آزادی کی 75؍ ویں سالگرہ پر وزیر اعظم کی شوشے بازی

وزیر اعظم نریندر مودی کو لال قلعہ کی فصیل سے 75ویں یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب کرنے کا موقع ملا ۔ ایسے میں انہوں نے جنگ آزادی میں قربانیاں دینے والے مہاتما گاندھی، نیتا جی سبھاش چندر بوس، بھگت سنگھ، رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خاں، رانی لکشمی بائی، رانی کامناّ ،پنڈت جواہر لال نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور بابا صاحب امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ اس فہرست میں کانگریس کے چار رہنماوں کا نام تو ہے مگر ہندو مہا سبھا یا آر ایس ایس کے کسی لیڈر کا نام نہیں ہے۔ ایسا کرتے وقت مودی جی کے دل پر کیا گزری ہوگی اور اپنے نظریاتی آباو اجداد پر کتنا غصہ آیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کاش کہ ان میں سے ایک آدھ نے با دلِ نہ خواستہ ہی سہی آزادی کی جنگ میں انگلی ہی کٹائی ہوتی تو وزیر اعظم شہیدوں میں سب سے اوپراس کا نام لکھ دیتے لیکن وہ سب تو انگریزوں کے باجگزار بنے ہوئے تھے۔ خیر کسی کونہ اپنی پچھلی نسل پر کوئی اختیار ہوتا ہے اور نہ ہی بعد والوں پربلکہ بسا اوقات خود اپنے آپ پر بھی نہیں ہوتا ۔ ایسا ہی کچھ وزیر اعظم کے ساتھ بھی ہوتا رہتا ہے کہ کل تک جس پنڈت نہرو کو ملک کے سارے مسائل کاذمہ دار ٹھہراتے تھے آج لال قلعہ کی فصیل سے ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنا پڑ رہا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نت نیا شوشہ چھوڑنے کے لیے یاد کیے جائیں گے اس لیے کہ مذکورہ فن میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اس بار لال قلعہ پر ترنگا لہرانے کے بعد پی ایم مودی نے کہا کہ تقسیم کا درد اب بھی ہندوستان کے سینے کو چھلنی کرتا ہے، یہ گزشتہ صدی کا عظیم سانحہ ہے۔ ہندوستان نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر سال 14؍ اگست کو تقسیم کی ہولناک یادوں کے دن کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ جن لوگوں نے تقسیم کے وقت مظالم کو برداشت کیا اب ان لوگوں کا احترام کیا جائے گا۔ اس پر طنز کرتے ہوئے ٹوئیٹر پر کسی صارف نے لکھا کہ ” گجرات میں 2002 کے ہولنا ک فسادات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں بھیانک فسادات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ کیا اس طرح کا دن منانے سے بھارت کے لوگوں کو کوئی فائدہ ہوگا؟‘‘۔ مرکزی وزیر نتن گڈکری کا ٹوئٹ تو دونوں پر یکساں طور پرصادق آتا ہے انہوں نے لکھا، ”یہ دن ہمیں اس بات کی یاد دلائے گا کہ نفرت اور تشدد کسی مسئلے کا کبھی حل نہیں ہوسکتے۔ یہ سماجی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے تئیں حساس رویہ اپنانے کے لیے حوصلہ افزائی کرے گا۔‘‘ لیکن یہ صرف ٹوئٹر بازی سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے دہلی فساد کے کپل مشرا جیسے مجرمین کو سزا دے کر بے قصور لوگوں کو رہا کرنا پڑے گا۔

وزیر اعظم نے یومِ آزادی سے ایک روز قبل نیا شوشہ چھوڑتے ہوئے تقسیم وطن کی تکلیف دہ یادوں کو یاد رکھنے کے لیے 14؍اگست کو تقسیم کی ہولناک یادوں کے دن کے طورپر منانے کا اعلان کیا ۔ ان کے مطابق یہ دن ان لوگوں کی یاد میں منایا جائے گا، جنہوں نے تقسیم کے دوران قربانیاں دیں اور مصائب سے دوچار ہوئے۔وزیر اعظم مودی نے ٹوئٹ پر لکھا کہ ”تقسیم کے درد کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ بعض لوگوں کی احمقانہ منافرت اور تشدد کی وجہ سے ہمارے لاکھوں بہن بھائی بے گھر ہوگئے اور بہت سے لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اپنے لوگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کی یاد میں 14 ؍اگست کو تقسیم کی ہولناک یادوں کے دن کے طور پر منایا جائے گا‘‘۔ اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ”یہ دن منانا ہمیں سماجی تقسیم اور منافرت کے زہر کو ختم کرنے کی ضرورت کی یاد دلاتا رہے گا۔ یہ ہمیں اتحاد کے جذبے، سماجی ہم آہنگی اور انسانوں کو بااختیار بنانے کے لیے حوصلہ افزائی بھی کرے گا‘‘۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ اس کے ذریعہ منافرت کا زہر پھیلاکر سماجی آہنگی کو بگاڑا جائے گا۔

تقسیم کا مرثیہ پڑھنے والے وزیر اعظم کو یہ جاننا اور بتانا چاہیے کہ جن احمق لوگوں کا ذکر انہوں نے اپنی تقریر میں کیا وہ کون تھے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے لیے بنیادی طور پر دو قومی نظریہ ذمہ دار ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ بیج کس نے ڈالا اور اس کو کھاد پانی دے کر پروان چڑھا نے والے کون لوگ تھے؟ اس کی ساری ذمہ داری محمد علی جناح پر ڈال دینا کمال سادہ لوحی یاتو حقیقت حال سے عدم واقفیت ہے۔ مسلم لیگ نے تو پاکستان کی قرارداد 1940 میں منظور کی تھی لیکن دو قومی نظریے کی بنیاد 1937میں احمد آباد کے اندرونایک دامودر ساورکر نے ہندومہاسبھا کےاجلاس میں رکھی تھی ۔ ساورکر سے بھی بہت پہلے بنگال کے راج نرائن باسو (1826-1899) اور ان کے ساتھی نبھا گوپال مِترا (1840-94) نےدراصل ہندوستان میں دو قومی نظریے اور ہندو راشٹرواد کی بنیاد ڈالی ۔ باسو نے ہندواِزم کی بنیاد پر عیسائی و اسلامی تہذیب سے عاری ایک اعلیٰ درجے کا مثالی سماجی نظام پیش کیا تھا۔ باسو کی قائم کردہ مہا ہندو سمیتی اور بھارت دھرم مہا منڈل نے ہی آگے چل کر ہندو مہا سبھا کی شکل اختیار کرلی ۔ باسو نےایک طاقتور ہندو راشٹر کی نہ صرف ہندوستان پر بلکہ پوری دنیا پر حکمرانی کی پیشنگوئی کی ۔ ان کے دوسر نبھا گوپال مِترا نے 1867 سے 1880 تک سالانہ ہندو میلے کا انعقاد کرکے ہندووں میں اتحاد اور جذبۂ قومیت کی تشہیر کے لیے ایک راشٹریہ ہندو سوسائٹی بنائی اور ایک اخبار شروع کیا۔ اس طرح گویا جناح سےنصف صدی قبل نبھا گوپال نے عملاً دو قومی نظریہ پیش کر دیا تھا۔

شمالی ہند میں آریہ سماج کےبھائی پرمانند (1874-1947) نے بڑے پیمانے پر مسلم مخالف ادب تیار کرکے اس بات پرزور دیا تھا کہ ہندوستان ہندوؤں کی سرزمین ہے، جہاں سے مسلمانوں کو باہر کیا جانا چاہیے۔بھائی پرمانند نے زور دے کر کہا تھا کہ ہندو ہی ہندوستان کی سچی اولادیں ہیں اور مسلمان باہری لوگ ہیں۔ 1908-09 کے آغاز میں ہی انہوں نے مخصوص علاقوں سے ہندو و مسلم آبادی کے تبادلے کا منصوبہ پیش کر دیا تھا ۔ اپنی خودنوشت میں ان کے پیش کردہ خاکہ کے مطابق:’’سندھ کے بعد کی سرحد کو افغانستان سے ملا دیا جائے، جس میں شمال مغربی سرحد کے علاقوں کو شامل کر کے ایک عظیم مسلم سلطنت قائم کر لیں۔ اس علاقے کے ہندوؤں کو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔ اسی طرح ملک کے دیگر حصوں میں آباد مسلمانوں کا وہاں سے نکل کر اس نئی جگہ بس جانا چاہیے۔ وی ڈی ساورکر (1883-1966) ایم ایس گولولکر (1906-1973) نے مفصل طور پر ایسے ہندو راشٹر کے تصورات پیش کیے، جن میں اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔

لاجپت رائے (1865-1928) نے 1924 میں دو قومی نظریے کو ان الفاظ میں پیش کیا کہ :’’میرے منصوبے کے مطابق مسلمانوں کو چار صوبے: پٹھانوں کا شمال مغربی حصہ، مغربی پنجاب، سندھ اور مشرقی بنگال ملیں گے۔ اگر کسی دیگر حصے میں مسلمان اتنے زیادہ ہوں کہ ایک صوبہ بنایا جا سکے، تو اُسے بھی یہی شکل دی جائے لیکن یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ یہ ایک مشترکہ بھارت یعنی یونائیٹیڈ انڈیا نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب ہندوستان کی ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا میں واضح تقسیم ہے۔‘‘ پنجاب کی تقسیم کی تجویز بھی لالا لاجپت رائے نے ان الفاظ میں رکھی کہ ’’میں ایک ایسے حل کی صلاح دوں گا، جس سے ہندوؤں و سکھوں کے جذبات مجروح کیے بغیر مسلمان ایک موثر اکثریت پا سکتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ پنجاب کو دو صوبوں میں بانٹ دیا جانا چاہیے۔ مسلمانوں کی اکثریت والے مغربی پنجاب میں مسلمانوں کی حکومت ہو اور مشرقی پنجاب جس میں ہندو و سکھ زیادہ تعداد میں ہیں، اُسے کسی غیر مسلم کی حکمرانی میں ہونا چاہیے۔‘‘

وزیر اعظم نے لال قلعہ کی تقریر میں بڑے احترام سے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق دو قومی نظریے کے بارے میں ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ میں کمال مماثلت ہے وہ لکھتے ہیں:’’یہ بات بھلے عجیب لگے لیکن ایک راشٹر بنام دو راشٹر کے سوال پر مسٹر ساورکر اور مسٹر جناح کے خیالات متضاد ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ دونوں ہی اسے قبول کرتے ہیں، نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ بھارت میں دو راشٹر ہیں، ایک مسلم اور دوسرا ہندو راشٹر‘‘۔ خیر یہ سب اگلے وقتوں کی باتیں ہیں اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعد 23 مار چ 2015 کو یوم پاکستان کے موقعے پر خود وزیر اعظم نریندر مودی نے نواز شریف کو مبارک باد کا پیغام بھیجا تھا ۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ ’میں نے پاکستان کے قومی دن کے موقع پر پاکستانی وزیرِ اعظم کو مبارک باد کا پیغام بھیجا ہے۔میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ تمام حل طلب مسائل دہشت اور تشدد سے پاک فضا میں دو طرفہ بات چیت سے حل کیے جا سکتے ہیں۔‘

وزیر اعظم مودی یقیناً یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ پاکستان کے قومی دن کی تاریخ کیا ہے ورنہ وہ ایسی جرأت کبھی نہ کرتے ۔ 23؍ مارچ 1940 کو وہ قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا گانہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی یعنی ملک تقسیم ہوگیا۔ 1956ء میں اسی دن پاکستان کے آئین کو اپناکر وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا۔ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے سنگھ پریوار کے وزیر اعظم مودی اگر یہ جانتے تو مبارکباد دینے سے اجتناب کرتے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے گاندھی جی کو تقسیم ہند کا ذمہ دار ٹھہرا کر قتل کردیا تھا لیکن اب مودی سمیت پورا سنگھ پریوار گاندھی وندنا (تعریف و توصیف) میں غرق ہے۔یوم پاکستان کی مبارکباد دراصل تقسیم ہند کی تائید ہے لیکن اب مودی جی نے تقسیم ہند کا ماتم کرنے کی خاطر ایک نیا دن منانے کا فیصلہ کردیا ہے۔ اس تضاد خیالی کا احساس نہ تو وزیر اعظم کو ہے اور ان ان کے بھگتوں کو ہے کیونکہ جیسا مالک ویسا گھوڑا کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔ ویسے آج کل سنگھ کا گھوڑا اس قدر لاغر اور کمزور ہوگیا ہے کہ بارات کے ٹٹو کی مانند دولہےراجہ مودی کو اپنی پیٹھ پر لاد کر بینڈ باجے کے ساتھ خراماں خراماں چلتا رہتا ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226342 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.