ریاست پاکستان کے داخلی اور خارجی محازوں پر اس وقت
بھونچال آیا ہوا ھے۔کل کے دوست آج کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست
ٹھراۓجارھے ھیں۔ارباب اختیار گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہےھیں اورایک دفعہ پھر
نیا بیانہ تراش رہے ہیں۔یہ تمام صورتحال ریاست ہاۓمتحدہ امریکا کے اچانک
افغانستان سے جانے کے بعد پیدا ہوئی ھے،یوں معلوم ھوتا ہے جیسے کسی نےٹھرے
ہوۓ پانی پر چاند کےعکس کی محبت میں پتھر پھینک دیا ہو۔
اس ساری صورت حال میں فکر کی بات یہ ھےکہ ھماراملک بیانیوں کی ریاست بن کے
رہ گیا ہے،جس وجہ سے راۓ عامہ پر بہت برےاثرات مرتب ہوۓہیں،راۓعامہ جمہوری
معاشروں کی تعمیرمیں بڑا کلیدی کردار اداکرتی ہے۔جمہوری نظام کے تانے
بانےاسی صورت میں ہی صحیح طور پر بنے جاسکتے ہیں جب راۓعامہ کا اظہار اپنی
درست سمت میں ہو اور راۓعامہ کے تشکیل پانے میں کوئی عذر مانع نہ ہو۔
وطن عذیز کو معرض وجود میں آتے ساتھ ہی قیادت کے بحران کا سامنا کرنا پڑا
،بدقسمتی سے یہ بحران ابھی تک جوں کا توں چل رہا ہے۔تب سے لے کے اب تک ملک
مختلف بیانیو ں کی مدد سے چلایا جاتارہا ہے۔جرنل ایوب صاحب جب واصل اقتدار
ہوۓ تو انھوں نے میرے عذیز ہم وطنوں کو داخلی اور خارجی محازوں پر خطروں کا
بیانیہ پیش کیا ، ایک عرصہ تک اپنے اقتدار کو تقویت بخشی اور ٹوٹتا ملک
اپنے پیش رو کو دکر رخصت ہوۓ۔اس کے بعد بھٹو صاحب روٹی کپڑا اور مکان کا
پرکشش نعرہ لے کر اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہوۓ اور اس بات میں کوئ شک
نہیں کے وہ ملک کو ایک جمہوری آئین دینے میں کامیاب ھوۓ۔ان کے بیانیے میں
اشتراکی نظم ریاست کی بو بھی تھی،جس وجہ سے ترقی پسند اذہان کو کافی ابھار
ملا اور اگر یہ بیانیہ چلتا ر ہتا تو شاید آج ھم جاگیرداری نظام کو ختم کر
کے الیکٹیبلز کی سیاست کی نجاست سے جان چھڑا چکے ہوتے۔
لیکن یہ جون بھائی کی طرح خواہش ھی رہی کہ
کاش، ہم اس کے پار اُتر سکتے
کاش، اے کاش، ہم ٹھہر سکتے
اور اتنےمیں جرنل ضیاء صاحب اقتدار کی راہداریوں میں اسلام کا پرچم لے کر
نمودار ھوۓ اور ایک دفعہ پھر ریاستی بیانیہ بدلنے کا وقت ہوا،لوگوں کی ذہن
سازی کے لئے مذہبی حلقوں کی خاصی پشت پناہی کی گئی اورافغان جہاد کا ثواب
بھی اپنے کھاتے میں لکھوایا گیا۔اس طرح پھر راۓ عامہ کا پاجامہ اتارا گیا
اور اسےبرہنہ کر کے اسلامی لباس پہنایا گیا۔وقت گزرتا گیا ملک میں اسلامی
نظام تو قائم نہ ہو سکا لیکن جرنل صاحب کو ایک فضائی حادثے نے آلیا اور یوں
راۓعامہ کا یہ اسلامی رفوگر چلتابنا۔اس کے بعد اقتدار کا بیڑا جرنل مشرف
صاحب کے ہاں لنگرانداز ہوا،اب کے پھرراۓعامہ کو روشن خیالی کی شیروانی زیب
تن کروائی گئی۔ضیاء صاحب کے دور میں جو لوگ ریاست کے چہیتے ہوا کرتے تھے اب
دشمن جاں ٹھرے تھے۔یوں پھر راۓ عامہ کی عصمت دری کی گئی،بقول فیض
ہے وہی بات یوں بھی اوریوں بھی
کےمصداق میں یہ سلسلہ چلتا رہا اور آج پھر ہم ایک بار پھر راۓعامہ کے ساتھ
کھلواڑ کرنے جارہے ہیں۔شاید ہمارے ہاں راۓعامہ کی عزت منٹو کی رنڈی جتنی
بھی نہیں ہے،جب دل کیا اس کے پیرہن کے تار پود بکھیرے اور چل دیئے۔راۓ عامہ
کو یوں باربار مسخ کرنے سے معاشرے پر بڑےبھیانک اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ہمارا
معاشرہ سچائی کو کھنگالنے کے لیئے راۓ عامہ کی چھلنی استعمال کرنے سےقاصر
ہے جس وجہ سے وہ اپنے وجودمیں تکسیر اور رجعت پسندی جیسی زنجیروں میں جکڑا
گل سڑ رہا ہے اور مختلف گروہ اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں چنانچہ ترقی کا پہیہ
نہایت سست روی کا شکارہے۔عام آدمی کو سمجھ نہیں آتی کے کونسانقطہ نظر اس کے
مستقبل کی بہتری کا ضامن ہے۔ریاست کاکام بیانیئے بنانا نہیں ہےبلکہ عوامی
امنگوں کے ساتھ خود کو ہم آھنگ کرنا ہے اور تجزیاتی حس کی نمو کے لیۓ غیر
جانب دار مواقع فراہم کرنا ہے نہ کہ عوامی امنگوں کو چند افراد کی مرضی کے
مطابق ترتیب دینا ہے،ہاں بعض معاملات میں حقائق کو پوشیدہ رکھنا ضروری ہوتا
ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عوام کوفکری طور پر جھوٹ دکھایا اور
سکھلایا جاۓ جس سے بہت سارے فکری مغالطے جنم لیتے ہیں اور لوگ اپنے اصل
مسائل پر توجہ نہیں دے پاتے البتہ جذباتی قسم کے اذہان پیدا ہونے لگتے ہیں
جن کا مقصد صرف اپنے جزبات کی تسکین ہوتا ہے۔آج بھی اگر ہماری ریاست یہ
سمجھ لے کہ سوچنا لوگوں کا حق ہےاور اپنی سوچ کا اظہار سانس لینے کے بعد
دوسرا اہم ترین حق ہے اس ہمیں لوگوں سے ان کی سوچ جو حقیقت میں انکی اصل
زندگی ہے نہیں چھیننی چاہیۓ۔نہیں تو وہی ہوگا جو منیر نیازی صاحب کے ساتھ
ہوا شاید
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
|