیدا کیا
ہے۔نوائے وقت بطور ادارہ یہ منفرد اعزاز رکھتا ہے کہ پاکستان کی اردو صحافت
میں نمایاں جگہوں پر کام کرنے والے افراد کی اکثریت اسی ادارہ کی تربیت
یافتہ ہے۔جناب عارف نظامی انہی افراد میں سے ایک تھے۔پاکستان کے سینئر
صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی عید الاضحی کے روز لاہور میں انتقال کر
گئے۔ وہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے اور پچھلے دو ہفتوں سے لاہور کے ایک نجی
اسپتال میں زیر علاج تھے۔
عارف نظامی انگریزی اخبار پاکستان ٹوڈے کے بانی و ایڈیٹر اور نوائے وقت
گروپ کے بانی حمید نظامی کے بیٹے تھے۔ کئی دہائیوں تک شعبہ صحافت سے وابستہ
رہنے والے عارف نظامی اردو اور انگریزی صحافت میں خدمات سر انجام دیں۔
پیدائش۔ عارف نظامی 14اکتوبر 1948 لاہور میں پیدا ہوئے، آپکے والد جناب
حمید نظامی برصغیر کی اردو صحافت کا سب سے معتبر نام تھے۔
تعلیمی مراحل۔ آپکا ابتدائی سکول تو آپکا گھر تھا۔جہاں جناب حمید نظامی
جیسا محب وطن،راسخ العقیدہ مسلمان اور سچا پاکستانی موجود تھا جنکے شب وروز
پاکستان کی ترقی اور مثبت اقدار کے فروغ کیلے وقف تھے۔۔عارف نظامی نے
ابتدائی تعلیم ایک مشنری انگریزی سکول سے حاصل کی اور گریجویشن گورنمنٹ
کالج لاہور سے کی۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے ایم اے
جرنلزم کیا بعد ازاں ایک امریکی تعلیمی ادارے سے جرنلزم میں ڈپلوما بھی
حاصل کیا۔
کیرئر کا آغاز۔ عارف نظامی نے کیرئر کا آغاز ایک رپورٹر کے طور پر
کیا۔روزنامہ نوائے وقت میں رپورٹر کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دیتے
رہے۔خبر کی تلاش کا جذبہ ان کے اندر آخر وقت تک موجود رہا۔سینئر صحافی جناب
مجیب الرحمان شامی لکھتے ہیں کہ ان کے اندر خبر سونگھنے کی ایک مخصوص حس
تھی جو بہت کم رپورٹرز میں پائی جاتی ہے۔انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران کئی
اہم خبریں حاصل کیں۔اور پھر ان کو بریک کیا۔
وراثتی صحافی۔ انکو وراثتی صحافی کہا جاے تو واقعاتی طور پر یہ غلط نہیں
ہوگی۔وہ جس گھر میں پرورش پا رہے تھے اس میں صبح شام صحافت کی بات ہوتی
تھی۔صحافت انکے خون میں شامل تھی۔ لیکن انہوں نے اپنی محنت اور ہمت سے اس
شعبے میں ایک باوقار مقام بنایا۔ انہوں نے ایک جونیئر رپورٹر کے طور پر
عملی صحافت میں کام شروع کیا اور پھر ترقی کرتے کرتے ایگزیکٹو ایڈیٹر نوائے
وقت کے عہدے تک پہنچے۔ بعد ازاں وہ اسی ادارے کے انگریزی اخبار 'دی نیشن‘
کے بھی ایڈیٹر رہے۔
زمہ دار صحافی ۔ وہ ایک زمہ دار صحافی تھے۔خبر کو چٹ پٹی چیزوں کے بجاے
اسکی خبریت کی بنیاد پر تیار کرتے تھے۔وہ پاکستان میں اخبارات کے مدیروں کی
ایک تنظیم کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) اور آل
پاکستان نیوز پیپرز سوسائیٹی (اے پی این ایس) کے بھی صدر رہے۔ عارف نظامی
نگران وفاقی وزیر کے عہدے پر بھی تعینات رہے۔ انہیں سال 2013 میں نگراں
وفاقی وزیر برائے اطلاعات و پوسٹل سروسز بنایا گیا تھا۔پاکستان کے ایک
معروف صحافی اور سینئر تجزیہ کارمجیب الرحمن شامی نے مزید کہا کہ عارف
نظامی ایک باوقار، ذمہ دار اور باخبر صحافی تھے۔ وہ ایک ورکنگ ایڈیٹر تھے۔
ان کے پاس اخبار کے کارکن اور مالک کے طور پر کام کرنے کا تجربہ تھا۔ وہ
ساتھی کارکنوں کے لئے ہمدردی اور قربت کا تعلق رکھتے تھے لیکن طاقتوروں کے
سامنے ان کا رویہ سخت ہوتاعارف نظامی سنسنی خیزی کو ناپسند کرتے تھے اور
خبر کے معاملے میں دوستوں کی پرواہ کرتے اور نہ ہی دشمنوں کی تذلیل کرنا
پسند کرتے تھے
جناب حمید نظامی اور نواے وقت: آپ کے والد ماجد تحریکِ پاکستان میں نمایاں
کردار ادا کرنے والی شخصیت تھے۔جناب حمید نظامی صوبہ پنجاب کے ایک ضلع
شییخوپورہ کے معروف قصبے سانگلہ ہل میں 3 جنوری 1915کو پیدا ہوئے۔ 1920 کو
جماعت اول میں داخل ہوئے۔ 1934 میں مقامی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے
کے بعد لاہور چلے آئے اور اسلامیہ کالج سے 1938 میں بی۔ اے کیا یہاں دورانِ
تدریس کالج کے علمی وادبی مجلے کریسینٹ کے نائب مدیر رہے اور مزاحیہ اور
سنجیدہ موضوعات پر مضامین لکھتے رہے بعد میں اسی مجلے کے مدیر بھی بنے۔
1940میں جامعہ پنجاب سے انگریزی میں ایم۔ اے کی ڈگری لی۔ان کی سیاسی زندگی
کا آغاز زمانہ طالب علمی ہی سے ہوا تھا۔ چنانچہ جب قائد اعظم کی ہدایت پر
مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن معرض ِ وجود میں آئی تو اس میں جناب حمید نظامی کا
کردار کلیدی تھا۔ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت کچھ عرصہ فیڈریشن کے صدر
بھی رہے علاوہ ازیں وہ اسلامیہ کالج لاہور کی طلبہ انجمن کے منتخب صدر بھی
رہے۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز بھی اسی عرصے کے دوران کیا۔تحریک
پاکستان کے دنوں میں اردو صحافت ابتری سے دوچار تھی۔ اگرچہ مولانا ظفر علی
خان کا زمیندار، مولانا غلام رسول مہر اور مولانا عبدالمجید سالک کا انقلاب
اپنی علمی اور ادبی کاوشوں کو جاری رکھے ہوئے تھے لیکن کو ئی اخبار ایسا نہ
تھا جو بالخصوص تحریکِ پاکستان کی حمایت اور تبلیغ و ترویج کے لیے کام کرر
ہا ہو، اورجو ہندو اخبارات کی مو شگافیوں اورالزامات کا دندان شکن جواب دے
سکتا ہو۔اس دور میں ہندو اخبارات کا کام صرف اورصرف حضرت قائد اعظم کے
کردار پر کیچڑ اچھالنا اور مسلم لیگ کی مخالفت کرنا تھا۔یہ وہ حالات تھے
جنہیں دیکھ کر حمید نظامی کا دل کڑھتا تھا، ان کی روح تڑپ تڑپ جاتی تھی۔اسی
تڑپ کے پیش نظر،حضرت علامہ اقبال کے نظریات کی ترویج،قائد اعظم کے افکار کے
فروغ اور تحریک پاکستان کے دفاع کیلئے 29 مارچ 1940کو ’’نوائے وقت‘‘ پندرہ
روزہ کے اجرا کے ساتھ ہی وہ میدانِ صحافت میں بنیے کے مقابل آ کھڑے ہو ئے
جو جلد ہی منازلِ ترقی طے کرکے 15 نو مبر 1942 کو ہفت روزہ بن گیا اور پھر
دوسال کے قلیل عرصے میں حمید نظامی کی شبانہ روز محنت کے سبب 22 جولائی
1944میں نوائے وقت روز نامہ بن گیا۔روزنامہ نواے وقت کو یہ اعزاز بھی حاصل
ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہر موقع پر اس اخبار کیلے الگ سے پیغام
جاری کیا۔حمید نظامی کو کم سے کم اور آسان سے آسان الفاظ میں اپنی بات کہنے
کا ملکہ حاصل تھا۔ تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے بعد ان کے اخبار کی
بے حد مقبولیت کی وجہ ان کی وسیع النظری تھی۔پھر ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ
صحافت کا مقصد ادبی ذوق کی تسکین نہیں ہے، یہ تو قارئین کو حالات و واقعات
سے با خبر رکھنے کا ذریعہ ہے۔قارئین میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ
کم پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے صحافتی زبان ایسی ہونی چاہیے
جسے ہر خاص وعام سمجھ سکے۔ یہ خوبی ان کے اداریوں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
وہ جو بھی اداریہ لکھتے تو قارئین پڑھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔
حمید نظامی نے ہر دور میں چاہے وہ جمہوری ہو یا فوجی حق وصداقت اور جرات و
بے باکی کا دامن ہاتھ نہ چھوڑا۔1958 ء سے 1962ء یعنی موت تک ایوبی آمریت کے
خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے۔ ان کے اداریے مستند و معتبر، اعتدال و
استدلال، جرات و بیباکی، اختصار و جامعیت، سلاست وتسلسل اور متنوع مضوعات
پر مشتمل ہوتے تھے۔
حمید نظامی کی وفات: جناب حمید انتقال 22 فروری 1962 میں ہوا۔
|