دشمن ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپوں کی خبریں تو عام ہیں
لیکن اندرون ِملک صوبوں کے بیچ خونریز سرحدی تصادم شاذونادر ہوتے ہیں۔ اس
تنازع کا سب سے شرمناک پہلو آسامی وزیر اعلی نے ٹویٹ سے منسلک ویڈیو میں
سامنے آیا جس میں آسام پولیس کے ۶ جوانوں کو ہلاک کرنے کے بعد میزورم کی
پولیس جشن منا تی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ ایسا تو چینیوں نے بھی نہیں کیا
تھا۔ اوپر سے میزورم کے وزیر اعلیٰ زورم تھانگا نے ٹکراؤ کی ذمہ داری آسام
پولس کے سرمنڈھ دی ہے۔ ان کے مطابق تصادم اس وقت شروع ہوا جب کچھار ضلع کے
ویرنگتے آٹو رکشا سٹینڈ کے نزدیک واقع سی آر پی ایف پوسٹ میں آسام کے دو سو
سے زیادہ پولیس اہلکار پہنچ گئے۔ انھوں نے میزورم پولیس اور مقامی لوگوں کو
تشدد کا نشانہ بنایااور مقامی مجمع پر لاٹھی چارج کرنے کے بعد آنسو گیس کے
گولے داغے گئے۔ اعلیٰ پولیس اہلکاروں نے آسام پولیس کو سمجھانے کی کوشش کی
مگر اس کے جواب میں دستی بم پھینکے گئے اور فائرنگ کی گئی ۔اس کے بعد
مجبوراً میزورم پولیس نے فائرنگ کی۔
آسامی وزیر اعلیٰ کے مطابق تنازع کا سبب میزورم حکومت کی جانب سے آسام کے
علاقے لیلیٰ پور میں سڑک تعمیر کرنا تھا ۔ اس کو روکنے کی خاطر آسام پولیس
کے انسپکٹر جنرل، ڈی آئی جی اور ایس پی جیسے اعلیٰ اہلکار وہاں گئے تو
مقامی لوگوں نے پتھراؤ شروع کر دیا۔بات چیت کے دوران جب کشیدگی بڑھی تو
میزورم پولیس نے گولی چلا دی جس میں آسام پولیس کے کم از کم 6؍ اہلکار ہلاک
اور کچھار ضلع کے ڈی ایس پی سمیت پچاس سے زیاد افراد زخمی ہوگئے۔آسام کے
ساتھ میزورم کی سرحد تقریباً 165 کلو میٹر لمبی ہے جس میں میزورم کے تین
اضلاع آئزول، کولا سیب اور ممیت نیز آسام کے کچھار، کریم گنج اور ہیلا
کاندی ہیں۔ پچھلے سال بھی کچھار ضلع کے لیلیٰ پور گاؤں اور میزورم کے کے
ویرنگتے علاقے میں سرحدی تنازعے کے باعث پر تشدد پھوٹ پڑا تھا اور آٹھ
افراد زخمی ہوگئے تھے۔ ایسا ہوتا رہا ہے مگر گولیاں پہلی بار چلائی گئی ہیں
۔
آسام اور میزورم کے مابین یہ سرحدی تنازعہ 146 سال پرانا ہے۔ سن 1875 میں
انگریزوں نے آسام میں میزورم اور کچھار کے مابین سرحد کا تعین کیا تھا۔ اس
سے قبل شمال مشرق میں منی پور ، تری پورہ اورگریٹر آسام نامی تین ریاستیں
تھیں ۔میزورم ، میگھالیہ ، ناگالینڈ اور اروناچل پردیش آسام کا حصہ تھے۔
آزادی کے بعد زبان ، ثقافت اور منفرد قبائلی شناخت کی بنیاد پر میزورم ،
میگھالیہ ، ناگالینڈ اور اروناچل پردیش کو آسام سے الگ ریاست بنایا گیا
لیکن ان کے مابین سرحدی تنازعات قائم رہے۔ میزورم کا مطالبہ ہے کہ آسام کے
ساتھ اس کی سرحد کا تعین 1875 والے معاہدے کے مطابق کیا جائےکیونکہ کہ
آزادی کے بعد کی حد بندی کے سبب بہت سے مزکو بولنے والے اضلاع آسام کا حصہ
بنادئیے گئے۔اس تنازع کے حل کی خاطر 2005 میں بھی سپریم کورٹ نے مرکزی
حکومت کو باؤنڈری کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا لیکن بات آگے نہیں بڑھی ۔ دو
ریاستوں کے مابین سرحدی تنازعہ حل کرنے میں اتنےسال لگتےہیں تو چین جیسے
ہمسایہ کے ساتھ اس طرح کے تنازعات کا حل نکالنے میں درکار مدت کا اندازہ
لگانا مشکل نہیں ہے۔
میزورم کی کل آبادی 12 لاکھ ہے ۔ وہاں میزو قبیلےکے لوگوں کا تناسب 74 فیصد
ہے۔آسام میں تقریبا 3 کروڑ 12 لاکھ افراد رہتے ہیں۔ ان میں بوڈو ، مسنگ ،
سونووال ، کچہری اور تیوا اہوم جیسی ذاتوں کے لوگ ہیں ۔ الزام تراشیوں سے
قطع نظر غیر جانبدار ذرائع کے مطابق حالیہ تنازعہ سرحد کے قریب گٹگوٹی گاؤں
میں میزورم پولیس کے عارضی کیمپ لگانے سے شروع ہوا ۔آسام پولیس کا کہنا ہے
کہ یہ کیمپ ان کی ریاست کی زمین پر لگائے گئے ہیں، جبکہ میزورم پولیس کا
دعوی ہے کہ یہ علاقہ ان کا ہے ۔ تشددکے بعد میزورم کے وزیر اعلی زور متھنگا
نےایک ویڈیو ٹویٹ کرکے اسے وزیر داخلہ کو بھی ٹیگ کیا۔ اس کے جواب میں آسام
کے وزیر اعلی ہمنتا بسوا سرمانے بھی امیت شاہ کو ٹیگ کرکے کہا کہ آسام
پولیس کو میزورم پولیس ان کی سرزمین سے ہٹانا چاہتی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے
کہ آسام میں بی جے پی کی سرکار ہے اور میزورم کے اندر میزو نیشنل فرنٹ کی
حکومت میں بی جے پی کا ایک رکن اسمبلی شامل ہے۔ اس کے باوجود وہ دونوں بچوں
کی مانند لڑ رہے ہیں اور معاملہ امیت شاہ کے قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے ۔
آسام میں کچھار کے ڈپٹی ایس پی کلیان کمار داس نے میزورم کے 6 پولیس افسران
کو 2؍ اگست کی صبح 11 بجے دھولائی تھانے میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ ان
پر آرمز ایکٹ کی دفعہ 25 (1-A) ، پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے سے روکنے
کی دفعہ 3 اوردیگر کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ میزورم پولیس
افسران کو بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ معقول اور معتبر معلومات کے
مطابق آپ نے مبینہ طور پر قابل شناخت جرم کیا ہے۔ اس کے علاوہ آسام پولیس
نے میزورم سے ایوان بالا کے واحد رکن وان لالوینا کو یکم اگست کےدن طلب کیا
ہے تاکہ بین الریاستی سرحد پر تشدد کی “سازش” میں ان کی مبینہ شمولیت کے
بارے میں پوچھ گچھ کی جا سکے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق آسام پولیس کی ایک ٹیم
وان لالوینا کی تلاش میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئی تھی لیکن وہ وہاں
نہیں ملے۔میزورم کے ریذیڈنٹ کمشنر نے آسام پولیس کی تفتیش میں شامل ہونے کے
لیے وان لالوینا کو دیا جانے والا نوٹس وصول کرنے سے انکار کر دیا ، اس لیے
سی آئی ڈی کی ٹیم ان کی رہائش گاہ پر نوٹس چسپاں کر کے لوٹ گئی۔
حکومتِ آسام کی ان بچکانہ حرکتوں کے ردعمل میں میزورم پولیس نے آسامی وزیر
اعلیٰ کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ اس میں ہیمنتا بسوا سرما
اورانتظامیہ کے6؍ اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ 200 نامعلوم پولیس اہلکاروں کا
بھی اندراج کیا گیا ہے۔ اس ایف آئی آر میں آسام کے انسپکٹر جنرل ، ڈپٹی
انسپکٹر جنرل ،اور ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس کے ساتھ ضلع کچھار کے ڈپٹی کمشنر کو
بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ معاملہ میزورم کے کولاسیب ضلع میں ویرنگٹے پولیس
اسٹیشن کے اندر درج کیا گیا ۔ میزورم کے پولیس انسپکٹر جنرل جان این نیہلیا
نے بتایا کہ ’’ان لوگوں کے خلاف قتل کی کوشش اور مجرمانہ سازش سمیت دیگر
دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔‘‘یہ اچھی سینہ زوری ہے۔ سوال یہ ہے کہ
ایسی حرکتوں چھچھوری حرکتوں سے یہ مسئلہ حل ہوگا یا مزید الجھ جائے گا ؟
وزیر داخلہ دہلی اپنی ریاستی حکومت کو اس کیوں نہیں روکتے؟ کیا وزیر داخلہ
کا کام صرف دونوں متحارب ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرنا
اور سنٹرل ریزرو پولیس فورس کی تعیناتی میں اضافہ کرنا ہے۔ اس ناکامی کے
بعد امیت شاہ کوپھر سے پارٹی کا صدر بناکر کسی لائق رکن پارلیمان کو وزارت
داخلہ کی ذمہ داری سونپنے کا وقت آگیا ہے لیکن کیا وزیر اعظم اپنے ذاتی
فائدے پر قومی مفاد کو ترجیح دے کر یہ جرأتمندانہ فیصلہ کریں گے ؟ اگر
نہیں تو اس طرح کے تنازعات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گااور پورا ملک
افراتفری و خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے میگھالیہ دورے کے وقت چیراپونجی ضلع کے سوہرا
گاوں میں’ گرین سوہرا جنگل کاری مہم‘ کا آغاز کیا تھا ۔ تعجب کی بات یہ کہ
آسام رائفلس شجر کاری کے کام میں لگایا گیا ۔ جس دستے کا کام امن و سلامتی
قائم رکھنا ہے اس کو اگر دیگر سرگرمیوں میں الجھا دیا جائے تو دنگا فساد کو
کون کنٹرول کرے گا ؟شجر کاری کے بعد شاہ جی نے گریٹر سوہرا واٹر سپلائی
اسکیم کا افتتاح بھی کیا اور اپنے استاد مودی جی کی مانند طول طویل تقریر
کرکے بہت سارے خواب دکھائے مثلاً دس لاکھ درخت اور دس کروڈ پودے وغیرہ
وغیرہ ۔ آخر میں وزیر داخلہ نے ’’سدا بہار شمال مشرق‘‘ کا نعرہ دیا۔ وزیر
داخلہ کی دہلی واپسی کے فوراً بعد’ سدا بہار شمال مشرق ‘ میں خزاں کے بادل
منڈلانے لگے۔ وزیر داخلہ کے بہاروں کے خواب اور ان کی خزاں رسیدہ تعبیر پر
احمد فراز کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
|