چھاپہ نہیں پڑے گا تو کیا اشتہار ملے گا؟

 حکومت کے ستارے بتدریج گردش میں آرہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آئے دن حزب اختلاف کو نت نئے ہنٹر پکڑا کر کہہ رہی ہے کہ ’آبیل مجھے مار‘۔ پیگا سس جاسوسی کا مایا جال دنیا بھر کے 50 ممالک میں پھیلا ہوا ہے اور وہ 50 ہزار سے زائد لوگوں کی جاسوسی کرتا ہے ۔ اسرائیل کی ایک کمپنی این ایس او دنیا کے کسی بھی حکومت کو کروڈوں روپیوں کے عوض اپنی خدمات دیتی ہے۔ اپنی پارسائی کوثابت کرنے کی خاطر اس کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی فرد کے لیے نہیں بلکہ صرف حکومتوں کے لیے جاسوسی کرتے ہیں ۔ ’اس سادگی پی کون نہ مرجائے اے خدا‘ کہ اتنی بڑی جاسوسی کمپنی کونہیں معلوم آج کل بیشتر جمہوری حکومتوں نے سرمایہ داروں سے سانٹھ گانٹھ کررکھی ہے اس لیے اگر کوئی دھنا سیٹھ اپنے کسی حریف کی جاسوسی کرانا چاہتا ہو تو احسانمند حکومت کے ذریعہ اس سے مستفید ہوسکتا ہے خیر جب یہ انکشاف ہوا کہ اس 1571؍ معاملات میں سب سے زیادہ یعنی تقریباً 20؍ فیصد حصہ ہندوستان کا ہے تو مرکزی حکومت کے خلاف ہنگامہ برپا ہوگیا ۔

اس کے بعد اپنی روایت کے مطابق وزیر اعظم مونی بابا بن گئے اور اپنے خاص چیلے امیت شاہ کو میدان میں اتار دیا ۔ انہوں نےحسب توقع کہا کہ ’مخالفین اور گڑ بڑ پھیلانے والوں کی سازش سے ملک کی ترقی نہیں رکےگی‘۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں ترقی ہو کہاں رہی ہے جو رکے گی اور اس کے لیے مخالفین ذمہ دار نہیں ساری گڑبڑ تو وہ خود وزیر اعظم کے اشاروں پر ہوتی ہے۔ شاہ جی کا اگلا جملہ تو اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ تھا ، انہوں نے کہا’ میں ہندوستان کی عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ مودی سرکار کی ترجیحات قوم کی بھلائی ہے‘۔ جس حکومت کی ساری توجہات اپنا اقتدار مضبوط کرنے اور مخالفین کی سرکار کو گراکر ہتھیانے پر مرکوز ہوں ۔ اس کی تمام منصوبہ بندی انتخابی کامیابی کے لیے وقف ہو اس کو یہ ’جملہ ‘ زیب نہیں دیتا۔

شاہ جی کے مطابق پیگاسس رپورٹ جاری کرنے مقصد ملک کو بدنام کرکے ترقی کی پٹری سے اتارنا ہے حالانکہ یہ بدنامی خود ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ کانگریس پر الزام لگاتے ہوئے وہ بولے بے سمت کانگریس کا اس پر اچھلنا غیر متوقع نہیں ہے۔ اسے جمہوریت کو کچلنے کا تجربہ ہے۔ یہ بات تو درست ہے مگر بی جے پی نے اس میدان میں کانگریس کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے کیونکہ ایسی پھوہڑ حرکات کا ارتکاب کانگریس نے کبھی نہیں کیا ۔ شاہ جی کے پاس کوئی نئی بات نہیں تھی تو انہوں نے وہی پرانا ملک کے خلاف بین الاقوامی سازش کا راگ الاپا ۔ اپنے دعویٰ کے حق ان کی دلیل بھی گھسی پٹی کرونولوجی تھی کہ آخر یہ انکشاف عین ایوان پارلیمان کے اجلاس کی ابتداء میں کیوں ہوا؟ ویسے یہ معاملہ جب بھی منکشف ہوتا تو اس کی دھمک سرکار کی چولیں ہلا دیتی ۔ یہ ضرور ہے کہ پارلیمانی اجلاس کے سبب اس کو تقویت ملی ۔

پارلیمانی اجلاس کے سبب پگا سس کو قومی بدنامی کی کی سازش قرار دینے والے شاہ جی کی نگرانی میں کام کرنے والے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ( آئی ٹی) نے ہندوستان کے دوسرے سب سے بڑے اخبار روزنامہ بھاسکر کے چالیس دفاتر پر چھاپہ مارا اور اتر پردیش کے ہندوستان ٹیلی ویژن کے دفتر کو بھی نشانہ بنایا۔ یہ غلیظ حرکت بھی چونکہ پارلیمانی اجلاس کے دوران ہوئی اور اس لیے چہار دانگ عالم میں ملک بدنام ہوگیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سازش کس نے کس کے خلاف کی ؟ مزے کی بات یہ کہ اس پر بھی ایوان پارلیمان کا اجلاس روکنا پڑ گیا ۔ وزیر داخلہ نے اگر یہ حرکت وزیر اعظم کو بدنام کرنے کے لیے کی ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے بچنے کی خاطر ان کو وزارت سے محروم کرکے بلی کا بکرا بنایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن اور روی شنکر پرشاد کے ساتھ یہ ہوچکا ہے۔ ویسے اس بات کا امکان مفقود ہے کہ وزیر داخلہ اس طرح کا خیال بھی اپنے دل میں لائیں اس لیے قوی امکان تو یہ ہے کہ بھاسکر پر شکنجہ کسنے کا فیصلہ وزیر اعظم کے ایماء پر یا انہیں اعتماد لے کر کیا گیا ہوگا لیکن اس کے بہت دور رس نتائج مرتب ہوں گے ۔

اول تو اس چھاپے نے حزب اختلاف کو حکومت کے خلاف متحد ہوکر حملہ کرنے کا نادر موقع عنایت کردیا ۔ پیگاسس میں جو کچھ ہوا وہ تفتیش طلب معاملہ ہے لیکن بھاسکر کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور اس کا ذمہ دار اظہر من الشمس ہے۔ ملک کا بچہ بچہ جان گیا ہے کہ موجودہ حکومت مخالفت کو برداشت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہے۔ اس کے لیے اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو چھپانا ناممکن ہوگیا ہے اور وہ گھبرا کر اس طرح کی بزدلانہ اقدامات پر اتر آئی ہے۔ اسے پتہ ہونا چاہیے کہ دلیر کو ڈرانے پر وہ بے خوف ہوکر حملے کرتا اور بھاسکر یہی کرےگا ۔ مرکزی حکومت کی اس حماقت نے تمام ذرائع ابلاغ کو (بشمول گودی میڈیا )حکومت کی مخالفت پر مجبور کردیا۔ موجودہ ذرائع ابلاغ کے بڑے حصے کو جس طرح مرکزی سرکار نے اپنے مایا جال میں جکڑ رکھا ہے اس کے سبب یہ کارنامہ تقریباً ناممکن ہوگیا تھا ۔

حکومت کے اس چھاپے کے خلاف میڈیا نے جس یکجہتی کا ثبوت پیش دیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اس حکومت کو اگر تھوڑی بھی عقل ہوتی تو ایسی جرأت رندانہ کا مظاہرہ ہر گز نہیں کرتی ۔ آج کل آر ایس ایس بہت متحرک ہوگیا ہے۔ یہ مشورہ اگر اس نے دیا ہے تو اس کی دانشمندی پر بیک وقت ہنسنے اور رونے کو جی چاہتا ہے۔ سرکاری احسان کے تلے دبے اے بی پی نے اپنے من بات کی حزب اختلاف کے حوالے سے لکھی۔ اس نےلکھا کہ روزنامہ بھاسکر کے خلاف متحد ہونے والے اپوزیشن نے کہا ایسی حکومت کا زوال لازمی ہے ۔ یہ اس کے اپنے دل کی آواز ہے لیکن عظیم تر مالی مصالح کے پیش نظر اس کو دوسروں کے حوالے سے یہ کہنا پڑا۔

اے بی پی نے جہاں کانگریس کے دگوجئے سنگھ کی بیساکھی تھامی وہیں ہندوستان ٹائمز نے اروند کیجریوال کے بیان کا سہارا لیا۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نےکہا کہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کا یہ چھاپہ میڈیا کو ڈرانے کی کوشش ہے۔ ان (سرکار) کا پیغام صاف ہے۔ جو بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف بولے گا ،اسے بخشا نہیں جائے گا۔ اس طرح کی سوچ بے حد خطرناک قرار دے کر کیجریوال نے فوراً اس چھاپے کو روکنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ جب سیاسی رہنما جن باتوں کو کہنے سے ہچکچاتے تھے وہ اخبارات کے نڈر صحافیوں کی جانب سے سامنے آجاتی تھیں ۔ اب اس کے الٹ ہوگیا ہے۔ فی الحال اخبارات والے اپنا مطمحِ نظر بیان کرنے کی خاطر بدعنوان سیاستدانوں کے بیانات کی مدد لے رہے ہیں ۔

ملک کے معروف صحافی شیکھر گپتا ایک زمانے میں بی جے پی کے مخالفت ہوا کرتے تھے لیکن آخری عمر میں ان کا ایمان بھی بک گیا ۔ انہوں نے دی وائر جیسے چینل کا توڑ کرنے کی خاطر دی پرنٹ نامی پورٹل شروع کیا لیکن بڑے خوبصورت انداز میں اس کو متوازن یا معتدل رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس پورٹل کا بھی اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ وہ سرکار پر تمام تر تنقید کے باوجود اس کی حرکات کو جواز فراہم کردیتا ہے ۔ سرکاری کوتاہیوں کی شدت کو کم کرنے کی خاطر اس کا کانگریس کے ماضی یا پاکستان سے موازنہ کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ایسا پہلے سے ہوتا رہا ہے اور دیگر مقامات پر بھی ہورہا ہے۔ اس لیے گویا اس کے خلاف شور شرابہ کرنے کے بجائے چپ چاپ برداشت کرو۔ حیرت کی بات یہ ہے دی پرنٹ نے بھی کانگریس کے حوالے اسے ’مودی فائیڈ‘ چھاپہ اور غیر اعلانیہ ایمرجنسی کا نام دیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ صحافیوں نے ضمیر کو بیچ دیا ہے علامہ اقبال کا یہ شعر بار بار یاد آتا ہے ؎
تھا جو ’ناخُوب، بتدریج وہی ’خُوب‘ ہُوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1229154 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.