حضرت امام حسین علیہ السلام کی شخصیت
(محمدبرھان الحق)
صدق خلیل بھی ہے عشق ،صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق
نواسۂ رسول،جگر گوشۂ بتول ،نوجوانانِ جنت کے سردار، سرلار قافلہ کربلا ،
علم بردار حق و صداقت ، سید نا حضرت حسینؓ،رحمۃ اللعالمین، خاتم النبیین
حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے چہیتے نواسے، شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور
سیدۃ النساء اہل الجنتہ حضرت فاطمۃ الزہراءؓکے عظیم فرزنداور حضرت حسنؓ کے
چھوٹے بھائی ہیں۔ ابو عبداللہ آپؓ کی کنیت، سید، مبارک، سبط النبیؐ،
ریحانۃ النبیؐ اور نواسۂ رسول القابات ہیں۔
حضرت امام حسین 4ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ولادت باسعادت کی خبر
پا کر مختار کون ومکاںﷺ حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے اورحضرت حسینؓ کے
کانوں میں اذان دی ۔ آپؓ کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا، آپؓ کے لئے دعا
فرمائی اور آپؓ کا نام نامی حسینؓ رکھا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ حضور ﷺ نے خود امام حسن وحسین کے عقیقے کیے۔
حضرت امام حسینؓ اپنی ذات میں ایک امت تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نہ صرف صورت
بلکہ سیرت مبارکہ میں بھی آقا ﷺ کے شبیہ تھے۔ آپؓ کی ذات بابرکات اتنے
زیادہ محاسن و محامد سے آراستہ ہے کہ نگاہیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔حضرت امام
حسین ؓ نے علم و تقویٰ کے ماحول میں آنکھ کھولی اور خانوادۂ نبیﷺمیں
پرورش پائی، اسی لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ معدنِ فضل و کمال بن گئے۔
باب علم تو آپؓ کے گھر میں کھلتا تھا اور تقویٰ تو سیدنا حسینؓ کو گھٹی
میں شامل تھا، اسی لئے فطری طور پر آپؓ نا صرف شریعت بلکہ طریقت کے امام
تھے۔
آپ کی عظمت پربے شمار آیات و احادیث ہیں
آپ ﷺنے فرمایا:
حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
دوسری جگہ فرمایا :
حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں جو ان سے محبت کرے گا اس نے مجھ سے
محبت کی اور جو ان سے بغض رکھے گا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
امام حسینؓ پیکرجود و سخا تھے ،روایت میں آتا ہے کہ "ابو ہشام قناد"بصرہ سے
امام حسینؓ کیلئے کچھ مال بھیجا کرتے تھے آپ وہ سارا مال لوگوں کو تقسیم
کردیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ ایک گدا گر مدینہ کی گلیوں میں صدا لگا رہا تھا کہ چلتے چلتے وہ
امام حسین ؓکے دروازے پر پہنچا۔ دروازے پر دستک دی اورشعر پڑھنے لگا ۔ "
کہ کیا آج وہ شخص نا امید پلٹا ہے جو آپ سے امید رکھتا ہے اور اس نے آپ
کے دروازے پر دستک دی ہے ۔
آپ صا حب جو د وسخا ہیں ، آپ بخشش کی معدن ہیں امام حسینؓ مصروف نماز تھے
، آپ نے نماز کو جلدی ختم کیا اور باہر تشریف لائے ،آپ نے اس اعرابی کے
چہرے سے غربت و مفلسی کوجان لیا، آپ واپس پلٹ گئے اور قنبر کو آواز دی آپ
نے فرمایا ہمارے اخراجات کے پیسوں میں سے کتنے باقی ہیں ،قنبر نے عرض کیا
دوسو درہم ہیں کہ جن کے بارے میں ا ٓپ نے فرمایا کہ اہل بیت میں تقسیم کروں
آپ نے فرمایا کہ وہ تمام لاو،کوئی شخص آیا ہے جو اُن سے زیادہ مستحق ہے
ہم اگر حضرت امام حسین علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کو سامنے رکھ کر اپنی
زندگی بسر کریں تو یقینا ہم تحت الثری سے اوج ثریا پر پہنچ جائیں گے
|