۔۔۔ زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!
"ان کہی” سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
واللہ ہمیں خبر نہیں کہ ماہواری کی آگہی پھیلاتے ہوئے درد مند شاعروں کے
زندگی سے جڑے الفاظ کیسے جھٹ سے کود کے ہمارے سامنے یوں جھلک دیتے ہیں کہ
ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کی طرف توجہ کی جائے۔ خوش فہمی کہیے یا غلط
فہمی کہ ہر مصرعہ پڑھتے ہوئے شائبہ نہیں، یقین ہوتا چلا جاتا ہے کہ زندگی
کے رموز کھولتے شاعر کے ذہن میں زندگی کی کنہ کی کہانی ہی تو تھی۔ ن م راشد
کی یہ بے مثل نظم ان پسندیدہ نظموں میں شامل ہے جو ہم اکثر تحت الفظ میں
پڑھتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی بچیوں میں قبل از وقت ماہواری آنے کی اور ہم نہ جانے کہاں
پہنچ گئے۔ بات سے بات نکلتی چلی گئی اور کچھ ایسی یادیں جاگ اٹھیں جو مقفل
کواڑوں میں بند اپنی باری کی منتظر تھیں۔
بلوغت ( puberty) ایک پیچیدہ نظام کا نام ہے جس کی انتہا ماہواری کا آغاز
ہے۔ پورا جسم ایک ایسے دور سے گزرتا ہے جس میں جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں
شامل ہوتی ہیں اور ان کے ذمہ دار ہارمونز یہ کام ماہواری آنے سے کئی برس
پہلے شروع کر دیتے ہیں۔
بلوغت کے مختلف درجے ہیں۔
تھیلارکی (Thalarche) بلوغت کا پہلا نشان جس میں چھاتی کی بڑھوتری کا آغاز
ہوتا ہے۔ بریسٹ بڈ تقریبا نو برس کی عمر میں نکلتا ہے اور تکمیل کے مراحل
چار یا پانچ سال لیتے ہیں۔
ایڈرنارکی ( Adrenarche) نامی مرحلے میں جسم میں گردے کے پاس موجود ایڈرینل
گلینڈ ایسے ہارمونز تیزی سے بنانا شروع کرتا ہے جن کا تعلق جنسی اعضا کی
نشوونما سے ہوتا ہے۔
پیوبارکی ( Pubarche) نامی مرحلے میں مخصوص جنسی اعضا پہ بال نکلنا شروع
ہوتے ہیں۔ بارہ سے تیرہ برس کی عمر میں بغلوں اور زیر ناف ان بالوں کی
موجودگی بلوغت کا پتہ دیتی ہے۔
دس سے پندرہ برس کی عمر میں ان تبدیلیوں کے بعد قد تیزی سے بڑھنا شروع ہو
جاتا ہے اور یہ علامت ہے کہ ماہواری کی آمد آمد ہے۔
مینارکی ( Menarche ) پہلی ماہواری کو کہا جاتا ہے اور اس کا آغاز بلوغت کے
اس عمل کا اختتام ہے جو کئی برس پہلے شروع ہوا تھا۔ مینارکی کی طبعی عمر دس
سے پندرہ برس کے بیچ میں ہے لیکن واقعات کی ترتیب ایسے ہی رہے گی۔
ہارمونز کا ذکر آیا تو سن لیجیے کہ ان کیمیائی ہتھیاروں کی ایک فوج انسان
کے اندر موجود ہے جو ماہواری کو ممکن بنانے کے لئے کام کرتی ہے۔
دماغ کے ایک حصے ہائپو تھیلمس سے پیدا کردہ ہارمون دماغ میں ہی موجود
پچیوٹری گلینڈ پہ اثرانداز ہوتا ہے۔ پچیوٹری گلینڈ سے خارج شده ہارمون سفر
کر کے پیٹ میں موجود اووری یا بیضہ دانی پہ کام کرتا ہے جو جواباً ایسے
ہارمونز بناتی ہے جو رحم یا یوٹرس تک پہنچ کے ماہواری کا بندوبست کر سکیں۔
رحم کے دو کام ہیں، ماہواری یا حمل۔ ہر دو صورتوں میں رحم کی تیاری کے
مختلف درجے ہیں۔ پہلے مرحلے میں رحم کی اندر والی جھلی ہارمونز کے زیر اثر
دبیز تہوں میں بدلتی ہے پھر بیضہ دانی سے انڈے کا خروج ان تہوں کو خون سے
بھر دیتا ہے۔
اگر بیضے اور سپرم کا ملاپ ہو جائے تو چھوٹا سا نطفہ یا مستقبل کا انسان جو
ابھی خوردبینی منزل پہ ہی ہوتا ہے، آکر ان تہوں میں گھر بناتا ہے اور ان
تہوں میں جمع ہونے والا خون نہ صرف اس کی رگوں میں دوڑتا ہے بلکہ اس کے لئے
خوراک اور سانس بھی ماں سے لے کر آتا ہے۔
اگر بچہ یا نطفہ رحم تک نہ پہنچے تو جمع کردہ خون ماہواری کی صورت میں جسم
سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ یہ ہے اس خون کی حقیقت جسے گندا کہہ کر منہ پرے
کر لیا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہی خون بچے کی زندگی کا موجب بنتا ہے۔ اگر کسی
عورت کو ماہواری نہ آئے یا کچھ مسائل کے ساتھ آئے تو نہ بچہ رحم میں ٹھہر
سکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں آنے سے پہلے کی منزلیں طے کر سکتا ہے۔
ماہواری کا آغاز دس سے پندرہ برس کے درمیان کبھی بھی ہو سکتا ہے لیکن زیادہ
تر لڑکیوں کو بارہ سے چودہ برس کی عمر میں ماہواری آ جاتی ہے۔ دس برس کی
عمر تھوڑی تشویش ناک ہے لیکن ابنارمل نہیں۔
اگر ماہواری آٹھ برس کی عمر سے پہلے آجائے تو اسے پری کوشیس بلوغت (
Precocious Puberty) کہا جاتا ہے۔ یہاں ضرورت پڑتی ہے کہ سوچا جائے کہ ایسا
کیوں ہوا؟ زیادہ تر کیسسز میں یہ محض ہارمونز کا سسٹم جلدی چالو ہونے کی
وجہ سے ہوتا ہے اور اس سسٹم پہ کون اثرانداز ہوتا ہے، اس کی وجوہات کا ابھی
تک علم نہیں ہو سکا۔
لیکن کچھ کیسسز میں دماغ میں رسولی یا ایڈررینل گلینڈ کی رسولی اس کا موجب
بنتی ہے۔ دماغ کو کسی حادثے میں چوٹ لگنے سے یا پھر جینیٹک وجہ بھی ہو سکتی
ہے۔
آٹھ برس سے کم عمر بچی کا معائنہ لازم ہے تاکہ وجوہات کا تدارک ہو سکے۔ اگر
کوئی وجہ موجود نہ ہو اور آخری تشخیص سسٹم کے کھاتے میں ڈالی جائے تو ضروری
ہے کہ کچھ باتوں کا خیال کیا جائے۔
پری کوشیس بلوغت میں سب سے بڑا مسئلہ بچی کے قد کا ہوتا ہے جو چھوٹا رہ
جانے کا ڈر ہوتا ہے اور دوسری اہم بات بچی کی جذباتی اور ذہنی کیفیات ہیں۔
یاد رکھیے کہ بچی ابھی بچپن کے دور سے گزر رہی ہے اور وہ بہت سی باتیں
جاننے اور سمجھنے کے قابل نہیں۔ اس کے جسم میں آنے والی تبدیلیاں اس کے لئے
ہیجان کا باعث بن کر اسے دھچکا پہنچا سکتی ہیں۔
دونوں مسائل ڈاکٹر سے مل کر حل کیے جا سکتے ہیں، صحیح وقت پر، ہمدرد ہاتھوں
میں۔
ماہواری زندگی کا اٹوٹ انگ ہے، ہر کسی کی زندگی کا جس میں مرد وعورت کی
کوئی تخصیص نہیں۔ ہر نفس کی زندگی کا آغاز ماہواری سے ہوتا ہے جب اس کا
نطفہ ماہواری کے خون سے سانس اور غذا لیتے ہوئے اپنی ماں کے ساتھ اپنی
دھڑکن جوڑتا ہے۔
ماہواری نہیں تو کچھ نہیں!
اور بات ابھی ختم نہیں ہوئی!
زندگی سے ڈرتے ہو؟
|