اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں امتِ مسلمہ میں عموماً اور اہل
بیت کرام میں خصوصاً ایسے افراد کو پیدا فرمایا جن کے دم قدم سے شریعت کی
رونق دوبالا ہوئی ، اسلامی علوم و تعلیمات میں نئی جہات سامنی آئیں اور
امت مسلمہ میں فکر و عمل کے نئے ولولے بیدار ہوئے ۔
ایسی ہی شخصیات میں سے جو اہل بیت کرام علیہم السلام کا خاص فرد ہیں ، سیدی
امام رواس قدس اللہ سرہ ہیں جن کا مختصر تعارف اس وقت پیش خدمت ہے ۔
آپ کا نام نامی محمد ، کنیت ابوالبراھین ، خاص لقب جو انہیں روحانی طور پر
نبی کریم ﷺ کی جانب سے عطاء ہوا ”غریب الغرباء“ ہے ۔ عام شہرت رواس کے نام
سے ہے کہ آپ بوقت حاجت اپنی ضروریات کے لیے بکرے بکری وغیرہ کی سریاں بیچا
کرتے تھے ۔
آپ نسبی اور روحانی دونوں نسبتوں میں سلسلہ مبارکہ رفاعیہ کے موسس سلطان
الاولیاء و العارفین سیدی امام احمد الرفاعی الحسینی قدس اللہ سرہ سے جڑے
ہوئے ہیں ۔
آپ تیرھویں صدی ھجری میں عراق کے مشہور شہر بصرہ کے ایک دیہات سوق الشیوخ
میں پیدا ہوئے ۔ بچپن والد صاحب کی وفات کی وجہ سے ماموں کے زیر کفالت رہے
اور آپ کے ماموں آپ کو بچپن میں ہیں سرزمین حجاز مقدس مدینہ منورہ لے گئے
جہاں آپ نے ایک سال مکہ مکرمہ میں اور دو سال مدینہ منورہ میں گزارے اور
وہاں کے شیوخ و علماء کی مجالس سے علمی استفادہ کرتے رہے ۔
بعد ازاں 1238ھ میں جامعہ الازھر مصر تشریف لے گئے اور تیرہ سال تک وہاں
مقیم رہ کر تمام دینی علوم و فنون میں کمال حاصل کیا ۔
حصولِ علم کے بعد روحانی اشارات کی بنیاد پر دینی سیاحت شروع کی اور اس
سیاحت کے تحت عرب و عجم کے درجنوں شہر اور کئی ممالک کے سفر کیے ۔ ان میں
سرزمین حجاز مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ، مصر ، شام ، عراق ، کردستان ، سندھ
، ہندوستان ، ایران ، چین ، ترکی وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ، ان اسفار
کی زیادہ تر تفصیل آپ نے خود اپنی کتاب ”بوارق الحقائق“ (مطبوعہ) میں سپرد
قلم کر دی ہے ۔
امام رواس قدس اللہ سرہ ان اسفار کے بعد آکر کار عراق کے شہر بغداد میں
مقیم ہوئے اور وہیں 1278ھ میں وفات پائی اور اسی شہر میں تدفین ہوئی اور
بعد ازاں دو تین دھائی پہلے ان کی نعش مبارک کو بغداد میں امام احمد رفاعی
قدس اللہ سرہ کے والد محترم سیدی ابوالحسن علی الرفاعی قدس اللہ سرہ کے
مزار کے ساتھ منتقل کر دیا گیا اور اب ان کا مزار بغداد میں مرجع عام و خاص
ہے ۔
تمام عمر شہرت کے بجائے گمنامی کو ترجیح دی اور گمنامی کی حالت میں روحانی
تربیت پر زیادہ توجہ رہی ۔ آپ نے خلفاء کرام میں سب سے بڑا نام آپ کے
نائب و وارث شیخ الاسلام سیدی امام محمد ابو الھدی الصیادی الرفاعی الحسینی
قدس اللہ سرہ کا ہے جو خلافت عثمانیہ کے آخر میں سلطان عبد الحمید ثانی
رحمۃ اللہ علیہ کے نہایت مقرب رہے اور ترکی کے ہی ایک شہر میں وفات پائی
اور پھر ان کی نعش مبارک کو ملک شام ان کے آبائی علاقے منتقل کیا گیا ۔
امام رواس قدس اللہ سرہ نے دو درجن سے زائد کتب تالیف کی ہیں ان میں درج
ذیل کتب سر فہرست ہیں :
الحکم المھدویۃ
الدرۃ البیضاء
طی السجل
بوارق الحقائق
رفرف العنایۃ
الروضۃ الوردیۃ
امام رواس قدس اللہ سرہ بلند پایہ مذھبی شاعر بھی تھے اور آپ کے متعدد
دیوان مطبوع ہیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :
دیوان نور الفتوح
دیوان مشکوۃ الیقین
دیوان معراج القلوب
دیوان فائدۃ الھمم من مائدۃ الکرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے اشعار کا ایک نمونہ :
نَزِّهْ فُؤادَكَ عن مَحَبَّةِ غَيرِهِ
فالغَيرُ يَفْنى والحَوادِثُ تَنْطَوي
والجَأْ لِعِزَّتهِ وَدَعْ وَهْمَ السِّوى
فَسِواهُ مَحْضُ العَجْزِ واللهُ القَوي
اللہ تعالی کے غیر کی محبت سے اپنا دل پاک کر لے کیوں کہ اس کے ما سوا سب
فانی ہے اور سب مخلوق لپیٹ دی جانے والی ہے ۔
اسی کی عزت والی بارگاہ کی طرف رجوع کر ، پناہ لے اور اس ک ما سوا کا وھم
نکال دے ، اس کے ما سوا سب محض بے بسی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی قوت والا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : مدثر جمال تونسوی
خادم سلسلہ مبارکہ رفاعیہ
|