شاہد اطہر جسے مرحوم لکھتے ہوئے دل دکھتا ہے

شاہد اطہر جسے مرحوم لکھتے ہوئے دل دکھتا ہے
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
دنیا فانی ہے، ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ یہ ہمارا ایمان اور یقین ِکامل ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگوں کے دنیا سے اٹھ جانے کا دکھ تڑپا کے رکھ دیتا ہے، اس کا غم زندگی کا غم بن جاتا ہے، جانتے بوجھتے دل و دماغ یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا کہ وہ دنیا سے جا چکا۔ ان میں سے ایک میرے خاندان کا شریف النفس انسان میرا دوست شاہد اطہر بھی ہے جو عالمی وبا (کورونا)کی لپیٹ میں ایسا آیا کہ جان بر نہ ہوسکا۔وہ کورونا سے ہار گیا، کورونا نے اسے مات دے دی اور اس نے خاموشی سے جان اپنے مالکِ حقیقی کے سپرد کردی اور وہ دنیا سے چلا گیا، ہمیشہ کے لیے اپنوں کو غم دے گیا، اپنی بیٹیوں کو، بھائیوں کو، ساتھیوں کو، دوستوں کو،عزیز رشتہ داروں کو۔ موت تو بر حق ہے، کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا بلاوا کب اور کس وقت آجائے گا، ہمیں ہر حال میں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوتا ہے کہ موت بر حق ہے۔میرے پڑ دادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کا شعرہے ؎
ہم نشیں پوچھتے کیا ہو میرے دل کی حالت
صدمہ کیا دے گئے دنیا سے جانے والے
ہم سب کی یہی خواہش اور تمنا ہوتی ہے کہ اللہ ہمیں چلتے ہاتھ پاؤں اس دنیا سے اٹھا لے، اللہ تو ہمیں کسی کا محتاج نہ کرنا،شاہد اطہر بھی کچھ عرصہ کورونا سے نبرد آزما رہا اور بڑے سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنی جان فرشتہئ اجل کے سپرد کردی۔کلام مجید کی سورۃ السجدہ کی آیت 11میں کہا گیا ”کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری رُوحین قبض کر لیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے“۔ اورشاہد اطہر بھی
اُس لمحہ اپنے پروردگار کی جانب لوٹ گئے۔ انا اللہ و ان علیہ راجعو ن۔
سوشل میڈیا پر خبر پڑھی، یقین کرنے کو کسی صورت ذہن تیار نہیں تھا، سوچا کہ کس سے تصدیق کروں، تفصیل معلوم کروں، کہ یہ اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ نوبت یہاں تک آگئی۔اس حوالے سے میرے لیے پروفیسر راشد حئی ہی سب سے معتبر شخصیت تھے اس لیے کہ وہ شاہد اطہر کے دوست بھی، کنزن بھی، بہنوئی بھی، لیکن ہمت نہیں ہوئی، مجھے شاہد اطہر اور راشد حئی کے تعلق کا بہت اچھی طرح علم تھا، کئی بار موبائل اٹھایا کہ راشد حئی کو فون کروں پر ہمت نہیں ہوئی۔ میں راشد حئی کے مزاج سے بھی اچھی طرح آگاہ ہوں، وہ بھی بہت حساس اور جذباتی طبیعت کے مالک ہیں، شاہد اطہر کی جدائی کا اثر ان پر بہت گہرا ہوگا، اس لیے خواہش کے باوجود ان سے فوری رابطہ نہیں کیا۔ البتہ اسلام آباد میں موجود اطہر ضیاء مشتاق سے فون پر بات ہوئی اور تصدیق بھی۔ راشدحئی اور مَیں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان سے ایک اضافی لیکن اہم تعلق یہ بھی رہا کہ وہ بھی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں رہے اور میں بھی24 سال کھڈا مارکیٹ کی خاک چھانتا رہا تھا۔ پھر وہ نیشنل کالج چلے گئے، اس کے پرنسپل بھی ہوئے اور میرا گورنمنٹ کالج فار مین، ناظم آباد میں ٹرانسفر ہوگیا،وہیں سے ریٹائر ہوا۔ہم کئی سال کالج کے ساتھی رہے۔ پھر خاندانی انجمن ”ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن“ میں کئی سال قربت کے ساتھ گزرے۔ اس مصروفیت میں ہم شاہد اطہرکے قدم بہ قدم تھے، میری ملاقات شاہد اطہر سے کرانے والے راشد حئی ہی تھے۔ ورنہ تو ہم اکثر خاندانوں کی تقریبات میں شریک ہوتے، کبھی سلام دعا ہوگئی کبھی نہیں، لیکن راشد حئی صاحب سے کالج میں خاندانی تعلق کا علم ہوا تو ہم رفتہ رفتہ ایک دوسرے کے قریب آ تے گئے اور خاندانی ایسو سی ایشن کی سرگرمیوں میں کئی سال فعال رہے۔ اس میں مشکور احمد صاحب کا بھی اہم کردار رہا۔ مشکور صاحب، شاہد اطہر، راشد حئی، انعام احمد صدیقی، مغیث احمد صمدانی اور میں کئی سال خاندانی ایسو سی ایشن کے حوالے سے ساتھ ساتھ رہے۔ وہی وقت تھا جب ہم نے ایک دوسرے کو جانا اور ایک دوسرے کے قریب آئے۔
شاہد اطہر ایک پڑھے لکھے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔وہ ایک پروفیسر کے بیٹے تھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ،این ای ڈی سے تعلیم حاصل کی پیشہ کے اعتبار سے بنکر تھے۔ پاکستان کا شہر بہاولپور ان کا آبائی شہرتھا،ان کے والد خاندان کی ایک علمی و ادبی شخصیت عبد المحصی صاحب گورنمنٹ صادق ایجر ٹن کالج (S.E. College) بہاولپور میں انگریزی کے پروفیسر تھے اور خاندانی انجمن’ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن‘کے بانی و متحرک رکن کی حیثیت سے انجمن کی سرگرمیوں میں بھی بھر پور حصہ لیتے رہے تھے۔ شاہد اطہر نے بہاوپور سے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ شاہد اطہر کی شخصیت پہلو دارتھی، وہ شگفتہ مزاج، نرم گو، دھیمالہجہ لیے ہوئے تھے،ان کی شخصیات کے خدو خال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ خوبصورت، کھڑے نقش، گور ارنگ، کتابی چہرہ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، چوڑا سینہ، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک،ستواں ناک، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع قطع،چہرے مہرے سے شرافت، تحمل، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا محسوس ہوتا ہے کہ شاہد اطہر کے دنیا سے رخصت ہوجانے کی کیفیت کو ہی بیان کردیا ہے ؎
رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے
جانے والے نہیں لوٹ کے آنے والے
کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
یاد پڑتا ہے کہ 1979ء کی دہائی میں خاندانی انجمن ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن کا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا جس میں شاہد اطہر سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔اس کے بعد تعلق ایسا قائم ہوا کہ ہم ایسو سی ایشن کے اجلاسوں اور لوکل میٹنگوں میں تواتر کے ساتھ شرکت کرتے اور میل ملاقات کے تانے بانوں میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ ہمیں کراچی سے بہاولپور، اسلام آباد، ملتان اور بابے والا کا سفر اکٹھے کرنے کا موقع میسر آیا۔ خاندانی ایسو سی ایشن ”ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن“ کی اجلاسوں میں ہم دو دو تین تین دن ساتھ ہوتے۔ انجمنوں میں گروپس کا ہونا، انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑنا ایک عام سے بات ہوتی ہے۔ شاہد اطہر کبھی ہمارے ساتھ ہوتے کبھی دوسرے کیمپ میں۔ مخالفت برائے مخالفت کبھی نہیں ہوئی بلکہ مخالفت برائے تعمیر اور ایسو سی ایشن کی بہتری کے لیے ہوا کرتی۔شاہد اطہر اپنے مزاج کی وجہ سے ہر ایک لیے قابل قبول ہوا کرتے۔ شاہد اطہر کے گھر واقع گلشن اقبال میں کئی بار جانا ہوا۔ جہاں پر ایسو سی ایشن کی میٹنگیں منعقد ہوا کرتیں۔ شاہد اطہر کی زندگی میں ایک عظیم حادثہ ہوچکا تھا۔ شاہد اطہر کی شریک سفر اس کا ساتھ چھوڑ گئیں۔ شاہد کی بیٹیاں ہی تھیں، بیٹا کوئی نہ تھا۔ تمام بیٹیوں کی شادی کے بعد وہ گھر میں تنہا ہوگئے تھے۔ لیکن ہم نے اسے کبھی پریشانی میں نہیں دیکھا۔ شاہد اطہر کی شریک سفر راشد حئی کی ہمشیرہ تھیں جب کہ راشد حئی کی شریک حیات شاہد اطہر کی ہمشیر ہ ہیں۔ دونوں تایا چچا زاد بھائی بھی ہیں۔ شاہد اطہر کی ایک بیٹی راشد حئی کے بیٹے سے بھی منسوب ہے۔ اس طرح شاہد اور راشد حئی ایک دوسرے سے خاندانی رشتوں کے علاوہ ذاتی قربت کے مراسم میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔
سالوں بعدیہاں بھی سَن تو ٹھیک یاد نہیں، ہاں تیس پینتیس برس اُدھر کی بات ہے شاہد اطہر سے خاندانی انجمن ’ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن‘ کے اجلاس میں ملاقات ہوئی، بس اب تو ان کا اور ہمارا ٹاکرا اکثر وبیشتر ایسو سی ایشن کی لوکل میٹنگوں، سالانہ اجلاسوں میں ہونے لگا جو برسوں پر محیط ہے۔خاندان میں ہونے والی خوشی اور غمی کی تقریبات میں ملاقاتیں اپنی جگہ تھیں۔ ایسو سی ایشن کے حوالے سے مختلف پروگرام ترتیب دیے، اجلاسوں کی روداد کی ترتیب وغیرہ میں شاہد اطہر سے تعلقات قریب سے قریب تر آتے گئے۔ شاہد اطہر ایسو سی ایشن کے مختلف اہم عہدوں پر منتخب ہوتے رہے۔ اب چند برسوں سے وہ ایسو سی ایشن کے صدر اور کرتا دھرتا ہوگئے تھے۔1990ء میں ایسوسی ایشن کی گولڈن جوبلی کا انعقاد شاہد اطہر کے گھر واقع راشد منہاس روڈ پر منعقد ہوا۔ اس موقع پر ایسو سی ایشن نے خاندان کا شجرہ بھی شائع کیا۔ خاندان کا شجرہ 1925میں پہلی بار شائع ہوا تھا 65سال بعد ایسو سی ایشن اس شجرہ کو1990 میں دوبارہ شائع کرنے میں کامیاب ہوسکی۔ اس کے مرتبین مشکور احمدمرحوم اور خالد پرویز مرحوم تھے۔ شاہداطہر ایسو سی ایشن کا ایک معتدل ذہن تصور کیا جاتا تھا۔ صلاح جو،باہم شیر و شکر رہنے والا۔ ان کی محبت آمیز گفتگو، صلح جوئی، شفقت آمیزی، عاجزی، انکساری، حسنِ اخلاق اور اخلاص کے سحرِ سے نکلنا مشکل امر ہے۔اللہ پاک شاہد اطہر کے درجات بلند فرمائے اور اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب ہو، آمین18)جولائی(2021
نوٹ: شاہد اطہر پر لکھنا بہت پہلے چاہتا تھا لیکن جب بھی شروع کرتا قلم رک رک جاتا اور میں ارادہ ملتوی کردیتا۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں میرے کزن اطہر ضیاء مشتاق کی تحریک پر ہمت باندھی اور اپنے جذبات کا اظہار کردیا۔ اس تحریر کا کریڈٹ اطہر ہی کو جاتا ہے)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279018 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More