اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی


اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی عالم ِ اسلام کی ایسی نابغہ ٔ روزگار شخصیت ہیں جنہوں نے اربوں مسلمانوں کو متاثرکیاان کی تعلیمات کا مطمع ٔ نظر رسالت مآب ﷺ سے عشق ہے ان کا عقیدہ ہے کہ نبی ٔ محترم ﷺ کی محبت کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان کامل اور اکمل نہیں ہو سکتا زندگی کا ہر شعبہ پر محبت ِ رسول ﷺ حاوی کرناہی ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے وہ اس میں کسی قسم کا کمپرو مائز کرنے کو تیارنہیں اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی ان عقائد و نظریات کا تحفظ نہ کرتے تو آج لادینی اور اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کے دل و دماغ میں عشق ِ رسالت ﷺ کا مفہوم ہی بدل دیتے ۔ اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی نے جب برطانوی عہدمیں ہندوستان میں مسلمانوں کی فکری اور اخلاقی گراوٹ دیکھی۔ ان کی تحریک ایک عوامی تحریک تھی ، جو مقبول تصوف کا دفاع کرتی تھی جو جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں میں دیگرعقائد کے اثر و رسوخ کے جواب میں بڑھتی گئی۔ انہوں نے اجاگرکیا کہ یہ کائنات کی وجۃ الخلیق نبی ٔ آخرالزماں ﷺ کی ذات ِ بابرکات ہے ظاہری وصال کے باوجود وہ اپنے مرقد مبارک میں زندہ ہیں جس کا برملا اظہارانہوں نے ایک نعت میں کیا
توزندہ ہے واﷲ تو زندہ ہے واﷲ
میری چشم ِ عالم سے چھپ جانے والے

اس تناظر میں انہوں نے ان عقائد کی تائید کی کہ حضرت محمد ﷺ ایک کامل،اکمل اور مکمل انسان ہیں جن کی تخلیق اﷲ تعالیٰ نے اپنے نور سے کی اﷲ تعالیٰ نے اپنے غیب کا علم بھی عطاکیا یہ معجزات نبی ﷺ میں سے ایک ہے ان کا نور کائنات کی تخلیق سے بہت پہلے ہزاروں سال قبل وجودمیں لایا گیا لیکن نبی ـ اکرم ﷺ بشریت کے لبادے میں15صدیاں بیشتر اس دنیامیں تشریف لائے یہ نظریہ کئی نومولود مسلم فرقوں کے نظریات سے متصاد م تھا کیونکہ ان کے نزدیک حضرت محمد ﷺ نبی ہونے کے باوجود ایک انسانِ کامل ، دوسرے انسانوں کی طرح ایک قابل احترام لیکن جسمانی لحاظ سے عام انسان تھے ۔ اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی نے ان عقائد اور نظریات کی کھل کر مخالفت کی اور اسے حرمت ِ رسول کے منافی قراردیا ان نے ثابت کیاکہ حضرت محمد ﷺ اپنی امت کے اعمال پر حاظر ناظر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبیﷺاپنے ہر امتی کے کاموں کو دیکھتے اور دیکھتے ہیں اس تصور کی تفسیر شاہ عبدالعزیز نے تفسیر عزیزی میں ان الفاظ میں کی ہے: نبی ہر ایک کا مشاہدہ کر رہا ہے ، ان کے اچھے برے کاموں کو جانتا ہے اور ہر فرد کے مسلمان کی ایمان کو جانتا ہے اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی کا عقیدہ ہے کہ اگر نبی ﷺ زندہ نہیں تو پھر اﷲ ،اس کے فرشتے اور مسلمان کس پر درودو سلام بھیجتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم اس پر قائل ہیں کہ کسی کا بھی علم اﷲ تعالیٰ کے علم کے برابر نہیں ہوسکتا ہے اﷲ نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو علم عطا کیا اس کے حصے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے وہ اپنی کتاب فتاوی رضویہ میں کچھ رواج اور عقیدے بارے وضاحت کرتے ہیں کہ اسلامی قانون آخری قانون ہے اور اس پر عمل کرنا تمام مسلمانوں پر لازم ہے۔ بدعت سے باز آنا ضروری ہے۔ ایک صوفی علم یا ایک کے بغیر شیخ اعمال کے بغیر شیطان کے ہاتھ میں ایک آلہ ہے۔ اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی کا امت پر ایک احسان یہ بھی ہے کہ انہوں نیعقیدہ ختم ِنبوت ﷺ کو اجاگر کرنے کے لئے بر ِصغیر میں سب سے پہلے ایک رسالہ لکھ کر قادیانیت کے فتنے کا چہرہ بے نقاب کیا اس وقت تک تو عام لوگوں کوتو کیا علماء کرام کو بھی ختم نبوت پرڈاکہ ڈالنے والوں کی واردات کا علم تک نہ تھا ۔ جب امام احمد رضا خان بریلوی ن حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے1905 میں مکہ اور مدینہ منورہ گئے تو حجاز ِ مقدس کے علماء کرام،مفتیوں نے انہیں مجدد کا خطاب دیا اس دوران مولانا احمد رضاؒ خان بریلوی نے مختلف فرقوں کے عقائد و نظریات پرمرتب کردہ ایک سوالنامہ حسام الحرمین پر حرمین شریفین کے سے فتویٰ لیا جو ان کے عقائد کی مخالفت کرنے والوں پر فتویٰ کفر ہے۔ یہ فتوی 1906ء میں مولانا احمد رضا خان نے عربی و اردو میں شائع کرایا جس میں مرزا غلام احمد قادیانی کو ان کے عقائدپرمرتد اور غیرمسلم قراردیاگیا اور ان کے پیرو کار وں کو دائرہ اسلام سے خارج قراردیا گیا تھا جبکہ انہوں نے "المتماد المستناد" (قابل اعتماد ثبوت) کے عنوان سے ایک مسودہ دستاویز تیار کیا جس میں تینتیس ساتھی اسکالرز کے فیصلوں کی علمی رائے جمع کی۔ ان سب نے اس کے اس دعوے سے اتفاق کیا کہ ایک مدرسہ کی بنیادپر بننے والے فرقہ ، احمدیہ اور غیرمقلد تحریکوں کے بانی مرتد اور گستاخ تھے۔ انہوں نے برٹش انڈیا کی حکومت سے بھی اپیل کی انہوں نے ایک ڈرافٹ دستاویز حقدار تیار ا ان کی پیروی کرنے والے کفار . خان نے حجاز میں علمی آراء جمع کیں اور انھیں عربی زبان کے ایک مجموعے میں ، حسام الحرمین ("دو مقدس مساجد کی تلوار") کے عنوان سے مرتب کیا ، یہ کتاب 33 علمائے کرام (20 مکہ اور 13 مدنی) کے 34 فیصلوں پر مشتمل ہے۔ اس کی وجہ سے ان فرقوں کے مابین فتویٰ کا ایک باہمی سلسلہ شروع کیا جو آج تک برقرار ہے۔ اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی نے شیعہ کے عقائد اور اعتقادات کے خلاف مختلف کتابیں لکھیں ۔ مسلم لیگ کی حمائت اور تحریکِ پاکستان کیلئے اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی سینکڑوں پیروکاروں،گدی نشینوں اورمعتقدین نے اہم اور فعال کردار ادا کرکے ہراول دستے کا کردار ادا کیا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا آج اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی کے عقیدہ ٔ حق کے ماننے والوں کی تعداد پوری دنیاپرمحیط ہے خصوصاً پاکستان ، ہندوستان ، جنوبی افریقہ اور ترکی ،عراق، بنگلہ دیش ،افغانستان،شام،لبنان اور دیگر ممالک کے پیروکاروں کے ساتھ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ اب اس تحریک کے 200 ملین سے زیادہ پیروکار ہیں۔ []] یہ تحریک شروع ہونے پر بڑے پیمانے پر دیہی رجحان تھا ، لیکن اس وقت وہ شہری ، تعلیم یافتہ پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشین ممالک کے درمیان بھی مشہور ہے۔ بہت سارے دینی مدارس ، تنظیمیں ، اور تحقیقی ادارے اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی کے نظریات کی تعلیم دیتے ہیں ، جو صوفی طریقوں پر عمل پیرا ہونے اور پیغمبر اسلامﷺ کی ذاتی عقیدت اوراسلامی قانون کی اولیت پر زور دیتے ہیں نامورفلسفی شاعر علامہ محمد اقبال (1877–1938) نے کہاتھا: "میں نے اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی کے فرمانوں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اس کے ذریعہ اس رائے کو تشکیل دیا ہے کہ ان کا فتاویٰ اس کی ذہانت ، فکری صلاحیت ، اس کی تخلیقی سوچ کے معیار کی گواہی دیتا ہے۔ ، اس کا عمدہ دائرہ اختیار اور بحر جیسا اسلامی علم ہے ایک بار جب امام احمد رضابریلوی رائے قائم کرتے ہیں تو وہ اس پر ثابت قدم رہتے ہیں لہذا ، ضرورت کبھی نہیں اٹھتی ہے کہ ان کے کسی بھی مذہبی احکام اور فیصلے کو واپس لیا جائے۔ ایک اور جگہ پر ، وہ کہتے ہیں ، "اس طرح کا ذہین اور ذہین فقیہ ابھرا نہیں تھا۔" پروفیسر سر ضیاالدین احمد ، جو علی گڑھ یونیورسٹی میں ریاضی کے شعبے کے سربراہ تھے ، ایک بار وہ ایک ریاضی کے دقیق سوال میں الجھ کررہ گئے متعددریاضی دانوں کی مدد لینے کے بعد بھی ، کچھ ریاضی کے الگورتھم کا حل نہیں ڈھونڈ سکے تھے۔اس کا تذکرہ انہوں نے اپنے دوست جو اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی کے مرید (شاگرد) بھی تھے سے کیا کہ میں اس مسئلہ کے حل کے لئے بیرون ملک جانے کا ارادہ رکھتاہوں۔انہوں نے کہا آپ ایک بار اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی سے مل لیں آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا پروفیسر ضیاء الدین نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا جب بڑے بڑے ریاضی دان مجھے مطمئن نہیں کر سکے تو وہ کیا کرلیں گے دوست نے اصرارکیا کہ جہاں آپ اتنے لوگوں سے ملے ہیں اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی سے ملنے میں کیا حرج ہے چنانچہ پروفیسر ضیاء لدین احمد راضی ہوگئے جب انہوں نے اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی سے ملاقات کی تو آپ نے منٹوں میں ان کا مسئلہ حل کردیا وہ ششدررہ گئے اور بے ساختہ کہہ اٹھے میں نے اپنی زندگی میں اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی جتنا ذہین فطین شخص نہیں دیکھا ۔ جسٹس نعیم الدین سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے امام احمد رضا بریلوی کی عظیم الشان شخصیت ، ہمارے انتہائی قابل احترام ہے جو آباؤ اجداد کی نمائندگی ، تاریخ سازی ہے اور اس کی ذات میں تاریخ ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ ... آپ ان کی اعلی حیثیت کا تخمینہ لگاسکتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اس نے اپنی ساری زندگی عظیم الشان نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی ، اپنے انفرادیت کے دفاع ، اپنے انوکھے طرز عمل سے متعلق تقریریں کرنے ، اور شریعت کے قانون کو فروغ دینے اور پھیلانے میں صرف کی جس کا زمانہ معترف ہے ۔ امام احمد رضا جیسے انسائیکلوپیڈک اسکالر کی لکھی ہوئی قیمتی کتابیں ، میرے خیال میں ، روشنی کے لیمپ ہیں جو ایک طویل عرصے تک علم و بصیرت کے حامل لوگوں کے دلوں اور دماغوں کو روشن اور روشن رکھیں گے۔ اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی خان 28 19 اکتوبر 1921 (25 صفر 1340 ھ ) کو 65 برس کی عمر میں بریلی میں اپنے گھر میں وصال فرما گئے۔ توعالم ِ اسلام میں ایک کہرام مچ گیا انہیں درگاہ عالیہ میں سپرد خاک کیا گیا ۔ 24 اکتوبر 2021 کو ان کی 100 ویں برسی منائی جائے گی۔آپ کی خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ حضرت ایکسپریس ہندوستانی ریلوے سے تعلق رکھنے والی ایک ایکسپریس ٹرین ہے جو ہندوستان میں بریلی اور بھوج کے درمیان چلتی ہے۔ ہندوستانی حکومت نے 31 دسمبر 1995 کو احمد رضا خان بریلوی کے اعزاز میں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔ ان کے بیٹے حامد رضا خان اور مصطفی رضا خان قادری اسلام کے مشہور عالم دین ہیں۔ حامد رضا خان ان کا مقرر کردہ جانشین تھا۔ اس کے بعد مصطفی رضا خان اپنے والد کے بعد جانشین ہوا ، جس نے پھر اختر رضا خان کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ اب ان کا بیٹا مفتی اسجد رضا خان روحانی پیشوا کی حیثیت سے ان کی جگہ لیتا ہے۔ اس کے بہت سے شاگرد اور جانشین تھے ، جن میں 30 برصغیر پاک و ہند اور 35 شامل ہیں۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 336693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.