اعلی حضرت امام احمد رضاخان بریلوی ایکک ہمہ جہت شخصیت قسط نمبر ٣

امام احمد رضا کا سینہ علوم و معارف کا خزینہ اور دماغ فکر و شعور کا گنجینہ تھا، اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں کہ شخصی جامعیت، اعلیٰ اخلاق و کردار، قدیم و جدید وعلوم و فنون میں مہارت ، تصانیف کی کثرت ، فقہی بصیرت ، احیاے سنت کی تڑپ، قوانین شریعت کی محافظت، زہد و عبادت اور روحانیت کے علاوہ سب سے بڑھ کر قیمتی متاع و سرمایہ عشق ختمی مرتبت (علیہ الصلوٰۃ والتسلیم) میں ان کے معاصرین میں ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھا اور غالباً نہیں، بلکہ یقیناً۔اور بعد میں آج تک سطور بالا صفات میں عالم اسلام میں امام احمد رضا کا ہمسر کوئی پیدا نہیں ہوا۔ آپ کی اسی انفرادیت کے بارے میں سید ریاست علی قادری علیہ الرحمۃ کہتے ہیں : امام احمد رضا کی شخصیت میں بیک وقت کئی سائنس داں گم تھے ، ایک طرف ان میں ابن الہیثم جیسی فکری بصارت اور علمی روشنی تھی تو دوسری طرف جابر بن حیان جیسی صلاحیت، الخوارزمی اور یعقوب الکندی جیسی کہنہ مشقی تھی، تو دوسری طرف الطبری ، رازی اور بو علی سینا جیسی دانشمندی، فارابی ، البیرونی ، عمر بن خیام، امام غزالی اور ابن رُشد جیسی خداداد ذہانت تھی۔ دوسری طرف امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے فیض سے فقیہانہ وسیع النظری اور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ سے روحانی وابستگی اور لگاؤ کے تحت عالی ظرف امام احمد رضا کا ہر رخ ایک مستقل علم و فن کا منبع تھا ان کی ذہانت میں کتنے ہی علم و عالم گُم تھے ۔ (معارف رضا جلد ششم صفحہ نمبر 124)

زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ امام احمد رضا رحمہ اللہ کو جیومیٹری کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے دیکھ کر والد گرامی حضرت مولانا نقی علی خان رحمہ اللہ نے فرمایا، "بیٹا !یہ تمام علوم تو ذیلی و ضمنی ہیں تم علوم دینیہ کی طرف متوجہ رہو، بارگاہِ رسالت سے یہ علوم تمہیں خود عطا کر دیے جائیں گے۔" پھر واقعی دنیا نے دیکھا کہ کسی کالج و یونیورسٹی اور کسی سائنسی علوم میں ماہر کی شاگردی کے بغیر تمام سائنسی علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل ہوئے اور ایسے مشاق ہوگئے کہ تحقیق و ریسرچ کے مطابق صرف سائنسی علوم میں آپ کی کتابوں کی تعداد 150 کے قریب پہنچتی ہے ۔
(امام احمدرضا اور سائنس ، از: پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری ،کراچی یونیورسٹی)
اگلی قسط میں ان شاءاللہ ہم آپ کو بحثییت سائنسدان جاننے کی کوشش کریں گے آپ کی سائنس میں خدمات کو جانیں گے۔

کمال حافظہ:۔
جنابِ سیِّد ایّوب علی صاحِب رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کا بیان ہے کہ ایک روز اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقِف حَضرات میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کر تے ہیں ، حالانکہ میں اِس لقب کا اَہل نہیں ہوں۔ سیِّد ایّوب علی صاحبِ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نےاِسی روز سے دَور شُروع کر دیا جس کا وَقت غالِباً عشا کا وُضو فرمانے کے بعد سے جماعت قائم ہونے تک مخصوص تھا۔ روزانہ ایک پارہ یاد فرمالیا کرتے تھے، یہاں تک کہ تیسویں روز تیسواں پارہ یاد فرمالیا۔
ایک موقع پر فرمایا کہ میں نے کلامِ پاک بِالتَّرتیب بکوشِش یاد کرلیا اور یہ اس لیے کہ ان بندگانِ خُدا کا ( جو میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں ) کہنا غَلَط ثَابِت نہ ہو۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ج ۱ ص۲۰۸ )
حضرتِ ابو حامِد سیّد محمد محدِّث کچھوچھوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ فرماتے ہیں کہ جب دارُالْاِفتا میں کام کرنے کے سلسلے میں میرا بریلی شریف میں قیام تھا تو رات دن ایسے واقعات سامنے آتے تھے کہ اعلیٰ حضرت کی حاضر جوابی سے لوگ حیران ہو جاتے۔ ان حاضر جوابیوں میں حیرت میں ڈال دینے والے واقِعات وہ علمی حاضِر جوابی تھی جس کی مثال سُنی بھی نہیں گئی۔ مَثَلاًاِستِفتا (سُوال) آیا، دارُالْاِفتا میں کام کرنے والوں نے پڑھااور ایسا معلوم ہوا کہ نئی قسم کا حادِثہ دریافت کیا گیا (یعنی نئے قسم کا مُعامَلہ پیش آیا ہے) اور جواب جُزئِیَّہ (جُز۔ئی۔یَہ) کی شکل میں نہ مل سکے گا فُقَہا ئے کرام کے اُصولِ عامَّہ سے اِستِنباط کرنا پڑے گا۔ (یعنی فُقَہا ئے کرام رَحمَہُمُ اللہُ السَّلام کے بتائے ہوئے اُصولوں سے مسئلہ نکالنا پڑے گا) اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، عَرض کیا: عجب نئے نئے قسم کے سُوالات آرہے ہیں ! اب ہم لوگ کیا طریقہ اختِیار کریں ؟ فرمایا: یہ تو بڑاپُراناسُوال ہے۔ ابنِ ہُمام نے’’فَتْحُ القدیر‘‘ کے فُلاں صَفحے میں ، ابنِ عابِدین نے ’’رَدُّ الْمُحتار‘‘کی فُلاں جلد اورفُلاں صَفْحَہ پر (لکھا ہے) ، ’’فتاوٰی ہندیہ‘‘ میں ، ’’خَیریہ‘‘ میں یہ یہ عبارت صاف صاف موجود ہے اب جوکتابوں کو کھولاتو صَفْحَہ ، سَطر اور بتائی گئی عبارت میں ایک نُقطے کا فَرق نہیں۔ اس خداداد فضل وکمال نے عُلَماکو ہمیشہ حیرت میں رکھا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ج ۱ ص ۲۱۰)
امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ بحثییت مترجم قرآن پاک:۔
امام احمد رضا خاں بریلوی رحمہ اللہ کے ترجمہ قرآن (1330ھ) سے قبل کئی تراجم عوام میں متعارف ہو چکے تھے جن کی تعداد 25،30 سے کم نہ تھی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اہلِ سنت و جماعت کے قدیمی عقائد اور نظریات رکھنے والا کوئی اہل اور مستند عالم قرآن کے ترجمہ کی خدمت سرانجام دے تاکہ دنیا کےتمام مسلمانوں کے عقائد کو محفوظ اور مضبوط کیا جا سکے۔
جاری ہے

 

MUHAMMAD BURHAN UL HAQ
About the Author: MUHAMMAD BURHAN UL HAQ Read More Articles by MUHAMMAD BURHAN UL HAQ: 164 Articles with 240689 views اعتراف ادب ایوارڈ 2022
گولڈ میڈل
فروغ ادب ایوارڈ 2021
اکادمی ادبیات للاطفال کے زیر اہتمام ایٹرنیشنل کانفرنس میں
2020 ادب اطفال ایوارڈ
2021ادب ا
.. View More