امارت اسلامیہ افغانستان سے مغربی دنیا کے تحفظات

یہ آرٹیکل افغانستان سے امریکہ انخلاء کے بعد امارت اسلامیہ افغانستان پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔

عبدالمالک ہاشمی

پس منظر
آج سے تقریباً 20 سال قبل 2001 میں امریکی افواج نے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی امارت اسلامیہ کا خاتمہ کر دیا۔ ان بیس سالوںمیں 71344 افغان شہری ، 78314 افغان فوجی اور پولیس اہل کار، 84191 طالبان اور 2400 امریکیوں فوجیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے ۔ لیکن طالبان اور افغان شہریوں کی قربانیاں رنگ لے آئیں اور 16 اگست 2021 وہ صبح طلوع ہوگئی جب امارات اسلامیہ نے دوبارہ سے کابل فتح کرلیا۔۔ لیکن افغان افواج کی طرف عدم مزاحمت کی وجہ سے طالبان بہت تیزی سے پیش رفت کرتے گئے ۔
مغربی ممالک کا امارت اسلامیہ سے شکوہ :
اس پس منظر میں مغربی میڈیا میں طالبان کی حکومت کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ جن کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
1. امارت اسلامیہ میں ماضی کی طرح اب بھی عورتوں کے حقوق پال مال کیے جائیں گے۔ عورتوں کو گھر وں میں مقید کردیا جائے گا۔ بچیوں کے اسکول کو بند کردیے جائیں گے۔ 8 مئی 2020 کو کابل کے مضافات میں ہزارہ کمیونٹی کے ایک لڑکیوں کے اسکول میں بم دھماکہ ہوا جس سے نہ صر ف جانی و مالی نقصان ہوا بلکہ علاقے میں طالبان کے حوالے خوف وہراس بھی پھیل گیا۔
2. طالبان پر الزام ہے خوف وہراس اور بھاری ٹیکسوں کے ذریعے حکومت کرتے ہیں۔ ان کی حکومت میں شیعہ اقلیت کی نمائندگی نہیں ہے۔
3. فنون لطیفہ کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔ تھیٹر ،سینما اور فیشن بوتیکس بند کر دیے جائیں گے۔ خواتین پردہ پر واجب ہوگا اور وہ محرم کے بغیر باہر آنہیں سکیں گی۔خواتین کو ملازمت کرنے سے روک دیا جائے گا۔ جیساکہ حالیہ دنوں میں شمالی افغانستان میں امن و امان کو قائم رکھنے کی غرض سے خواتین کو بنکوں میں ملازمت سے روک دیا گیا ہے۔ سابقہ طالبان انتظامیہ کی طرح اب بھی ہیئۃ امر بالمعروف و نہی عن المنکر نامی مذہبی پولیس لوگوں سے ان کی سماجی آزادی چھین لے گی اور اپنے قوانین ان پر مسلط کرے گی۔
4. افغانستان ایک مرتبہ پھر مختلف ممالک کے دہشت گروں (حریت پسندوں) کی آماج گا ہ (a safe haven for terrorists) بن جائے گا، جہاں چین کے آزادی پسند ایغور بھی اپنے عسکری کیمپ قائم کریں گے۔ القاعدہ بھی اپنے مراکز قائم کرے گی۔
5. امریکہ کی افغانستان میں شکست چین کو موقع فراہم کرے گی کہ وہ خلا کو پُر کرے اور افغانستان میں سرمایہ کاری کرے۔
6. لوگوں کو انسانیت سوز سزائیں دی جائیں گی۔ مرد و خواتین کو لوگوں کے سامنے کوڑے لگائے جا ئیں گے۔ لوگوں سرعام پھانسی دی جائے گی۔ چور کا ہاتھ بے دردی سے کاٹ دیا جائے گا۔
7. میڈیا کی آزادی پر قدغن لگادی جائے گی۔کہا جاتا ہے کہ کچھ علاقوں میں غیر ملکی صحافیوں کو طالبان کمانڈروں نے کو ناقدانانہ رپورٹنگ کے لیے دھمکیاں دیں اور ان پر حملہ کیا ہے۔
8. لوگوں کی حمل و نقل پر نظر رکھی جائے گی۔ کوئی شہری طالبان کی اجازت " تذکرہ -ID card "کے بغیر ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں جاسکے گا۔
9. طالبان کی سول عدالتیں مقامی تنازعات کے حل کے لیے مقامی جرگہ کے نظام کو مسترد کر دیں گے۔ جس سے فوری انصاف کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوجائیں گی۔
جواب شکوہ:
طالبان اب پہلے سے زیادہ طاقت ور اور سمجھدار ہیں۔ طالبان کافی تبدیل ہوچکے ہیں۔ وہ پہلے سے زیادہ پُر اعتماد ہیں کیونکہ وہ غالب ہیں۔امریکی سفارت کار اور بین الاقوامی سیاست کے کچھ حلقوں اور ان کے مغربی اتحادیوں کا خیال ہے کہ" طالبان، درحقیقت، ان بیس برسوں میں بدلتے ہوئے حالات سے خاطر خواہ سبق حاصل کر چکے ہیں ۔ اب وہ پہلے والے طالبان نہیں رہے۔"ان کے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ" مغرب اور افغان عوام طالبان کو بین الاقوامی دہشت گرد سمجھنا چھوڑ دیں بلکہ انہیں ایک قومی سیاسی عسکری گروہ کے طور پر دیکھیں اور انہیں گلے سے لگائیں۔" ان کا دعویٰ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ" تحریک طالبان کو عالمی اور علاقائی افغان سیاسی منظر نامے میں ضم ہونے میں مدد کی جائے ، اور تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر انہیں اپنے نظریاتی خامیوں اور سخت عالمی نقطہ کو تبدیل کا موقع فراہم کیا جائے۔"
سابقہ طالبان حکومت میں اکثر وزرا ء نہ حکومت کا تجربہ رکھتے تھے اور نہ وسعت نظری رکھتے تھے اور نہی ان کے پاس مالی وسائل تھے۔ اُن کے پاس کوئی ٹھوس وژن اور پروگرام نہیں تھا۔ اب طالبان ٹیکنالوجی کے استعمال میں زیادہ نفیس ہو گئے ہیں اور جہادی نیٹ ورک سے زیادہ مؤثر انداز میں جڑے ہوئے ہیں۔ (سابق افغان نائب وزیر دفاع تمیم عیسے)
علاوہ ازیں ، امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے امن زلمے خلیل زاد ے نے مقامی افغان ٹی وی چینلز کو اپنے کئی انٹرویوز میں اس بات پر اصرار کیا ہے کہ "طالبان بدل چکے ہیں اور وہ خواتین کی تعلیم کے بارے میں اپنی تنگ نظری ، دنیا کے ساتھ تعلقات اور دہشت گرد گروہوں کو اپنے ہاں پناہ دینے کے حوالے سے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔"
افغان حکومت کے سرکاری ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہےکہ " کابل میں مذاکرات جاری ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ غیرطالبان رہنماؤں کو نئی افغان حکومت میں شامل کیا جائے۔ لہذا نئی افغان حکومت ایک " جامع افغان حکومت ۔An inclusive Afghan" ہوگی۔
میڈل ایسٹ اٹلانٹک کاؤنسل کے ڈائیرکٹر کرسٹن فون ٹین روز کا کہنا ہے " طالبان نے افغانستان میں اقتدار کی پرامن منتقلی پر آمادگی ظاہر کی۔ یہ عالمی برادری کے لیے اطمنان بخش امر ہے۔"

 

Abdulmaalik Hashmi
About the Author: Abdulmaalik Hashmi Read More Articles by Abdulmaalik Hashmi: 11 Articles with 16592 views I want to be a prolific writer... View More