”یوٹرن “لینے والے ڈکٹیٹر اوراس
کے حمایتی ،سیاست دان ،فوجی جرنیل ،دانشور ،مفکر ،صحافی اوروہ تمام افراد
جو یوٹرن کی حمایت میں تھے اُن سب نے مل کر ”یوٹرن “قوم کو ہضم کروانے کی
خاطر جو”پھکی“ قوم کو کھلائی تھی اس پھکی کے اجزائے ترکیبی کی تفصیل کافی
لمبی تھی۔اس ”پھکی “میں مسئلہ کشمیر کاحل سرفہرست تھا،ایٹمی اثاثوں کی
حفاظت کی یقین دہانی کرائی گئی تھی ،بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کی وجہ
سے ملک میںموجود بیروزگاری کے یقینی خاتمہ کی گارنٹی شامل تھی، پاکستان پر
واجب الادا بیرونی قرضوں کی معافی کے وعدے کیے گئے تھے ،لامحدود امریکی
اوریورپی ممالک کی امداد کی وجہ سے ملکی ترقی کاوعدہ کیاگیاتھا، پاکستان کی
سا لمیت اورخودمختاری کے تحفظ کی ضمانت موجود تھی،ملکی آزادی کادفاع کرنے
اورعوام کامعیار زندگی بلندکرنے کے بلند بانگ دعوے ملاجلاکر وہ” پھکی“ تیار
کی گئی تھی اوراُس کی ایک ایک” خوراک “پوری قوم کو کھلائی گئی تھی۔جہاں
دیدہ قوتوں نے ایک خوراک کھانے کے بعد ہی کہہ دیاتھاکہ یہ ”پھکی “غیر
معیاری ہے۔اس کے اجزائے ترکیبی میںشامل تمام اجناس جعلی ہیں ۔اس پھکی کی
تیاری میں جو طبیب سرگرم ہے ،وہ اگرچہ پیشہ وارانہ مہارت کاحامل ہے ،جدید
ٹیکنالوجی کاماہر ہے اپنے فن میں کامل فنکار ہے مگر ناقابل اعتبار اوربے
ایمان ہے ۔ایک اچھاطبیب اگر معاملہ کرنے میں بددیانت ہو تو اس کے ہاتھ میں
شفاءنہیں رہتی ۔اسی لیے اُس وقت دیدہ قوتوں ،جن میں مذہبی قائدین ،ریٹائرڈ
جرنیل ،ملک دوست سیاستدان اورقلم کاتقدس ملحوظ خاطر رکھنے والے صحافی شامل
تھے ،نے بڑے پُر زور طریقہ سے اس” پھکی“ کے غیر معیاری ہونے کااعلان
کیااورقوم کوبتایاکہ یہ” پھکی “ ہمارے درد کی دوانہیں۔بلکہ اس سے ہماری
بیماری کم ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوجائے گی ۔اس کامینوفیکچرر کوئی اصول
پسند، دیانت دار،امانت دار اوروعدے کاپکانہیںبلکہ مفادپرست ،بددیانت،خائن
اورجھوٹا ہے ۔اس کے وعدے کی بناءپر یاا س کی یقین دہانی کے بل بوتے پر یہ
غلط غذا یعنی یوٹرن نہ کھائی جائے ۔کیونکہ یوٹرن ہضم کرنے کی خاطر جو ”پھکی
“تیار کی گئی ہے اورہمیں کھلائی جارہی ہے اس کے بظاہر اجزائے ترکیبی بڑے
اچھے ہیں، مگر مینوفیکچرر کی بددیانتی ظاہر کرتی ہے کہ آنے والاوقت ہماری
بیماری میں مزید اضافہ کاباعث ہوگا ۔انہوںنے قوم کوبار بار یہ باور کرانے
کی کوشش کی کہ ”یوٹرن “کوہضم کرنااتناآسان نہیں جتناکہ ڈکٹیٹر اوراس کے
حواری گلے پھاڑ پھاڑ کر اعلان کرتے پھر رہے ہیں ۔نام نہاد دانشور اورقلم کے
جادوگر اس ”پھکی “کی مشہوری کرنے میں مصروف تھے ۔مفاد پرست ٹولہ اس پھکی کی
افادیت لوگوں کوبتانے کی خاطر ٹی وی چینلز پر براجمان تھا۔ناعاقبت اندیش
قومی لیڈران کرام دن رات ایک کرکے اورشاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کراُس
”پھکی “کے استعمال کندگان میں اضافہ کرنے کی سعی کررہے تھے ۔کبھی
کہاجاتاتھاکہ اگر ہم نے یوٹرن نہ لیاتو ترقی نہیں کرسکیں گے۔اورکبھی ”وہ
ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے“ جیسے دھمکی آویز فقرات
کاسہارالیاجاتا۔ الغرض ساری توانیاں خرچ کرکے ڈکٹیٹر اوراس کے حواری قوم کو
اُس کی خواہش کے خلاف یوٹرن لینے اوریوٹرن ہضم کرنے کیلئے پھکی کی خوراک
کھلانے میں کامیاب ہوگئے ۔اس کامیابی کاجشن منانے کیلئے جوتقریب منعقد کی
گئی اس کے سٹیج پر جوبینر لگایاگیااس پر جلی حروف سے لکھاتھا”سب سے پہلے
پاکستان“۔
پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کیاہوا؟وہی ہوا جو مقتدر قوتیں کہاکرتی
تھیں۔پھکی جعلی ثابت ہوئی ،اس کے اجزائے ترکیبی کابھانڈا بیچ چوراہے میں
پھوٹ گیا۔کشمیر کی آزادی کاوعدہ فضامیں بکھیردیاگیا۔ایٹمی اثاثوں کی حفاظت
کرناتودور کی بات ان اثاثوں کے محافظین کواپنی جانوں کے لالے پڑے
ہیں۔بیرونی سرمایہ کاری کیاہوتی بجلی اورگیس کے بحران نے ملکی سرمایہ داروں
کے اعتماد کو بھی زِک پہنچادی کہ وہ بھی ملک سے ہجرت کرنے میں ہی اپنی بقا
سمجھنے لگے۔لاتعداد انڈسٹریز بند ہوگئی ہیں اورجو چل رہی ہیں ان کاحال نہ
پوچھو توبہترہے۔ان حالا ت میں بے روزگاری کاکیاحال ہے اسے سمجھنے کے لئے
اتناکافی ہے کہ ہمارا پڑھالکھانوجوان طبقہ بیروزگاری سے تنگ آکر خود کشی پر
مجبور کردیاگیاہے ۔ملک کے ذمہ واجب الادا بیرونی قرضے معاف کہاں ہوئے بلکہ
ان میں کئی سو فی صد اضافہ ہوچکاہے۔اورگزرتے وقت کے ساتھ مزید سے مزید
اضافہ ہوتاچلاجائے گا۔یورپی ممالک اورامریکہ کی طرف سے امداد کے جو وعدے
کیے گئے تھے وہ کھوکھلے نعروں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ۔ فرض کریں اگر سو
روپے کی امداد ملی تواس کے بدلے دس ہزار کانقصان کیاگیا۔ پاکستان کی سا
لمیت اورخودمختاری کے تحفظ کی کہانی ذرا غور سے سننے کے لائق ہے ۔پہلے اگر
کبھی کوئی دشمن پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتاتومار گرایاجاتااوراب
پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کومبارک باد دی جاتی ہے اوراس
کارستانی کو دشمن کی عظیم فتح قراردیاجاتاہے جس کاثبوت ایبٹ آبا د کے ڈرامہ
کے فوری بعد کاوہ ردعمل ہے جس کااظہار ملک کے چیف ایگزیکٹو صاحب نے
کیا۔کبھی جی ایچ کیو پر حملہ اور کبھی نیوی کے کیمپ پر ہونے والی دراندازی
کے موقع پر پاکستانی فوجو ں کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کاامتحان ۔عوام کا
معیار زندگی بلند کرنے کے دعوے کاذکر نہ ہی کیاجائے توبہتر ہے ۔بجلی ،گیس
،آٹا ،چینی،سبزی ،دال ،گوشت ،چاول ،پٹرول کس کس کاذکر کریں۔کون سی چیز عوام
کی قوت خرید میں رہی ہے۔اس دکھ کو نہ ہی چھیڑا جائے تواچھاہے۔ غریب عوام کی
موجودہ حالت سے کون واقف نہیں ۔ساری دنیاجانتی ہے کہ پاکستان کے غریب عوام
جس طرح زندگی گزارنے پر مجبور کردیے گئے اس طرح توشاید پتھر کے زمانے میں
بھی نہ ہوتاتھا۔اچھاتھاکہ ہم یوٹرن نہ لیتے اوردیکھتے کہ امریکہ ہمیں کیسے
پتھر کے زمانے میں دھکیلنے میں کامیاب ہوتاہے ۔اب تو وہ بڑی آسانی سے ہمیں
پتھر کے زمانے میںدھکیل چکا۔گیس بند ،بجلی بند،پٹرول ہماری پہنچ سے
باہر،آٹا نصیب سے ،ضروریات زندگی کاپوراہونا نہایت مشکل ،بیرونی قرضوں
کابوجھ اتناکہ ہرپیداہونے والابچہ ساٹھ ہزار کامقروض ،ملکی سرحدوں کادفاع
تودُور کی بات ،فوجی چھاﺅنیوں کادفاع ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیاہے،کشمیر
کیاآزاد کرواتے بھارت نے آزاد کشمیر بھی خالی کرنے کاحکم جاری کردیاہے
اورنہ جانے اب تک انکل سام کیوں خاموش ہے۔ویسے دبے دبے الفاظ میں اس نے کہہ
دیاہے کہ بھارت کودشمن سمجھنااسلام آباد کی غلطی ہے۔واہ رے دوستی واہ رے
نان نیٹو اتحادی ،واہ رے فرنٹ لائن سٹیٹ ،شاباش ہے ان سپوتوں پر جنہوں نے
یوٹرن کو دریافت کیا، ہم پر ٹھونس دیااوراسے ہضم کرنے کیلئے ”امریکی پھکی
“کی خوراک بھی دے دی ۔یوٹرن کیا ہضم ہوتا”امریکی پھکی “کاسائیڈ ایفیکٹ موشن
کی شکل میں ساری قوم ،سیاستدان ،فوجی قائدین ،اشرافیہ اورعوام کو چین نہیں
لینے دے رہے۔پتھر کے دور میں لوگ عزت کے ساتھ زندہ تورہتے تھے ہماری طرح بے
غیرتی کی زندگی کبھی نہ قبول کرتے تھے ۔ہم نے سو چھتر بھی کھائے اورسو پیا
ز بھی کھاناپڑ رہے ہیں ۔اوریہ سب کیادھرا اس غلط فیصلے کیاہے جسے لوگ یوٹرن
کے نام سے جانتے اورپہچانتے ہیں۔اگرآج بھی سچے دل سے، خلوص کے ساتھ، یوٹر ن
سے توبہ تائب ہوکر ”امریکی پھکی “سے جان چھڑالی جائے تو یقین کیجئے اس قوم
کوکوئی بھی نہ توتقسیم کرسکے گا اورنہ ہی کوئی طاقت شکست دے سکے گی۔صرف
اورصرف نیت کاصاف ہوناشرط ہے۔ایک بار پھر فیصلہ کرلیاجاناچاہئے کہ ہمیں عزت
کے ساتھ پتھر کے دور میں رہناہے یابے غیرتی کے ساتھ پاکستان کے مقتدر افراد
کویہ فیصلہ جلد ہی کرلیناچاہئے ، وگرنہ ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں
میں ۔ |