حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ تاریخ اسلام کی ایسی
شخصیت ہیں جن کا دورِ خلافت قیامت تک کے آنے والے حکمرانوں کے لیے مشعلِ
راہ ہے۔ آپ نے اپنی سیاسی بصیرت سے اسلامی سلطنت کو وسعت دے کر تقریباً ۲۳
لاکھ مربع میل تک پھیلایا۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے دس سالہ عہدِ خلافت میں بڑی
بڑی سلطنتوں کو اپنے زیرِ نگیں کیا۔ تاریخ کے نامور فاتح سکندرِ اعظم،
چنگیز خان اور تیمور لنگ کے ناموں سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے بھی بڑی بڑی
فتوحات کیں، کئی ممالک کو زیرِ نگیں کیا ۔ مگر جب وہ فتوحات سے فارغ ہوتے
تو جگہ جگہ انسانی لاشیں، کھوپڑیوں کے پہاڑ، خون کی ندیاں ، ہر جگہ ویرانی
نظر آتی ۔ وہ جہاں سے گزرتے اسے ویران کردیتے۔ مگر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ
عنہ کے عہدِ خلافت میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں گرپایا۔ ایران و روم جیسی
سپر پاور سلطنتیں جس انداز اور احتیاط سے فتح ہوئیں کہ بڑے بڑے تاریخ دان
ظلم و ستم کی ایک مثال بھی پیش نہ کرسکے۔ فتوحات سے بڑھ کر آپ نے نظام
حکومت کو منظم کیا ۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آپ کے دور میں حکومت اور
سلطنت کا باقاعدہ نظام شروع ہوا۔ آپ نے نظام حکومت کو چلانے کے لیے متعدد
محکمے اور انتظامی شعبہ جات قائم کیے اور ان سب سے نگران مقرر فرمائے۔ آپ
نگران مقرر کرنے کے بعد ان کا احتساب بھی کیاکرتے تھے۔ آپ کے عہد خلافت کا
انتظامی ڈھانچہ مندرجہ ذیل ہیں:
نظام عدل:
آپ نے عدل و انصاف کا ایسانظام قائم کیا کہ تاریخ اتنی وسیع و عریض سلطنت
میں ظلم و زیادتی کی ایک مثال بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپ کے دور کا
نمایاں وصف عد ل وانصاف ہے۔ آپ کے دورِ حکومت میں انصاف سے کبھی بھی سرِ مو
انحراف نہیں ہوا۔ یہ انصاف صرف مسلمانوں تک محدود نہیں تھابلکہ غیر مسلموں
کے ساتھ بھی انصاف روا رکھاجاتا تھا۔ یعنی نظام عدل میں مسلم او رغیر مسلم
کا کوئی فرق نہیں تھا۔ آپ کے ایوانِ عدل میں اعلیٰ و ادنی، امیر و غریب،
آقا وغلام، خویش و بیگانہ سب برابر تھے۔ جو بھی ظالم ثابت ہوتا ، اسے سزا
دی جاتی۔ اسی نظام سے متاثر ہوکر غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوتے ۔
نظام قضاء:
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ قضاۃ کے معاملے میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔
آپ اس منصب کے لیے انہی بزرگوں کا انتخاب فرماتے تھے جن کا علم تقویٰ،
ذہانت اور قوت فیصلہ مسلم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے عہد میں نظام انصاف بے
مثال تھا۔ آپ نے انسداد رشوت کے لیے قاضیوں کی بیش بہا تنخواہیں مقرر کیں۔
یہ قاعدہ مقرر کیا کہ دولت مند اور معزز شخص کے علاوہ معمولی آدمی قاضی
نہیں ہوسکتا اور اس کی وجہ یہ ظاہر کی کہ دولت مند رشوت کی طرف راٖغب نہ
ہوگا اور معزز شخص فیصلہ کرنے میں کسی کے رعب سے متاثر نہیں ہوگا۔ (تاریخ
اسلام ، ص ۱۷۲) حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا یہ طرزِ عمل رہتی دنیا تک کے
لیے عظیم مشعلِ راہ ہے کہ قاضی (جج) کو کسی کے بھی زیرِ اثر نہیں ہونا
چاہیے اور تمام تر شہادتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بغیر کسی شخص کے دباؤ
میں آکر فیصلہ کرنا چا ہیے ۔
نظام احتساب:
آپ نے احتساب کا سخت نظام قائم کیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے گھر والوں کا
بھی سخت احتساب فرمایا کرتے تھے۔ کتب تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں جن میں
آپ نے اپنے بیٹے، بیٹی اور زوجہ کا احتساب کیا اور انہیں تنبیہ کی۔ آپ
بطورِ احتیاط بعض اوقات ایسے کاموں سے بھی اپنے گھروالوں کو منع کرتے تھے
جو فی نفسہ جائز اور مباح ہوتے تھے۔
پولیس کا محکمہ:
آپ نے پولیس کا باقاعدہ اور مستقل محکمہ قائم کیا تاکہ امن وامان کے قیام
کو یقنی بنایا جاسکے اور شہریوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
لوگوں کے مختلف معاملات پر نظر رکھنے کے لیے آپ نے مختلف پولیس افسروں
کومقرر کررکھاتھا۔ اس محکمہ کا کام امن و امان کے قیام کے ساتھ ساتھ
معمولاتِ زندگی میں غیر قانونی اور غیر اسلامی افعال سے روکنا بھی تھا۔
جیل خانے:
آپ نے جیل خانے قائم کیے جن میں مختلف جرائم پیشہ لوگوں کو قید کیا جاتا
تھا۔ آپ نے سب سے پہلے مکہ میں چار ہزار درہم کے عوض صفوان بن امیہ کا گھر
خرید کر اسے جیل خانہ بنایا۔ اس کے علاوہ دیگر اضلاع میں بھی جیل خانے
بنائے۔
محکمہ ٔ آبپاشی:
آپ نے زراعت کی سیرابی اور رعایا کی ضرورت کے لیے متعدد نہریں کھدوائیں۔ آپ
نے آبپاشی کا وسیع محکمہ قائم کیا۔ مقریزی کے بیان کے مطابق خاص مصر میں
ایک لاکھ بیس ہزار مزدور حکومت کی جانب سے اس کام میں لگے رہتے تھے۔ (تاریخ
اسلا م، ص ۱۷۵)
بیت المال کا قیام:
آپ نے بیت المال کے نظام کو وسعت دی۔ تمام صوبوں اور مرکزی مقامات میں بیت
المال قائم کیے اور ان کے لیے وسیع عمارتیں بنوائیں اور دیانتدار افسران کا
تقرر کیا۔ حضرت عبداﷲ بن ارقم رضی اﷲ عنہ پہلے وزیرِ خزا نہ مقرر کیے گئے۔
نظام تعلیم:
آپ نے تمام مفتوحہ علاقوں میں قرآن پاک کی درس و تدریس کا معاملہ شروع
کروایا ۔ اس کے لیے آپ نے قرآن سکھانے والے معلمین کو مقرر فرمایا جو لوگوں
کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ کے عہد میں قرآن کی تعلیم لازمی تھی۔ آپ نے
حضرت ابوسفیان رضی اﷲ عنہ کو چند آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا کہ وہ قبائل
میں جاکر ہر شخص کا امتحان لیں اور جسے قرآن کا کوئی حصہ یاد نہ ہو، اسے
سزادیں۔ آپ نے اس کا نصاب بھی مقرر فرمایا، ایک روایت کے مطابق سورۃ
البقرۃ، سورۃ النساء، سورۃ المائدۃ، سورۃ الحج کو یاد کرنا ضروری قرار دیا۔
(تاریخ اسلام ، ص ۱۷۹)
الغرض دورِ فاروقی تاریخِ اسلام کا ایک عظیم اور مثالی دور گزرا ہے جس میں
اسلامی ریاست کے انتظام و انصرام کے درست تصور کی عملی تصویر پیش کی گئی۔
اتنی بڑی سلطنت کے حاکم ہونے کے باجود سادگی، عاجزی اور انکساری آپ کا خاصہ
تھی۔ آپ کے پیشِ نظر خدمت خلق کا جذبہ تھا۔ آپ نے رعایا کی خبر گیری کو
لازم رکھا اور آپ نے عوام کے لیے اپنا دروازہ کھلا رکھنے کی پالیسی اپنا
رکھی تھی ، نیز اپنے گورنروں اور دیگر اہلکارو ں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ
عوام پر اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھیں او ر مظلوموں کی داد رسی کریں۔یہی
وجہ ہے کہ عدل و انصاف اور رعایاکی خبر گیری میں آج بھی دورِ فاروقی
کوبطورِ مثال پیش کیاجاتا ہے۔
|