غازی گروپ کیپٹن (ر) شہزاد منیر احمد

”غازیوں آو منزلوں سے سرخرو ہو کر“ جنگ شروع ہوتی ہے، پاک فوج ہر سپاہی اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوتا ہے، کسی کو شہادت نصیب ہوتی ہے تو کوئی جنگی محاذ سے سرخرو ہو کر غازی بن کر لوٹتا ہے۔ بہت سی کوششوں کے باوجود تمام شہدا اور غازیوں کا ذکر کرنا مشکل ہو جاتا ہے

چھ ستمبر پاکستانی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت اور کامیابی کا دن ہے، چھ ستمبر تجدید عہد اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نئے جذبوں کے ساتھ جواب دیتے اور تیار رہنے کا دن ہے۔ جنگ میں بری، بحری اور ہوائی فوج کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کے شہری بھی بڑھ چرھ کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ ٹینکوں، توپوں، بحری جہاز وں اور جنگی طیاروں کی گن گرج سننا،ٹی وی، ریڈیو یا اخبار پر ان کی فتوحات کے بارے جانکاری کرنا واقعی ہمارے لیے ایک بہت بڑی خوشی ہوتی ہے، اورآگے بڑھنے کاجذبہ بڑھتا ہے۔ ”غازیوں آو منزلوں سے سرخرو ہو کر“ جنگ شروع ہوتی ہے، پاک فوج ہر سپاہی اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوتا ہے، کسی کو شہادت نصیب ہوتی ہے تو کوئی جنگی محاذ سے سرخرو ہو کر غازی بن کر لوٹتا ہے۔ بہت سی کوششوں کے باوجود تمام شہدا اور غازیوں کا ذکر کرنا مشکل ہو جاتا ہے، بہت سے ایسے شہدا ہوتے ہیں جن کی بہادری کی داستان ساتھ میں شہید ہونے والے ہی بتا سکتے ہیں لیکن وہ شہادت کے رتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔ اس طرح ان کی بہادری کی کہانیاں گمنام ہی رہ جاتی ہیں، اسی طرح جو غازی واپس لوٹتے ہیں ان کی داستانیں بھی کبھی کبھار گمنام ہو کر رہ جاتی ہیں۔ آئیے آج میں آپ کو ایک ایسی غازی شخصیت سے ملواتا ہوں جنہیں اللہ تعالیٰ نے 1965ء کی جنگ میں ملک وطن کے دفاع کے لیے بہادری سے لڑنے کا موقع دیا اور انہوں نے جذبہ ایمانی اور حب الوطنی سے اس قدر جانفشانی سے اپنے فرائض کو سر انجام دیا جو اپنی مثال آپ ہیں۔ انہوں نے اپنی فوجی زندگی کا آغاز پاکستان نیوی سے کیا اورپاکستان ائیر فورس میں گروپ کیپٹن کے عہدے پر اختتام کیا۔انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں شرکت کی اور اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ جنگیں کیا ہوتی ہیں اور کیسے لڑی جاتی ہیں ان کی تفصیل ایسے ہی غازی بیان کر سکتے ہیں اور انہی کی زبانی سنی جا سکتی ہیں۔ الحمد للہ صحت مند ہیں اور اپنے تجربات، ملک سے محبت اور دیگر موضوعات پر سیر شدہ کالم لکھتے ہیں، ان کالموں کو پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کو پاکستان سے کسقدر محبت ہے۔ ان سے 1965ء اور1971جنگ کے بارے جاننے کی کوشش کریں تو بندہ دنگ رہ جاتا ہے کہ ہم کھیل کے میدان سے باہر ایویں جذباتی ہوتے ہیں۔ اصل جذبات تو ان شہدا اور غازیوں کے ہیں، جنہوں نے ہر معرکہ پر نئی داستان رقم کی ہے۔ تعلیم و تاریخ سے انتہا کا لگاؤ ہونے کی وجہ سے انہوں نے جوان نسل کے لیے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں جن کو پڑھنے سے آج کا بگڑا ہوا بچہ راہ راست پر آسکتا ہے، زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ”بولتے لمحوں کے نقوش“ ان کی کچھ کتابیں ابھی زیر طبع ہیں۔ گروپ کیپٹن (ر) شہزاد منیراحمد صاحب مختلف اخبارات اور رسائل کے لیے مضامین، آرٹیکلز، اداریے اور کالم لکھتے رہتے ہیں، بلکہ باقاعدہ کالم نگار ہیں۔ آج چھ ستمبر کی نسبت سے روزنامہ ”ہمت“ ”چھ ستمبر یوم دفاع تاریخی آئینہ میں“کوئٹہ سے ان کا کالم شائع ہوا۔ میں سمجھتا ہوں یہ کالم ہر پاکستانی کو پڑھنا چاہیے۔ انہوں نے پندرہ روزہ ”صف شکن“ میگزین کے لیے بھی مضامین لکھیں۔ گروپ کیپٹن شہزاد منیر احمد صاحب ریٹائرمنٹ سے پہلے پی اے ایف کالج کے پرنسپل بھی رہے، اب نیشنل پری کیڈٹ سکول سیالکوٹ کے ڈائریکٹر اور جوائنٹ فورسز پبلک سکول مریم مختیار شہید کیمپس چیچہ وطنی کے مشاورتی کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔ اللہ کریم ان کے جذبات، تجربات اور علم سے ہمیں فیض یاب فرمائے۔ چلتے چلتے اندھر کی بات بتاتاچلوں۔۔ یہ گمنام درویش صفت شخصیت کے مالک ہیں، ایک بڑے عہدے سے ریٹائر ہونے کے باوجود ان سے مل کر آپ حیران رہ جائیں گے یہ جناب اتنے بڑے عہدے پر واقعی تھے۔۔۔انہوں نے اپنی تمام تر سروس ادارے کے ڈسپلن اور ماں کے ایک قولّّ پُترجدوں کوئی جونیئر تیرے کول اپنی درخواست، مشکل لے کے آوے تے اینوں کل دا نیں کہنا۔ اج ای ہونا چاہیداٗٗ پر عمل کرتے مکمل کی۔۔ اللہ کریم ان کو صحت و سلامتی والی لمبی زندگی دے اور ان کی سوچ نئی نسل میں پھونک دے آمین۔۔
 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 156858 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More