امام احمد رضا خان بریلوی کوپچاس سے زیادہ علوم و فنون پر
کامل دسترس حاصل تھی، وہ خود اپنے رسالہ ”الافادة الرضویہ“ میں 54علوم و
فنون کا ذکر فرماتے ہیں اور بعض محققین نے ان کا شمار ستر تک بتایا ہے۔
اعلیٰ حضرت کے علوم کی فہرست سماعت کرنے سے قبل سامعین کے علم میں یہ بات
ضرور ہونی چاہئے کہ محدث بریلوی علیہ الرحمۃ نے حافظ کتب الحرم شیخ اسماعیل
خلیل مکی کو جو عربی میں سند اجازت دی ہے اس میں خوداپنے قلم سے اُن 55
علوم و فنون کا ذکر فرمایا ہے جن میں آپ کو مکمل عبور حاصل تھا۔ محدث
بریلوی کے اپنے قلم سے رقم کردہ مندرجہ 55 علوم و فنون کی فہرست نہایت جامع
ہے جس میں بعض علوم فی زمانہ متعدد شاخوں و شعبوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اور
ان کی شناخت کیلئے علیحدہ عنوانات ماہرینِ تعلیم مختص کر چکے ہیں۔ معیشت
اور اس کے ضمنی علوم تجارت، بینکاری، اقتصادیات اور مالیات کا اعلیٰ حضرت
نے شمار نہیں کیا لیکن اسلامیان ہند کی فلاح کیلئے تدابیر بیان کرتے ہوئے
مجدد اعظم کی ذات میں ماہر بنکار، وزیر خزانہ و مالیات اور معلم اقتصادیات
بلکہ ہر فن مولا کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ امام احمد رضا علیہ الرحمۃ
الرضوان کے بیان کردہ علوم کی ترتیب یوں ہے۔(١) علم القران (٢) حدیث (٣)
اصول حدیث (٤) فقہ حنفی (٥) کتب فقہ جملہ مذاہب (٦) اصولِ فقہ (٧) جدل مہذب
(٨) علم تفسیر (٩) عقائد و کلام (١٠) نحو (١١) صرف (١٢)معانی (١٣) بیان
(١٤) بدیع (١٥) منطق (١٦) مناظرہ (١٧) فلسفہ (١٨) تکسیر (١٩) ھئیات (٢٠)
حساب (٢١) ہندسہ (٢٢) قرأت (٢٣) تجوید (٢٤) تصوف (٢٥) سلوک (٢٦) اخلاق (٢٧)
اسماء الرجال (٢٨) سیر (٢٩) تاریخ (٣٠) لغت (٣١) ادب معہ جملہ فنون (٣٢)
ارثما طیقی (٣٣) جبر و مقابلہ (٣٤) حساب سینی (٣٥) لوگارثمات (٣٦) توقیت
(٣٧) مناظرہ مرایا (٣٨) علم الاکر (٣٩) زیجات (٤٠) مثلث کروی (٤١) مثلث سطح
(٤٢) ہیاۃ جدیدہ (٤٣) مربعات (٤٤) جفر (٤٥) زائرچہ (٤٦) نظم عربی (٤٧) نظم
فارسی (٤٨) نظم ہندی (٤٩) نثر عربی (٥٠) نثر فارسی (٥١) نثر ہندی (٥٢) خط
نسخ (٥٣) نستعلیق (٥٤) تلاوت مع تجوید (٥٥) علم الفرائض [الاجازۃ الرضویہ]"
آپ 1296ھ مطابق 1878ءکو والد بزرگوار کے ہمراہ زیارت حرمین شریفین اور حج
بیت اﷲ شریف گئے۔ جہاں جلیل القدر علمائے کرام مفتی حنفیہ حضرت علامہ
عبدالرحمن سراج اور مفتی شافعیہ حضرت سید احمد دھلان وغیرہ سے فقہ و تفسیر
اور اصولِ فقہ پر اسناد حاصل کیں ۔
سلسلہ ارادت و طریقت : ۱۲۹۴ھ / ۱۸۷۷ء کو بغرض بیعت اپنے والد محترم کے
ہمراہ کا شانہ مرشد حضرت آلِ رسول مارہروی (علیہ رحمتہ و الرضوان، م
۱۸۷۸ء) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلسلہ قادریہ میں بیعت سے مشرف ہوکر
اجازت و خلافت سے بھی نوازا گیا۔ اعلیحضرت نے اپنے دیوان میں مرشد کے شان
میں ایک منقبت بھی لکھی جس کا مطلع یہ ہے۔
خو شاد لے کہ دہند ولائے آلِ رسول
خوشامردے کہ کنندس فدائے آلِ رسول
آپ کو مندرجہ ذیل سلاسل میں اجازت تھی۔ سلسلہ قادریہ برکاتیہ جدیدہ ،
سلسلہ قادریہ آبابیہ قدیمہ، سلسلہ قادریہ الھدیہ، سلسلہ قادریہ رزاقیہ،
سلسلہ قادریہ منوریہ، سلسلہ چشتیہ محبوبیہ و احدیہ، سلسلہ چشتیہ نظامیہ
قدیمہ، سلسلہ سہروردیہ واحدیہ ، سلسلہ سہروردیہ فضلیہ، سلسلہ علویہ منائبہ،
سلسلہ بدیعیہ مداریہ، سلسلہ نقشبندیہ علائیہ صدیقیہ، سلسلہ نقشبندیہ علائیہ
علویہ۔ ان سلاسل میں اجازت کے علاوہ اربعہ مصافحات کی بھی سند ملی۔
دوسری بار آپ نے ربیع الاوّل ۱۳۲۴ھ بمطابق اپریل ۱۹۰۶ء کو بارگاہِ رسالت
میں حاضری دی۔ ایک ماہ تک مدینہ طیبہ میں قیام رہا۔ اسی دوران بڑے بڑے
علماء آپ کی علمی کمالات اور دینی خدمات کو دیکھ کر آپ کی نورانی ہاتھوں
پر مرید ہوئے اور آپ کو استاد وپیشوا مان لیا۔ اس سفر مبارک میں جو تین
اہم کارنامے منظر عام پر آئے وہ یہ ہیں ۔ (۱) بحالت بیداری آقا علیہ
الصلوۃ والسلام کی زیارت ہوئی۔ (۲) ۲۵؍ ذی الحجہ کو آپ رحمتہ اﷲ نے علماء
نجد کی طرف سے آقا ﷺ کے علم غیب کے متعلق پانچ سوالات کے جواب میں شدت
بخار کے باوجود بغیر کسی کتب کو دیکھے صرف آٹھ گھنٹوں میں عربی زبان کے
اندر ایک کتاب موسوم بہ الدولہ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ لکھی، جس پر علماے
عرب نے نہ صرف داد سے نوازابلکہ شریف مکہ نے وہ کتاب سطر بہ سطر لفظ بہ لفظ
سماعت کی۔ (۳) اور آپ کو علماء عرب نے ’’مجدّد ماء ۃ حاضرۃ‘‘ کے لقب سے
نوازا ۔
علوم و فنون میں مہارت :ایک سو پانچ علوم پر آپ کو مہارت تھی۔ سید ریاست
علی قادری صاحب نے اپنے مقالہ ’’امام احمد رضا کی جدید علوم و فنون پر
دسترس‘‘ میں جدید تحقیق و مطالعہ ثابت کیا ہے کہ اعلیٰ حضرت کو ۱۰۵ علوم و
فنون پر دسترس و مہارت تامہ و کامل حاصل تھی۔
علمی آثار :حضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اﷲ علیہ ایک کثیر التصانیف بزرگ
تھے ۔ آپ کی ایک ہزار سے بھی زائد تصانیف ہیں۔ عربی، فارسی، اردو، ہندی
زبان میں مختلف فنون پر آپ کی ۵۵۰ سے زائد کتب کے نام منظر پر آچکی ہیں۔
ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں:
العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ : یوں تو آپ نے ۱۲۸۶ھ سے ۱۳۴۰ھ تک
ہزاروں فتاوی جات لکھے۔ لیکن سب کو نقل نہ کیا جاسکا۔ جو نقل کرلئے گئے تھے
ان کا نام العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ رکھا گیا۔ فتاوٰی رضویہ
جدید کی ۳۳ جلدیں ہیں جن کے کل صفحات ۲۲۰۰۰ سے زیادہ، کل سوالات مع جوابات
۶۸۴۷ اور کل رسائل ۲۰۶ہیں۔ ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجذن ہے۔ قرآن و
حدیث، فقہ، منطق اور علم کلام سے مذین ہے۔
ان شاء اللہ اگلی اقساط میں آپ کو بطور محدث و فقیہ ،سائنسدان ،بطور ریاضی
دان وغیرہ جاننے کی کوشش کریں گے۔
جاری ہے
|