سپاہی مقبول حسین 335139.......
1965کی جنگ کے دوران سپاہی مقبول حسین اور انکی ٹیم کو ٹارگٹ دیا گیا کہ وہ
کشمیر میں بھارتی فوج کے اسلحہ ڈپو پر حملہ کرکے ڈپو کو تباہ کردیں.
مقبول حسین اور انکےساتھی مشن کےلیے روانہ ہوئے اور انتہائی بےجگری اور
بہادری سے دشمن کے اسلحہ ڈپو اور دیگر فوجی تنصیبات کو تباہ وبرباد کرکے
واپسی کی کمانڈ ملنے پہ واپس اپنے بیس کی جانب روانہ ہوئے کہ راستے میں ہی
سپاہی مقبول حسین دشمن کے فائر کی زد میں آگئے اور موقع پہ زخمی ہونے کی
وجہ سے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے. بھارتی فوجیوں نے آپکو دیکھ لیا اور
گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے.
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کو جنگی قیدیوں کی فہرست میں شامل کیا جانا
چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ مقبول حسین بھارت کو گہری چوٹ پہنچا
چکے تھے اسلیے بھارت نے انہیں جنگی قیدی کے طور پہ ظاہر ہی نہیں کیا اور نہ
ہی انکا نام سامنے لایا گیا.
گرفتار کیے جانے کے بعد انہیں نامعلوم مقام پہ منتقل کردیا گیا. بھارتی فوج
کشمیر میں انکے ہاتھوں ذلیل ہونے کے بعد یہ جان چکی تھی کے پاک فوج ہر طرح
سے چوکس اور آس پاس ہی ہے اس لیے مقبول حسین سے معلومات کا حصول انتہائی
ضروری تھا جن سے مقبول حسین ایک بہترین پیشہ ور سپاہی ہونے کے سبب اچھی طرح
واقف تھے لیکن بھارتی اس بات سے واقف نہ تھے کہ سامنے موجود شخص کسی چٹان
سے کم نہیں.
سپاہی مقبول حسین کو آسان ہدف کے طور پہ لیتے ہوئے بھارتی فوج نے ان سے
فوجی معلومات کے حصول کا مطالبہ کیا جسے وہ مسلسل ٹالتے رہے اور انکار کرتے
رہے پہلے پہل دشمن مار پیٹ کر انہیں مجبور کرتا رہا مگر وہ چپ رہے.
ہر گزرتے دن کے ساتھ دشمن کو احساس ہوا کہ یہ کسی معمولی قوتِ برداشت کا
حامل سپاہی نہیں اس لیے دشمن کے مظالم بھی انسانیت کو شرمانے کی حد تک جا
پہنچے. انہیں مار مار کے لہولہان کردیا جاتا کہ فوجی معلومات دو کے پاکستان
میں فوجی ٹھکانے کہاں کہاں ہیں لیکن سپاہی مقبول حیسن کی زبان سے کبھی اس
متعلق ایک لفظ بھی نہ سن پائے سوائے اسکے کہ میں کچھ نہیں جانتا حالانکہ
مقبول حسین غلط ہی سہی لیکن بول ضرور سکتا تھا لیکن انہیں وطن کے متعلق
جھوٹی معلومات بھی دشمن کو دینا گوارہ نہ تھا.
دوسری جانب مقبول حیسن کے اہلِخانہ اس امید پہ راہ دیکھتے رہے کہ شاید کبھی
انکی کوئی خبر آجائے لیکن انکی زندگیوں میں ایسا نہ ہوسکا.
بھارت میں درندوں کے صبر کا پیمانہ دن بدن لبریز ہوتا جارہا تھا اور سپاہی
مقبول حیسن کو توڑنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈے جاتے رہے کبھی ان ڈرم میں ڈال
کر لڑکایا جاتا اور ڈرم پر ڈنڈے برسائے جاتے، تو کبھی انکے زخموں کو چوٹ
پہنچا کر انہیں تازہ کیا جاتا اور ان پہ نمک چھڑکا جاتا.
انہیں کئی کئی دن جگا کے رکھا جاتا اور کئی بار انہیں ایسے ایسے شرمناک
سزائیں دی جاتیں جو انسانیت کو شرما دیتی جو کہ بتانے کی بھی ہمت
نہیں.کھانے میں کبھی مرچیں بھر دی جاتیں اور کبھی اینٹ اور لکڑی کا بارودہ
کھلایا جاتا.
بھارتی فوجی اب اس دیوانےکے سامنے بے بس نظر انے لگی تو انکی ضد میں ایک
بات کا اور اضافہ ہوگیا کہ پاکستان مردہ باد بولو شاید جاں بخشی ہو جائے.
انہیں کئی بار کہا گیا کہ صرف ایک بار پاکستان مردہ باد بول دو اور فوجی
ٹھکانوں کی معلومات دے دو پھر گھر بھیج دیں گے لیکن یہ انکی خوش فہمی تھی
کہ شاید اس طرح وہ اس شیر سپاہی کو توڑ سکیں پاکستان کو گالی دلوانا اب ایک
ضد کی صورت اختیار کرگیا تھا.
اس دوران کئی بار جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہوا لیکن کسی بھی فہرست میں مقبول
حیسن کا نام سامنے نہیں آیا. 1971ء کی جنگ کے بعد جب دونوں ممالک کے درمیان
فوجیوں کا تبادلہ ہوا تو امید کی جاتی رہی کےشاید آپ زندہ ہوں لیکن آخر تک
آپ کا نام سامنے نہیں آیا اور آپکو "Missing Believed Killed" یعنی شہداء
کی فہرست میں شامل کرلیا گیا اور پاک فوج اور انکے خاندان کی طرف سے سپاہی
مقبول حیسن کا باب بند کردیا گیا.
دوسری طرف دشمن کے عقوبت خانے میں درد و کرب سے دل دہلاتی چیخ وپکار اب بھی
جاری و ساری تھی. خون میں لتھڑا اور کٹا پھٹا وجود ابھی کئی سالوں سے دشمن
کے غیض و غضب کا نشانہ بن رہا تھا.اب بات صرف ایک انا کی تھی کے کیسے ایک
شخص پوری فورس کو ہیجڑا بنا کے ظلم سہہ رہا تھا.ہر شخص اپنے طریقے سے تکلیف
دینے میں مگن تھا ظلم کرنے والےتھک گئے لیکن ظلم سہنے والا نہ تھکا.
بس ایک بار پاکستان مردہ باد کہہ دو اور وہ آنکھیں کھول کے ادھ موا سے ہو
کہ کہتا پاکستان زندہ باد اور پھر درد کی طویل لہر اس کے بدن میں کوند
جاتی. دس سال بیتے، بیس سال بیتے پاک وطن کی خاطر عقوبتیں سہنے والا جانباز
واقف ہی نہ ہوسکا کے باہر کی دنیا میں کیاہو رہا ہے. میرا ملک کیسا ہوگا آج
کس مقام پہ ہوگا.
کہا جاتا ہے کہ مقبول حسین کو ہزاروں افواہیں سنائی جاتیں کے پاکستان کا
وجود نہیں رہا. پاکستان پہ بھارت نے قبضہ کرلیا فلاں فلاں لیکن سپاہی مقبول
حیسن کی زبان صرف پاکستان زندہ باد تک ہی محدود ہوگئی. اس بات نے دشمن کو
اتنا حواس باختہ کیا کے آسمان نے وہ ظلم دیکھا کے ایک نہتے شخص کو جسم سے
گوشت نوچا گیا.
اس کے ناخن پلاس سے کھینچ لیے گئے، انہیں اذیت دے دے دے دے کر ذہنی مریض
بنادیا گیا، انکا جسم گرمی سلاخوں سے داغا گیا، ان پہ کُتے چھوڑے گئے جنہوں
نے انکی پنڈلوں کا گوشت تک چبالیا.انہیں کئی کئی دن بھوکا پیاسا رکھا گیا.
دن کو اذیت اور جاگنے کو رات. پاک وطن کی 1965 میں پیدا ہونے والی نسل جوان
ہوکر خود ماں باپ بن گئے لیکن کسی کو علم نہیں تھا کہ کہیں کوئی ہماری خاطر
کئی دہائیوں سے اذیتیں سہہ رہا ہے. دشمن ماد مار کے تھک چکا لیکن ایک بار
بھی پاکستان مردہ باد نہ کہلوا سکے یہاں تک کے دانت تک کھینچ لیے گئے اور
وہ عظیم سپاہی اپنے ہوش و حواس تک کھو بیٹھا اور مدہوش سا رہنے لگا اس کی
زبان پہ بس پاکستان زندہ باد پاکستان زندہ باد .
بالاخر دشمن کا حوصلہ جواب دے گیا اور آخر ایک دن پلاس سے انکی زبان کھینچ
کر حلق سے الگ کر دی گئی تاکہ کبھی اگر واپس جا بھی پائیں تو اپنے اوپر
ہونے والے مظالم کی روداد بیان نہ کرپائیں لیکن سلام ہے اس مردِ مجاہد کو
سلام ہے اس ماں کو جس نے اسے جنا سلام ہے اس باپ جو جس نے اسکی پرورش کی،
سلام ہے ان بہنوں کو جن کے لال نے اپنی کٹی زبان سے بہتے لہو سے دشمن کی
دیوار کو پاکستان َزندہ باد کے نعروں سے لال کردیا.
40 سال 40 سال ایک شخص تنہاء رہا ایک کال کوٹھری میں سارے جہاں سے بے خبر
کب صبح ہوئی کب رات ہوئی اس معلوم نہیں بس وہ اندھیرا اور لہو سے رنگے درو
دیوار. جس میں ایک انسان بچے سے بڑھاپے تک مراحل میں داخل ہوجاتا ہے. ایک
انسان جس کی عمر پچیس سال تھی وہ انسان جس کی عمر سے دوہرا حصہ بھارت کے
عقوبت خانے میں گزارا.
وہ انسان جو اس پاک وطن کے لیے گھر سے ہنستا مسکراتا گیا اور جب واپس آپ
لوٹا تو نہ اسکی یاداشت باقی تھی، بدن کا کوئی حصہ سلامت، نہ زبان موجود،
نہ دانت موجود، جب واپس لوٹا تو نہ اس کا گھر موجود نہ گھر والوں کا وجود.
بس چند قبریں جو اس کی واپسی کی آس لیے ابدی نیند سُوگئے. بہتے آنسووں کے
ساتھ میری اتنی ہی ہمت ہے کہ میں اتنا ہی لکھ سکتا ہوں میں سوچتا ہوں مجھے
40 دن گھر سے باہر رہنے کا سوچ کر تہنائی کا احساس گھر والوں کی دوری تکلیف
دیتی ہے.اپنے وطن اپنے ملک میں ہنسی خوشی دن رات اپنے سے رابطے میں رہتے
ہوئے.
وہاں وہ دیوانہ اگر اپنی آزادی کی خاطر اگر ملک کے خلاف کچھ بھی دیتا تو آج
تک ہمیں خبر ہی نہ ہوتی لیکن سلام سلام ہے اس شخص میری نسلیں تک قربان اس
شخص پہ جس نے اندھیروں میں تنہائیوں میں بھی وطن کو گالی نہ دی. ساری آپکو
آپ کے خاندان کو سلام پیش کرتی ہے جو مثال آپ نے قائم کی دنیا کی تاریخ میں
اسکی مثال نہیں ملے گی.
انکے گھر میں انکی والدہ ،والد، دوبہنیں، ایک منگیتر اور ایک بھائی شامل
تھے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مقبول حُسین کو ان 40 سالوں میں کتنی تنخواہ
ملی ہوگی جبکہ انکے نہ ہاتھ سلامت نہ پاؤں سلامت، نہ ہڈیاں سلامت نہ آنکھیں
سلامت نہ کان سلامت نہ زبان سلامت نہ ذہنی توازن برقرار اور جب گھر واپس
لوٹے تو ایک بھی فرد زندہ نہ تھا اس بدلے انہوں نے کیا لیا ہوگا کتنی
تنخواہ وصول کی ہوگی؟ انکے گھر والوں نے کتنی عیاشی کی؟ انکے گھر والوں نے
کتنے بنگلے، گاڑیاں اور اراضی خریدی؟ کچھ نہیں آج نام ہے تو ایک غازی مقبول
حسین کا جس کی نہ آج اولاد ہے نہ اس کا کوئی نام لیوا نہ اس کا کوئی گھر
لیکن یاد رکھنا جو مقام وہ پا گیا وہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے یہ صرف ایک
مقبول حسین نہیں ایسے کئی مقبول حسین کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔
تو صاحب وطن کے لیے تنخواہیں نہیں لڑتیں ایمان لڑتا ہے، جہاد لڑتا ہے، جذبہ
لڑتا ہے شوقِ شہادت لڑتا ہے۔
پاک فوج زندہ باد
پاکستان پاءندہ باد۔۔۔
|