پاکستانی سیا ست کا المیہ یہ ہے
کہ یہاں پر اکثر سیاسی جما عتیں حقیقی معنوں میں سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ
چند پر یشر گروپ ہیں جو اپنے اپنے مفادات کے تحفظ میں بر سرِ پیکار رہتے
ہیں اور اس دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اصو ل ضابطے اور
اخلاقیات کا دور دور تک نا م و نشان نہیں ملتا۔ سچائی کس چڑیا کا نام ہے
کسی کو خبر نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ان جماعتوں کو حکو متیں بدلنے کےلئے اکثر و
بیشتر استعمال کرتی رہتی ہے۔ انکے ہاں سیاست ذاتی مفادات سے شروع ہوتی ہے
اور اسی پر اسکا ا ختتام بھی ہو جاتا ہے۔ بلند و با نگ دعووں اور نعروں کی
آوازیں ہر سمت سنائی دیتی ہیں لیکن ان میں صداقت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
ان کی سیاست کی بنیادیں جھوٹ پر استوار ہوتی ہے اور دھوکہ دہی پر اس کا
خاتمہ ہو جاتا ہے۔ دعوؤں کا واحد مقصد لوگوں کو بیوقوف بنا نا اور اپنی
پارسا ئی کا یقین دلا نا ہوتا ہے۔قومی مفاد کی چھتری کے نیچے قلا با ز یا ں
کھانا اور موقف کو تبدیل کر لینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ حیران کن بات یہ
ہے کہ یہ سب کچھ دن کے اجالے میں کیا جاتا ہے اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کیا
جاتا ہے۔ قومی مفاد اور ملکی سلامتی کے نام پر موقف بد لنے میں اپنا ثانی
نہیں رکھتے ۔ سیاسی ا تحاد ٹوٹنے سے سارا منظر نامہ بدل جاتا ہے اور ایک
دوسرے پر سنگین الزامات تعریف و توصیح میں بدل جاتے ہیں۔ کل کے مطعون
انتہائی پارسا بن جا تے ہیں کیونکہ اب وہ عدو کی صفوں میں نہیں بلکہ اپنی
صفوں میں موجود ہوتے ہیں اور اپنی صفوں کا مطلب انھیں مقدس،وطن پرست
اوراصول پسند ظاہر کرنا ہوتا ہے وگرنہ لوگوں کی انگلیاں اٹھیں گی اور اگر ا
نگلیاں اٹھ گئیں تو ایک قیا مت برپا ہو جائےگی لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ
عوام کوملکی مفادات کی بالادستی کی افیم کھلا کر ان سے ہوش و حواس چھین لئے
جائیں تا کہ ان میں حق کا ادراک، تنقید کرنے کا ہنر اور فکر و عمل کا مادہ
ہی ختم ہو جائے۔
متحدہ قومی مو ومنٹ جو پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت ہے آج کل نئے پینترے
بدل رہی ہے اور اپنی اتحادی جماعت پی پی پی کو خیر باد کہہ کر اپوزیشن
بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔اگر چہ وہ یہی عمل کئی دفعہ پہلے بھی
دہرا چکی ہے اور حکومت سے نکلنے کے بعد کئی دفعہ واپس حکومت میں شامل ہو تی
رہی ہے۔سیاسی جماعت ہو نے کے ناطے متحدہ قومی مو ومنٹ کو اس کا مکمل حق
حاصل ہے کہ وہ حکومت میں رہنے یہ نہ رہنے کا فیصلہ کرے لیکن اس کے بھی کچھ
آداب ہیں۔ کراچی کی دو سیٹوں پر انتخابات کے التوا سے ا تحادی حکومت کو
چھوڑ دینے کا اتنا بڑا فیصلہ اہل سیاست کی نظروں سے پہلی بار گزر رہا ہے۔
سیاست میں اختلا فِ رائے بھی ہوتا ہے اور اکثرو بیشتر اپنے موقف سے
دستبردار بھی ہو نا پڑتا ہے کیونکہ جمہوریت میں اکثریتی رائے کو مقدم جانا
جاتا ہے۔ یہ نہیں ہونا چائیے کہ رات کو سوتے میں کوئی ڈراﺅنا خواب دیکھا
اور صبح اپنے اتحادیوں کو خیر باد کہہ دیا ۔ ایسا طرزِ عمل تو پورے جمہوری
نظام کو تباہ و برباد کرنے کے مترادف ہے لیکن پاکستان میں اس طرح کے مظاہر
عام ہیں اور عوام کو ایسے طرزِ عمل پر بہت زیادہ حیرانگی نہیں ہو تی کیو
نکہ ہمارے سیاست دانوں کا ذہنی افق اتنا ہی ہے کہ ان سے سنجیدہ طرزِ عمل کی
امید رکھنا سوئی کے نکے سے ہاتھی گزارنے کے مترادف ہو تا ہے۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ۷۰۰۲ کے انتخابات سے قبل میاں محمد نواز شریف
نے لندن میں ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی تھی جس میں متحدہ قومی مو ومنٹ
کو مدعو نہیں کیا گیا تھا ۔ میاں محمد نواز شریف نے ایم کیو ایم کے خلاف اس
کانفرنس میں بزورِ قوت یہ قرارداد منظور کروائی تھی کہ ایم کیو ایم کو
آئندہ کسی حکومتی سیٹ اپ اور اتحاد میں شامل نہیں کیا جائےگا کیونکہ یہ
جماعت دھشت گرد بھی ہے اور آمریت کی تقویت کا باعث بھی ہے۔ محترمہ بے نظیر
بھٹو نے میاں محمد نواز شریف کے اس بیان پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے
کہا تھا کہ کسی جماعت کو اقتدار میں لانے یا نہ لانے کا فیصلہ کرنے کا
اختیار عوام کو حاصل ہو تا ہے لہذا ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کسی جماعت کی
قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ہمیں الیکشن کے نتائج کا انتظار کرناچائیے اور
اس کے بعد ا نہی نتائج کی روشنی میں کسی جماعت کی قسمت کا فیصلہ ہونا
چائیے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو الیکشن کے نتائج دیکھنے کےلئے تو زندہ نہ رہیں
لیکن کراچی کے عوام نے متحدہ قومی مو ومنٹ کو اپنے مینڈیٹ سے نوازا اور یوں
یہ جماعت پی پی پی کی ا تحادی بن کر سامنے آئی اور سندھ اور مرکز میں شریکِ
اقتدار ہوئی۔
وکلا تحریک میں متحدہ قومی مو ومنٹ کا کردار عوامی امنگوں کا آئینہ دار
نہیں تھا کیونکہ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف کے ساتھ شریکِ اقتدار تھی اور
جنرل صاحب کے ساتھ مل کر اس نے وکلا تحریک کو کچلنے میں بنیادی کردار ادا
کیا تھا۔۱۲ مئی ۷۰۰۲ میں چیف جسٹس کی کراچی آمد کے موقع پر کراچی میں خون
کی جو ہولی کھیلی گئی اس کا سارا الزام متحدہ قومی مو ومنٹ کے سر پر لگایا
جاتا ہے۔ اس دن ۲۶ لوگوں کو بے رحمانہ انداز میں قتل کیا گیا۔ کچھ وکلا کو
ان کے چیمبرز میں نذرِ آتش کیا گیا۔ سفاکیت کا اسطرح مظاہرہ کرنے پر بہت سی
سیاسی جماعتیں متحدہ قومی مو ومنٹ کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑی ہو گئیں ۔ میاں
محمد نواز شریف نے اس واقعہ پر بڑا سخت موقف اختیار کیا اور متحدہ قومی مو
ومنٹ کے اس سفا کانہ کردار پر ہر فورم پر اسکی مذ مت کی۔ انھوں نے واشگاف
الفاظ میں کہا کہ یہ جماعت دھشت گرد ہے اور اس سے بات چیت نہیں ہو سکتی۔
ٹیلیویژن کے ٹاک شوز کے اندر مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی مو ومنٹ کے
درمیان گرما گرم بحث و مبا حثہ ، جھڑپیں،گالی گلوچ اور غیر اخلاقی گفتگو
روز مرہ کے معمولات تھے۔ الزامات در الزامات کا ایک طویل سلسلہ تھا جس میں
دونوں کی پگڑ یاں اچھلتی تھیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ۔ ۱۲ مئی کے
واقعات میں حقائق کو جانچنے کی خاطر متحدہ قومی مو ومنٹ کے خلاف سندھ ہا ئی
کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کی گئی لیکن اس کا خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہ ہو
سکا کیونکہ سندھ کے ججز کو بعد میں زندہ بھی رہنا تھا اور کراچی میں ہی
رہنا تھا۔لہذا اسکا امکان کم تھا کہ کوئی فیصلہ متحدہ قومی موو منٹ کے خلاف
آئےگا اور ایسا ہی ہوا متحدہ کا دامن صاف کر دیا گیا ۔
یہ بات میرے فہم و ادراک سے ماورا ہے کہ راتوں رات نجانے کیا ہوا کہ متحدہ
قومی مو ومنٹ مسلم لیگ (ن) کی آنکھ کا تارابن گئی اور مسلم لیگ (ن) کی ساری
امیدوں کا مرکز و محور ٹھہری ۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) ایم کیو ایم کے ناز
اٹھا رہی ہے اور اس کے نحروں پر قتل ہو رہی ہے۔متحد ہ قومی موومنٹ بھی مسلم
لیگ (ن) کی گود میں بیٹھ کر روما نوی لمحات سے دل بہلا رہی ہے۔ دھشت گردی
کا کوئی نشان تک بھی متحدہ قومی موو منٹ کی پوشاک پر نہیں رہنے دیا گیا
بلکہ اسے انتہائی پر امن اور جمہوری اصولوں کی کاربند جماعت کے طور پر پیش
کیا جا رہا ہے۔ اب کیمروں کے سامنے اسی جماعت کو جس کا نام میاں محمد نواز
شریف نے دھشت گرد جماعت رکھا ہوا تھا اور جسے امن و امان اور انسانیت کا
دشمن قرار دیا تھا آج مسلم لیگ (ن) اسی جماعت کا جمہوری تشخص ابھارنے کی
کوشش ہو رہی ہے اور اس کے جمہوری کردار کی تعریف و توصیح ہو رہی ہے ۔ جنرل
پرویز مشرف کی سب سے مضبوط اتحادی جماعت ایم کیو ایم کو ہم میاں محمد نواز
شریف کے پہلو میں بیٹھا دیکھ کر میاں برادران کی اصولی سیاست کا نادر
شاہکار کہہ سکتے ہیں۔ہم میاں برادران کی اصولی سیاست کی داد دئے بغیر نہیں
رہ سکتے کہ انھوں نے واقعی جنرل پر ویز مشرف کی باقیات سے ہاتھ نہیں ملائے
بلکہ دل ملائے ہیں۔کیاہی اچھا ہوتا کہ میاں محمد نواز شریف قومی مفاد کی
خاطر جنرل پرو یز مشرف کے ساتھ بھی دستِ تعاون دراز کر لیتے تاکہ قومی مفاد
کا نعرہ اور زیادہ پر کشش بن جاتا نہیں تو بہت سے لوگوں کو یہی احساس ڈنگ
مارتا رہے گا کہ قومی سلامتی کے نام پر ذاتی مفادات کا کاروبار چمکانے کی
کوشش ہو رہی ہے۔عوام مسلم لیگ (ن)کیقومی مفاد کی پالیسی کی داد ضرور دیں گے
کیونکہ پہلے ملکی مفاد کے نام پر پنجاب میں لوٹوں کی سیاست کا اجراح کیا
گیا اور مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ممبران کا ایک یونیفکیشن
بلاک بنا کر اپنی حکومت کو سہارابنایا گیا اور اب جمہوری نظام کو غیر
مستحکم کرنے کےلئے ایم کیو ایم کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے نئے کھیل کا آغاز کر
دیا گیا ہے۔۱۲ مئی ۷۰۰۲ کے شہدا کا خون صرف سیاسی نعرہ تھا اس کی حرمت کا
نہ کل پاس تھا، نہ اس کا تقدس عزیز تھا اور نہ کبھی اس کی کوئی اہمیت تھی۔
اسے تو ایک نعرے کے طور پر ذاتی مفادات کےلئے استعمال کیا گیا تھا اور اس
طرح کے نعرے تو ہم اکثرو بیشتر سنتے رہتے ہیں لہذا اگر ۱۲ مئی کے خون سے بے
وفائی کی گئی ہے تو عوام کو اس پر حیران نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ پاکستانی
سیاست میں ذاتی مفادکو ہمیشہ ہی لہو کی حرمت سے زیادہ مقدم رکھا گیا ہے
لیکن اسے بڑی خونصورتی اور چابکدستی سے قومی مفادات کے حسین و جمیل پیکر
میں پیش کر دیا جاتا ہے تاکہ عوام کو مزید بیوقوف بنایا جا سکے۔۔
دامن پہ کوئی داغ نہ آنچل پہ کوئی دھبہ۔۔ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
موجودہ سیاسی صورتِ حال میں مسلم لیگ (ن) یہ سمجھ رہی ہے کہ متحدہ قومی مو
ومنٹ کے ارکانِ اسمبلی کی حمائت حاصل ہو جانے کے بعد وہ پی پی پی کی حکومت
کو غیر مستحکم کر سکتی ہے اور اپنے لئے اقتدار کی راہیں کھول سکتی ہے اور
اپنے اسی رومان پرور تصور میں رنگ بھرنے کےلئے ایم کیو ایم کی بڑی آﺅ بھگت
کی جا رہی ہے ۔ خواب دیکھنے پر تو کوئی پابندی نہیں ہوتی لہذا اس کا حق
مسلم لیگ (ن) کو بھی ہے لیکن اگر مسلم لیگ (ن) پی پی پی کی موجودہ حکومت کو
ایم کیو ایم کی مدد سے الٹ دینے کا سوچ رہی ہے تو یہ اس کی بھول ہے ۔ ہاں
ایک گناہِ بے لذت ضرور ہے جسے مسلم لیگ(ن) کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب
سیاست کی بنیاد یہ ہو کہ حکومت کو غیر مستحکم کرنا ہے تو پھر جو جمہوری
نظام تر تیب پائےگا اسکی بنیاد ہی بلیک میلنگ پر رکھی جائےگی۔ ہم اپنے
معاشرے میں اخلاقی قدروں کی کمی کا جو رونا روتے ہیں وہ ہمارے قائدین کی
ایسی ہی بے ہودہ حرکتوں کی وجہ سے ہے۔اگر سیاست میں کسی اخلاقی جواز اور
اصول کو اپنایا جائے تو پھر عوام میں بھی اصول و ضوابط سے محبت کی عکاسی
ہوتی ہے لیکن اگر قائدین ہی اصو لو ں کا خون کرنا شروع کر دیں تو پھر اصول
پرستی کہاں سے آئےگی؟ ذاتی مفاد کی خاطر جب دھشت گرد جماعتوں کو صالحیت کے
سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے شروع کر دئے جا ئیں تو پھر اخلاقی بانجھ پن کا اندازہ
با آ سانی لگایا جا سکتا ہے۔۔
گلہ تو گھو نٹ دیا ا ہلِ مدرسہ نے تیرا۔۔۔ کہاں سے آئے گی صدا لا ا لہ ا لا
اللہ (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
بھارت میں وزیرِ اعظم نرسما راﺅ کی اقلیتی حکومت پانچ سال تک اقلیتی حکومت
ہی رہی لیکن کسی نے اس حکومت کے خلاف پاکستانی سیاست والی مہم جوئی کی حرکت
کرنے کی کوشش نہیں کی تھی جوکے پاکستانی سیاست کا خاصہ ہے۔ا ٹل بہاری
باچپائی کی حکومت کے پاس کون سی اکثریت تھی ۔ ایک مخلوط حکومت قائم کی گئی
تھی جس میں بے شمار علاقائی جماعتیں شامل تھیں لیکن یہ حکومت بھی پانچ سال
چلی یہی حال من موہن سنگھ کی پچھلی حکومت تھا جس میں کا نگرس کی ۲۴۵ کے
ایوان میں ۰۳۱ کے قریب سیٹیں تھیں لیکن یہ حکومت بھی پانچ سال چلی۔ کیمو
نسٹ جماعت نے کانگرس حکومت سے اس کی امریکن نواز پالیسیوں کی وجہ سے اپنی
حمائت واپس لے لی تو ملائم سنگھ یادیو نے من موہن سنگھ کی حکومت کو سہا را
د ے کر گرنے سے بچا لیا۔کیمونسٹ جماعت نے بھی حمائت واپس لینے کے بعد کو ئی
ایسی حرکت نہیں کی تھی جس سے ان کا جمہوری نظام کسی مشکل کا شکار ہو جائے
۔ہمارے ہاں آئے روز ہندوستانی جمہوریت کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن اس
جمہوری ی نظام کی روح کو ہمارے سیاست دان اپنانے کو تیار نہیں ہوتے۔ ہما رے
سیاست دانوں میں مہم جوئی کا جو کیڑا ہے کاش کوئی اس کا علاج کردے۔ جب تک
اس کیڑے کا علاج نہیں ہوتا پاکستانی سیاست کی غیر یقینی صورتِ حال کو قابو
میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا ۔ |