ڈاکٹر ہرش وردھن کو وزیر اعظم نے رن آوٹ کرادیا اور ان
کے پویلین میں لوٹنے کے بعد گجرات کے نوجوان کھلاڑی من سکھ منڈاویہ کو
میدان میں اتارا گیا ۔ نئے وزیر صحت نے اپنی پہلی ہی گیند پر چھکا لگا کر
کپتان اور نائب کپتان کا دل جیت لیا، یعنی کابینی وزیر کی حیثیت سے
پارلیمان کے پہلے ہی اجلاس میں ایسا بڑ اجھوٹ بول دیا کہ پوری ٹیم مودی
ششدر رہ گئی ۔ پہلے لوگ مودی اور شاہ کی کذب گوئی کے کرشمے دیکھ کر محظوظ
ہوتے تھے مگر اب تو منڈاویہ نے یہ کہہ کرکے آکسیجن کی کمی سے کوئی نہیں
مرا ، ان دونوں کو بھی پیچھےچھوڑ دیا ہے۔ وزیر صحت کے لیے ممکن ہے ملک بھر
کی معلومات حاصل کرنا مشکل کام ہو لیکن انہیں راجدھانی دہلی کے بارے میں تو
پتہ ہونا چاہیے۔ یکم مئی کو دہلی کے بترا اسپتال میں کورونا کے 307مریض
بھرتی تھے ان میں 230 آکسیجن سپورٹ پر تھے ۔ اس اسپتال کے ڈاکٹر ایس سی
ایل گپتا نے ٹیلی ویژن چینل پر آکسیجن کی کمی سے 12 مریضوں کے موت کی خبر
دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک گھنٹے تک آکسیجن کی فراہمی میں کمی کے سبب یہ
جانی نقصان ہوا ہے۔آگے چل کر یہ معاملہ دہلی ہائی کورٹ میں پہنچ گیا جہاں
اسپتال کےایکزیکیوٹیو ڈائرکٹر سدھانشو بنکٹا نے بتایا کہ ان کے یہاں
آکسیجن ختم ہوگئی تھی۔ بروقت آکسیجن کی فراہمی میں کوتاہی کے سبب مریضوں
کی موت واقع ہوئی ۔ کیا کسی اسپتال کا سربراہ عدالت میں حلفیہ جھوٹ بول
سکتا ہے؟
اس سے قبل 24؍ اپریل کو دہلی کے جئے پور گولڈن اسپتال میں ڈاکٹر ڈی کے
بلوجا نے 20 لوگوں کے آکسیجن کی کمی کے سبب موت کی خبر دی تھی اور یہ بھی
کہا تھا کہ آکسیجن کی موجودہ مقدار بھی محض دو ڈھائی گھنٹے میں ختم ہو
جائے گی ۔ یہی بات ان لوگوں نے عدالت عالیہ میں بھی کہی تو کیا یہ سب جھوٹ
تھا یا وزیر موصوف کا بیان مبنی بر کذب ہے؟سانحہ کے دن جگ جیوت سنگھ کی
والدہ سربجیت سنگھ وہاں ایڈمٹ تھیں اور ان کا انتقال ہوگیا۔ جگ جیوت بتاتے
ہیں کہ ان لوگوں نے ساری دواوں کا بندوبست کردیا تھا۔ اسپتال والوں کو صرف
آکسیجن کا انتظام کرنا تھا جس میں وہ ناکام رہے اور بیچاری سربجیت جان بحق
ہوگئی۔ اس سے ایک دن قبل دہلی کے معروف گنگا رام اسپتال سے 25 مریضوں کی
آکسیجن کی کمی سے فوت ہونے کی خبر آئی مگر پھر یہ کہا گیا کہ یہ اموات
آکسیجن کی کمی سے نہیں بلکہ مریضوں کی خستہ حالت طبیعت کے سبب ہوئی ہے۔
دہلی کی میونسپل کا رپوریشن بی جے پی کے قبضے میں ہے اس لیے اس کے ما تحت
چلنے والے انتظامیہ کی تضاد بیانی قابلِ فہم ہے۔
مدھیہ پردیش میں پر شہڈول کے اندر 18 ؍ اپریل کے دن 12؍ لوگ آکسیجن کے
دباو میں کمی کے سبب پرلوک سدھار گئے۔ ایک دن بعد یعنی 19 ؍ اپریل کو
راجدھانی بھوپال کے پیوپیلس ا اسپتال میں علی الصبح 10 مریضوں کو آکسیجن
کے دباو میں کمی کے سبب جان گنوانی پڑی ۔ اس سے قبل 15 ؍اپریل کو ، جبلپور
میں لیکویڈ آکسیجن کے پلانٹ میں خرابی کے سبب آکسیجن کی فراہمی رک گئی
اور اس نے وینٹی لیٹر پر پڑے 5 مریضوں کی جان لے لی۔ ان میں سے ایک کا
انتقال میڈی سٹی اسپتال اور 4؍ کی موت سکھ ساگر میڈیکل کالج میں ہوئی ۔ 27
؍ اپریل کو سندھیا کے گوالیار میں سب سے بڑے کملا راجہ اسپتال میں 3 لوگوں
کی موت آکسیجن کی قلت سے ہوئی جبکہ کانگریس کے رکن اسمبلی ستیش سکروار نے
کم ازکم دس اموات کا دعویٰ کیا۔ اس کے باوجود مدھیہ پردیش کے وزیر صحت
ڈاکٹر پربھورام چودھری نے آکسیجن کی قلت سے ایک بھی موت کا انکار کردیا ۔
اسی طرح بہار کے وزیر صحت منگل پانڈے نے بھی مرکزکی آنکھ موند کر تائید
کردی ۔ وزر اء چاہے یہ بھول جائیں مگر پسماندگان سرکار کو اس بے حس مزہ
ضرورچکھائیں گے۔
ریاست آندھرا پردیش میں تیلگو دیشم پارٹی کے ترجمان پٹاّ بی رام نے الزام
لگایا کہ تروپتی کے رویا اسپتال میں 30؍ سے زیادہ لوگ آکسیجن کی کمی کے
سبب لقمۂ اجل بن گئے۔ انہوں نے وجئے نگرم، کرنول اور دیگر علاقوں میں بھی
آکسیجن کی کمی کا دعویٰ کیا۔ آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس کی
حکومت ہے مگر کرناٹک میں تو بی جے پی کی صوبائی سرکار ہے۔ وہاں پر چامراج
نگر میں 24 گھنٹے کے اندر 24 مریضوں کی اچانک موت ہوگئی تو پتہ چلا کہ ان
میں سے 23 کورونا سے متاثر تھے۔ ابتداء میں یہی خبر آئی کہ آکسیجن کی کمی
اور دیگر وجوہات سے یہ اموات ہوئیں مگر اپنی حکومت کی چاپلوسی میں ضلع
انتظامیہ نے آکسیجن کی کمی کا انکار کردیا۔ ڈپٹی کمشنر ایم آر روی نے
اعتراف کیا کہ فوت ہونے والے سارے مریض وینٹی لیٹر پر تھے مگر کہا چونکہ وہ
سنگین امراض میں مبتلا تھے اس لیے ضروری نہیں کہ موت آکسیجن سے ہوئی ہو؟
میسور میں آکسیجن کی قلت تھی پھر بھی معاملہ مشکوک بنادیا گیا ۔
اس جھوٹ کا پردہ اس وقت فاش ہوگیا جب 21 جولائی کو کرناٹک ہائی کورٹ کی
تشکیل شدہ ایک کمیٹی پر انکشاف ہوا کہ دوسری لہر کے دوران چامراج نگر میں
آکسیجن کی کمی سے 36 لوگوں کی جان گئی۔ اس طرح ڈپٹی کمشنر کی لیپا پوتی
دھری دھری رہ گئی۔ اخبارات میں چھپنے والی مختلف خبروں کی بنیاد پر ایک
ڈیٹا بیس مرتب کیا گیا۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ 6 ؍اپریل سے 19 مئی کے
بیچ 43 دنوں میں 110 ؍ اسپتالوں کے اندر 629 ؍اموات کا سبب آکسیجن کی قلت
تھا۔ اس تحقیق میں وہی اعدادوشمار شامل کیے گئے جو ذرائع ابلاغ میں آئے
تھے۔ ایسے مریض جن کو اسپتالوں نے جگہ کی تنگی کے سبب داخل کرنے سے انکار
کردیا یا آکسیجن کی کمی کے سبب قبل ازوقت ڈسچارج کردیا شامل نہیں کیے گئے
حالانکہ ایسے واقعات کی بھی کمی نہیں تھی ۔ اس کے علاوہ بہت سارے لوگوں نے
گھروں کے اندر قرنطینہ کی کیفیت میں آکسیجن کی کمی کے سبب دنیا کو خیر باد
کہہ دیا ان کو بھی رپورٹ میں شامل کرنا ممکن نہیں ہوسکا ۔ ان حقائق کے
باوجود حکومت انکار کرتی ہے کیونکہ اس کے پاس میڈیا ہے جو جھوٹ کو سچ بنا
نے میں ماہر ہے۔ ایسے میں بھاسکر جیسا کوئی اخبار سچ بولے تو اس پر چھاپے
پڑنے لگتے ہیں ایسے وسیم بریلوی کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
جھوٹ کے آگے پیچھے دریا چلتے ہیں
سچ بولا تو پیاسا مارا جائے گا
وزیر صحت منڈاویہ نے تو خیر مودی اور یوگی کی پیروی کی مگر اب ان کی حمایت
میں مدھیہ پردیش کے ماما شیوراج سنگھ چوہان اور نہ جانے کون کون سے چاچا
اور تاؤ آگئے ۔ان بیانات کو دیکھ کر آج بھی جب دوسری لہر کے دوران
آکسیجن کی شدید قلت سے مرنے والوں کی ویڈیوز یاد آتی ہیں تو نیند اڑ جاتی
ہے۔ شتر مرغ کی مانند اپنائے جانے والے اس انکار کے رویہ کی وجہ سے سارے
عالم میں ملک کی اعتباریت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ ہٹلر کے مشیر گوئبلز کا
یہ قول بار بار دوہرایا جاتا ہے کہ اگر کسی جھوٹ کو کئی بار بولا جائے تو
وہ سچ لگنے لگتا ہے۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن ایسا کرتے کرتے ایک وقت
وہ بھی آجاتا ہے کہ جب کوئی عادی کذب گو سچ بولنے کی غلطی کرے تب بھی لوگ
اس پر اعتماد نہیں کرتے۔ ایسا ہی معاملہ فی الحال مودی سرکار کا ہے۔ ان
لوگوں نے کورونا میں اموات کے حوالے سے اس قدر ہیرا پھیری کی کہ ماہرین ان
کی تعداد کو دس سے بیس گنا زیادہ ہونے کا امکان پیش کرتے ہیں اور کوئی ان
پر یقین نہیں کرتا۔ کسی بھی ملک کے لیے یہ عدم شفافیت تشویشناک ہےاور مودی
جی کا یہ انمول تحفہ ان کی مانند نایاب ہے۔
|