حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانویؒ (1930-1995) عربی
زبان وادب کے چند مثالی اساتذہ میں سے ایک تھے۔ دار العلوم، دیوبند میں
تدریسی خدمات کے دوران، انھوں نے اپنی نگرانی میں، اپنے شاگردوں کوعربی
زبان وادب میں تقریر وتحریر، صحافت وخطابت اور لکھنے بولنے کی مشق کرائی
اور ان کو زندگی گذارنے کا سلیقہ بھی سکھایا۔ انھوں نے اپنے شاگردوں کو اس
طرح تراشا تھا کہ وہ جہاں بھی گئے نمایاں کارکردگی پیش کر کے ان کے لیے اور
دار العلوم دیوبند کے لیے نیک نامی کا باعث بنے۔حضرت کیرانویؒ ہمیشہ اپنے
شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور ان کو نمایاں مقام پر دیکھنا چاہتےتھے۔
جب بھی کوئی موقع ان کو ہاتھ لگتا؛ تو اپنے شاگرد کو آگے بڑھاتے۔ سن 1982ء
میں، دارالعلوم میں نئے انتظامیہ کی عمل داری کے بعد، پندرہ روزہ "الدّاعي"
کی ادارت کا مسئلہ پیش آیا؛ تو اس کے لیے انھوں نے اپنے ایک لائق و فائق
شاگرد، اُس وقت دار العلوم ندوۃ العلما، لکھنؤ کے استاذ:حضرت الاستاذ
مولانا نور عالم خلیل امینیؒ (1952-2021) کومنتخب فرمایا کہ وہ "الدّاعي"
کی ادارت کی ذمے داری سنبھالیں۔ عربی زبان وادب کے علما وفضلا نے اپنی کھلی
آنکھوں سے یہ مشاہدہ کیا کہ یہ انتخاب بہت ہی موزوں اور مثالی ثابت ہوا۔
حضرت الاستاذمولانا امینیؒ 15/شوال 1402ھ = 6/اگست 1982ء کو دار العلوم،
دیوبند میں عربی زَبان وادب کے معلم اور اس کے عربی ترجمان: "الداعي" کے
چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے وارد ہوے۔ انھوں نے اپنی ادارت میں الداعی کا پہلا
شمارہ، 7/محرم 1403،مطابق: 25/ اکتوبر 1982 کو شائع کیا۔ آپ چالیس سال
(شوال 1420ھ - رمضان 1442ھ) تک الدّاعي کے چیف ایڈیٹر رہے۔ "الداعي" کے لیے
فصیح وبلیغ عربی زَبان میں، آپ کے قلم سے نکلنے والے اعلی سطح کے اسلامی،
علمی، ادبی اور فکری مضامین ومقالات نے اس رسالہ میں چار چاند لگا دیا۔
مزید بر آں، مجلہ میں اشاعت کے لیےعرب علماء ومفکرین کی معیاری اور فکر
انگیز تحریروں کا انتخاب اورآپ کے نفیس ذوق کے مطابق، اعلی درجے کی کتابت
وطباعت نے اس کی ترقی میں کسی چیز کو حائل نہیں ہونے دیا۔پھر یہ مجلہ نہ
صرف ہند وپاک کے اہل علم کے درمیان؛ بل کہ عرب ممالک کے بڑے بڑے اہل علم
وقلم اور شعراء وادباء کے حلقے میں بھی عزت وتوقیر کی نگاہ سے دیکھا جانے
لگا۔ الداعی نے عالم عربی میں دار العلوم دیوبند کے مسلک ومشرب کی ترجمانی
اور اس کی علمی وثقافتی سرگرمیوں کے تعارف میں اہم کردار ادا کیا۔
حضرت الاستاذ مولانا امینی ؒماہ نامہ الداعي میں متعدد کالمز، مثلا: کلمۃ
المحرر، کلمۃ العدد، الفکر الإسلامی، دراسات إسلامیۃ، إلی رحمۃ اللہ،
محلیات، أنباء الجامعۃ، إشراقہ وغیرہ متعین کیے تھے۔ ان کالمز کے علاوہ
کبھی کبھی إصدارات حدیثۃ، الأدب الإسلامی، العالم الاسلامي وغیرہ جیسے
کالمز کا بھی الدّاعی میں اضافہ ہوتا، اگر ان کالمز سے متعلق مضامین
ومقالات شاملِ اشاعت ہوتے۔
حضرت الاستاذؒ عام طور پر کلمۃ المحرر، کلمۃ العدد، الفکر الاسلامی، إلی
رحمۃ اللہ، إصدارات حدیثیۃ، إشراقۃ میں اپنے مضامین ومقالات، فصیح وبلیغ
عربی، خوب صورت پیرائے، صحیح اعداد وشمار اور قابل اعتماد حوالوں کی روشنی
میں تحریر کرتے۔ آپ کلمۃ المحرر کے تحت عام طور پر عالم اسلام یا ہندوستان
کے کسی اہم سلگتے مسئلہ پر ایک مختصر تحریر پیش کرتے جو عام طور پر ایک
صفحہ اور کبھی کبھی دو صفحات پر مشتمل ہوتی۔ اس تحریر پر آپ کا نام نہیں
ہوتا تھا؛ بل کہ جہاں تحریر ختم ہوتی، وہاں بین القوسین میں [التحریر] لکھا
ہوتا۔ یہ تحریر جس وقت اور تاریخ میں لکھی گئی ہوتی، وہ وقت اور تاریخ آپ
ضرور تحریر کرتے۔ یہ آپ کا معمول تھا کہ ہر تحریر کے اخیر میں وقت اور
تاریخ ضرور رقم کرتے۔
دوسرا کالم: کلمۃ العدد کے تحت، عالم عرب، عالم اسلام یا پھر ہندوستان سے
متعلق آپؒ کسی اسلامی، سیاسی یا سماجی اہم موضوع پر اپنی تفصیلی تحریر پیش
کرتے۔ اس تحریر میں آپ کبھی رمضان وروزے کے فضائل، ہجرتِ نبوی علی صاحبہا
الصلاۃ والسلام کی عظمت ورفعت، دعا کی ضرورت واہمیت وغیرہ جیسے اسلامی
موضوعات سے اپنے قارئین کے واقف کراتے۔ کبھی اس کالم میں آپ امریکہ اور اس
کی ناجائز اولاد اسرائیل کی مکاری وعیاری کو دنیا کے سامنےدو دو چار کی طرح
واضح کرتے۔ کبھی آپ اسی کالم میں عرب ومسلم ممالک کے حکمرانوں کے اٹھنے
والے اقدام کے مثبت و منفی پہلووں کو اجاگر کرتے۔ اس کالم میں آپ کبھی
ہندوستانی حکومت کے موقف اور فیصلوں پر وضاحت کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار
کرتے۔ یہ تحریر عام طور پانچ، چھ صفحات اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ
صفحات پر مشتمل ہوتی۔ اس کالم کے تحت لکھے گئے آپ کے کچھ مضامین کے اردو
ترجمے، آپ کی اردو کتاب: "کیا اسلام پسپا ہو رہا ہے؟!" کا حصہ ہیں۔
آپ کو اکابر علماء دیوبند سے بڑی محبت تھی۔ اسلام کے حوالے سے ان کی علمی
کاوش اور نمایاں کارناموں کو عرب کے درمیان تعارف کرانا، آپ کی زندگی مشن
تھا۔اس مقصد کے حصول کے لیے آپ کالم: "الفکر الاسلامی" کے تحت ان علما میں
سے کسی کی کتاب کا عربی ترجمہ پابندی سے کرتے اور اسے قسط وار اس مجلہ میں
شائع کرتے۔ یہ سلسہ ایک طویل مدت تک چلتا رہا۔ اس طرح آپ نے درجنوں کتابوں
کے ترجمے کیے جو مکتبہ دار العلوم، دیوبند اور دار العلوم، دیوبند کے شعبہ
شیخ الہند اکیڈمی سے شائع ہوچکی ہیں۔کچھ سالوں سے اس حوالے سے آپ کا قلم
خاموش تھا۔ آج کل اس کالم میں، عربی زبان وادب کے مشہور اسکالر اور ماہ
نامہ الداعی کے مساعد التحریر حضرت مولانا عارف جمیل قاسمی مبارکپوری حفظہ
اللہ کے قلم سے (بہ نام: ابو عائض القاسمي المبارکفوري)، علامہ شبیر احمد
عثمانیؒ کی "تفسیر عثمانی" کا ترجمہ قسط وار شائع ہورہا ہے۔ شعبان 1442ھ کے
شمارہ میں، قرآن کریم کےابتدائی چار پاروں کے ترجمے مکمل ہوچکے ہیں۔
کالم الی رحمۃ اللہ کے تحت عالم عرب اور ہندوستان کی وفات پانے والی مشہور
اہل علم وفکر، ادباء وشعراء، داعی وخطیب، سیاسی وسماجی شخصیات میں سے کسی
ایک پر حضرت الاستاذؒ کے قلم سے مضمون ہوتا۔ اس مضمون میں مرحوم کے ساتھ آپ
کے تعلقات کی دل چسپ داستان اور ان کی حیات وخدمات کو تفصیل سے پیش کیا
جاتا۔آپ کے دگر مضامین کی طرح اس مضمون میں بھی زبان وبیان کی ندرت اور
اسلوب کے اعتبار سے ایک خاص انفرادیت پائی جاتی۔ یہ مضمون مرحوم کی زندگی
کے سارے گوشوں پر محیط ہوتا۔ بہت کم ایسا ہوتا کہ اس کالم میں شائع ہونے
والا مضمون پانچ سات صفحات پر مشتمل ہوتا؛ بل کہ یہ مضمون کئی کئی صفحات پر
مشتمل ہوتا۔ در حقیقت یہ مضمون مرحوم کی مختصر سوانح حیات کی شکل اختیار
کرلیتا۔ آپ نے اس کالم میں، مارچ 2010ء تک، تقریبا تین سو شخصیات پر مضامین
لکھ چکے تھے۔
ان میں سے کچھ شخصیتوں پر لکھے گئے مضامین کو، حضرت الاستاذؒ نے اپنے قلم
سے اور چند مضامین کو ان کے شاگردوں کے قلم سے اردو کا جامہ پہنایا گیا اور
بر وقت اردو رسائل و اخبارات میں شائع بھی ہوے۔ قارئین نے ان مضامین کو
اردو کے قالب میں بھی بہت پسند کیا۔ اُن کاتقاضا تھا کہ یہ مضامین کتابی
شکل میں بھی شائع کردیے جائیں۔ اُن قارئین کے جذبات کا خیال کرتے ہوے،آپ نے
اُن میں سے 37/شخصیتوں کے تذکرے کا مجموعہ: "پسِ مرگ زندہ" کے نام سے،
932/صفحات پر مشتمل، مئی 2010ء میں شائع کیا۔ اسی سلسلے کی دوسری
کتاب"رفتگانِ نا رفتہ" کے نام سے عن قریب ہی شائع ہونے والی ہے۔ اس کتاب
میں 24/شخصیات کے تذکرے شامل ہیں۔
کالم: " اصدارات حدیثۃ" کے تحت نئی شائع ہونے والی کتاب پر آپ کاتبصرہ
ہوتا۔ آپ کا تبصرہ بھی بہت تفصیلی ہوا کرتا تھا۔ اس تبصرہ میں جہاں آپ کتاب
کے مواد، اس کی خوبی وخامی اورکتابت و طباعت کو واضح انداز میں پیش کرتے،
وہیں مصنف کا تعارف بھی اپنے انوکھے اور عمدہ انداز میں کراتے تھے۔ نمونہ
کے طور پر اُس تبصرہ کو دیکھا جاسکتا ہے، جو آپ نے حضرت الاستاذ مفتی سعید
احمد صاحب پالن پوریؒ کی افادات "تحفۃ الالمعی شرح سنن الترمذي" پر لکھا
ہے۔ یہ تبصرہ تحفۃ الالمعی کی آٹھویں جلد کےاخیر میں شائع کردیا گیا ہے۔ یہ
تبصرہ بھی کئی صفحات پر مشتمل ہے۔
"اشراقہ" کے نام سے جو کالم ہے، وہ بالکل آخری صفحہ پر شائع ہوتا ہے۔ اس
کالم میں شائع ہونے والے مضمون کا باقی حصہ آخری صفحہ کے پہلے سے چند صفحات
ہوتے۔ اس کالم کے تحت آپ اپنے علم وفکر، تجربات ومشاہدات کی روشنی میں یا
پیش آمدہ حالات و واقعات سے متاثر ہوکر، ایک تفصیلی مضمون لکھتے جو مدلل
اور باحوالہ ہوتا۔ اس کالم کے مقالات علمی، مذہبی، سیاسی اور سماجی میں سے
کسی بھی موضوع پر ہوتا۔ان مقالات میں مترادفات ومحاورات اور تعبیرات
وتشبیہات کو بالکل مناسب اور معقول طریقےسے سجائے جاتے تھے۔ یہ مضامین عربی
ادب کا اعلی نمونہ پیش کرتے۔ عربی زبان سے تعلق رکھنے والے علما ان مقالات
کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ حضرت الاستاذؒ نے
اشراقہ کے تحت جو مقالات لکھے تھے، ان کا مجموعہ "من وحي الخاطر" کے نام سے
پانچ ضخیم جلدوں میں مرتب فرما دیا۔ یہ پانچ جلدیں تقریبا 2600 صفحات پر
مشتمل ہیں۔ یہ مجموعہ آپ کی زندگی کے آخری ایام میں، شائع ہوا۔ یہ عربی
زبان وادب سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔
"الداعي" کی اشاعت سے قبل، دار العلوم، دیوبند سے مجلہ"دعوۃ الحق"حضرت
مولانا وحید الزماں صاحب کیرانویؒ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کا پہلا
شمارہ شوال 1384ھ = جنوری 1965 میں شائع ہوا۔ ربیع الثانی 1395ھ = اپریل
1975ء میں، "دعوۃ الحق" کے بند ہونے کے بعد،پندرہ روزہ "الداعی" 11/جمادی
الاخری 1396 (10/جون 1976) سے شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کی ادارت کی ذمے داری
حضرت مولانا مفتی بدر الحسن صاحب قاسمی (حفظہ اللہ، مقیم حال: کویت) کو
سپرد کی گئی۔ ان کے بعد، حضرت الاستاذ مولانا امینی صاحبؒ اس کے مدیر اعلی
بنائے گئے۔ الداعی ایک پندرہ روزہ جریدہ کی حیثیت سے چھپتا رہا۔ پھر دار
العلوم کی مجلس شوری نے اس پندرہ روزہ کو ماہ نامہ میں تبدیل کردیا؛ چناں
چہ صفر-ربیع الاول 1414ھ، مطابق:اگست 1993ء سے ماہ نامہ کی حیثیت سے چھپنے
لگا۔ اس وقت سے اب تک اس مجلہ کی ماہانہ طباعت واشاعت ہو رہی ہے۔ اللہ پاک
حضرت الاستاذ کی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت
فرمائے! ●●●
٭ مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
|