یوں بھی پڑوسی ملک کا اثر تو د وسرے ملک پر پڑتا ہی
ہے مگر افغانستان میں ہونے والے تبدیلیوں کا اثر لازما پاکستان پر پڑتا ہے
کیونکہ افغانستان سے ہمارے بہت سارے روابط اور معاملاتِ زندگی بندھے ہوئے
ہیں بناء بر ایں افغانستان میں ہونے والے تبدیلیوں کا اثر پاکستان پر ضرور
پڑتا ہے ۔ حال ہی میں افغانستان میں طالبان کا برسرِ اقتدار آنے کو اگر ہم
اس صدی کی سب سے بڑی تبدیلی کہہ دیں تو بے جا نہ ہوگا ، دنیا کے چالیس سے
زائد ممالک کا اپنے چہرے اور سر پر شرمندگی کا خاک مَل کر بوریا بستر گول
کر کے چلے جانا ۔ جھونپڑیوں،کچے مکانوں اور دینی مدارس میں دینی تعلیم حاصل
کرنے والے اور روکھی سوکھی روٹی کھانے والے افراد کے ہاتھوں دنا کے سپر
ترین اور ترقی یافتہ ممالک کی ذلّت و رسوائی ایک ایسی بڑی تبدیلی ہے جسے
نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ؟ افغانستان میں اس وقت کل کے طالبان اور آج کے
مولوی صاحبان ایچی سن کالج، بیکن ہاؤس ،آکسفورڈ کالج میں پڑھے ہوئے لوگ
نہیں بلکہ کسی دینی مدرسے میں زمین پر بیٹھ کر دینِ اسلام کے پکّے پیروکار
ہیں ۔ ان کا اشرافیہ طبقے سے کوئی تعلق نہیں ۔قبل اسکے افغانستان میں
اشرافیہ طبقے اور لبرل طبقہ سے تعلق تھا جو افغا نستان کو سنبھال نہ سکے ۔
امریکہ نے افغانستان کو نگلنے کی ناکام کوشش کی مگر افغانستان بیس سال تک
ان کے گلے کی ہڈی بنی رہی آخر مجبور ہوکر انہیں اسے چھوڑنا پڑا ۔۔ حکیم
الامت علامہ اقبال نے پچھلی صدی میں کیا خوب فرمایا تھا ،،
کھول آنکھ،زمین دیکھ ،فلک دیکھ، فضا دیکھ ۔۔۔۔۔مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو
ذرا دیکھ
آج یوں محسوس ہو رہا ہے کہ علامہ اقبال کی خواب کی تعبیر افغانستان میں
طالبان کی حکومت کی شکل میں ظہور پذیر ہوا ہے ۔افغانستان میں ایک نیا سورج
طلوع ہو چکا ہے ۔ اس سورج کی روشنی کا پاکستان تک پہنچنا بعید اا قیاس نہیں
۔اگرچہ طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے کل ہی یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان
کو افغانستان سے کوئی خطرہ نہیں ‘‘ بے شک ایسا ہی ہو گا مگر ایک چیز جو
نہیں روکی جا سکتی ۔وہ
یہ سوچ ہے کہ اگر افغانستان میں اسلامی حکومت قائم ہو سکتی ہے تو پاکستان
میں کیوں نہیں ؟ جبکہ پاکستان کی تو پیدائش ہی اس نعرہ پر ہوئی تھی کہ ’’
پاکستان کا مطلب کیا ، لا الہ اﷲ ‘‘ پاکستان میں اکثریت اسلامی ذہن رکھنے
والوں کی ہے جبکہ حکومت ہمیشہ اشرافیہ طبقہ کے ہاتھ میں رہی ہے ۔ پاکستان
میں ہمیشہ ایسے لوگ بر سرِ اقتدار رہے جنہوں نے مغربی ممالک میں تعلیم حاصل
کی ،جن کی سوچ بھی مغربی تہذیب کے زیرِ اثر رہی ،جنہوں نے اپنے لئے مغربی
ممالک ہی میں اپنی دولت اور عیاشی کے مواقع پیدا کیے۔عام عوام کا ان سے
کوئی تعلق نہیں ۔ پاکستان کو قائم ہوئے 74برس بیت چکے ہیں مگر ان مغرب زدہ
لوگوں کی حکومت کبھی کامیاب نہ رہی ۔ حکمرانی تب کامیاب ہوتی ہے جب معاشرے
میں انصاف ہو ، مگر یہاں تو تحریکِ انساف کی حکومت آئی تو بھی انصاف نظر
نہیں آیا ۔ جس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی
عدلیہ یعنی ادارہ برائے انصاف دنیا کے 128ممالک میں120ویں نمبر پر ہے گویا
پاکستان کا عدالتی نظام دنیا کے نچلے ترین درجوں کی فہرست میں شامل ہے ۔
اندریں حالات افغانستان سے اسلامی ذہن رکھنے والے لوگوں کو تقویت لازما ملے
گی ۔ اور وطنِ عزیز میں بھی اسلامی حکومت کے لئے دباؤ بڑھ سکتا ہے ۔ خصوصا
خدا نخواستہ اگر پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت بھی ناکام ہو گئی تو عوام
مایوسی کا شکار ہو ں گے اور لا محالہ عوام کسی ایسی طاقت کی طرف مائل ہو ں
گے جو ان کے مسائل حل کرنے کی طاقت رکھتے ہوں یا کم از کم معاشرے میں انصاف
کا بول بالا کرنے کی ہمّت رکھتے ہوں ۔ انسانی سوچ پر قد غن نہیں لگائی جا
سکتی ، اگر افغانستان میں طالبان کی حکومت کامیاب ہو تی ہے تو پاکستان میں
اسلامی طرزِ حکومت کے قیام کو رّد نہیں کیا جا سکتا ۔۔
|