ملت کا پاسبان ہے محمدعلی جناحؒ
ملت ہے جسم ہے جاں ہے محمدعلی جناحؒ
قائداعظم کی رحلت نہ صرف عالم اسلام کیلئے بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک عظیم
سانحہ تھی جس بات کا ثبوت ان اخباری بیانوں سے ملتا ہے جوآپکی رحلت کے
بعدپوری دنیا کے رہنماؤں نے جاری کیے 12,13ستمبر1948کے اخباروں سے پتہ چلتا
ہے کہ دنیا بھرکے مسلمانوں نے نہ آپ کی وفات کا سوگ منایا بلکہ غائبانہ
نماز جنازہ بھی پڑھی 11ستمبر1948کولیاقت علی خان نے نشری پیغام جاری کیا کہ
اﷲ پاک نے قائداعظم محمدعلی جناح کو اس وقت ہم سے جدکردیا جب کہ ہمیں اپنی
قومی بقاء کے دشورترین راستوں پرانکی رہنمائی کی ضرورت تھی ۔برطانیہ کے کنگ
جارج نے محترمہ فاطمہ جناح کے نام تعزیتی ٹیلی گرام بھیجا جس میں لکھا تھا
مجھے اور ملکہ کو آپ کے بھائی اور پاکستان کے پہلے گورنرجنرل کی وفات کاسن
کرشدیدصدمہ پہنچایہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے آپ کیلئے بھی اور پاکستان
کیلئے بھی جس کے وہ رہنما تھے۔برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ آرنے کہا آج
پاکستان اپنے ایک عظیم ترین شہری سے محروم ہوگیا۔قائداعظم کے بعدکے
گورنرجنرل خواجہ ناظم الدین نے کہا عظیم لوگ مرنے کے بعدبھی زندہ رہتے
ہیں۔قائداعظم کے دوست پی جی کھیرنے کہا قائداعظم محمدعلی جناح تاریخ ساز
شخصیت تھے انکی قوت،فیصلہ اورخوداعتمادی کی بے مثال وکالت نے انکوایک قابل
رشک رہنمابنادیاانکی موت ہم سب کا اجتمائی نقصان ہے۔ قائداعظم دیانت،ذہانت
،صداقت کی خدادادصلاحیتوں کے ساتھ بے خوف ملت مسلم کی سربلندی وسرفرازی
کیلئے جہدمسلسل کرتے رہے آپ نے کبھی تھکاوٹ کوقریب نہ آنے دیا اور نہ
اکتاہٹ سے دل لگی کی نہ ذاتی خواہش پاؤکی زنجیربنی اورنہ سفرمیں کوئی
دنیاوی رشتہ حائل ہوسکا۔قائداعظم کی عظمتوں کا اندازہ اس بات سے لگائی کہ
جب آپ کی رحلت ہوئی تو روزنامہ پربھارت نے لکھامتحدہ ہندوستان کی تمام
طاقتیں اس ایک شخص سے شکست کھاگئیں ۔یہ عظیم الشان کارنامہ یہ عظیم
کامیابی،صداقت اورراست بازی ،جراء ت دلیری جو آپ کی زندگی سے ٹپکتی رہتی ہے
اور یہ چیزیں اﷲ کے قرب کے بنامل ہی نہیں سکتیں حضورپرنورﷺ کااسوۃ
حسنہ،صحابہ کرام کی حکمت تدبرقائداعظم کے پیش نظررہا۔قائداعظم کی وفات کے
دس برس تک ہندوستان کے مسلمان ان کے ہی دماغ سے سوچتے وہ جیسا کہتے رہتے
تھے وہی کام کرتے آپ کو دل سے محسوس کرتے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے
تاریخ کے دھارے کارخ موڑدیاپاکستان کا قیام ان کا ایساکارنامہ ہے جسے تاریخ
کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔
11ستمبربابائے قائدہمارے محسن قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی برسی کا دن ہے اس
روز آپ انتقال کرگئے تھے یہ دن ہمیں اس عظیم انسان کی یاد دلاتا ہے کہ جس
سے برصغیرکے مسلمانوں کوایک نصب العین دیا۔انہوں نے حصول منزل کیلئے ایک
ایسی بے مثل قیاد دی جس نے صاف شفاف جمہوری عمل کی بدولت دنیا کی سب سے بڑی
اسلامی مملکت اور دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ایک الگ قوم کے طورپردنیاکے
نقشے پراپناوجودقائم کیا۔قائداعظم محمدعلی جناح کو سخت مزاج کہا جاتا ہے
کیونکہ وہ اصول پسندانسان تھے مگروہ شادی کے معاملے میں خوش قسمت ثابت نہ
وہوئے آپ کی شادی 16برس کی عمرمیں اپنی کزن ایمی بائی سے 1892میں ہوئی آپ
کی والدہ کی ضدتھی کہ لندن جانے سے پہلے شادی کرلے تاکہ وہ آپ کی خوشی دیکھ
سکیں آپ لندن چلے گئے تو ایمی بائی بیمارہوگئی اورصحت یاب نہ ہوسکیں اور
وفات پاگئیں ۔آپ کی دوسری شادی 40سال کی عمرمیں پارسی خاندان کی رتی سے
ہوئی جوعمرمیں 16برس کی تھی مگرآپ کودیوانوں کی طرح چاہنے لگی جس کی وجہ سے
بات شادی تک جاپہنچی آپ دونوں نے 1918میں شادی کرلی جس کے بعدرتی نے اسلام
قبول کرلیاجس کے بعد ان کا نام مریم رکھا گیا آپ دونوں نے ایک بیٹی کو جنم
دیا جس کا نام دینا رکھا گیا جیسا کہ قائداعظم کی زندگی مصروف اورکٹھن تھی
تورتی اکیلی رہتی اسی وجہ سے دونوں میں علیحدگی ہوگئی ۔
قائداعظم محمدعلی جناح نے کبھی اپنے مقصدکیلئے حکومتی عہدوں کونہ استعمال
کیااور نہ کسی کی سفارش کی چونکہ قائداعظم بیماررہتے تھے توانہوں نے ایک دن
نرس سے پوچھاتم میری بہت خدمت کرتی ہو بتاؤ تمہیں کیا چاہیے تواس نے کہا
میراٹرانسفرمیرے آبائی شہرمیں کروادیں توقائداعظم نے کہا یہ میرانہیں وزارت
صحت کا کام ہے۔ایک دفعہ آپ گاڑی میں جارہے تھے توریلوے ٹریک بندتھا تو
ڈرائیورگاڑی سے اترکرگیا تو عملہ کے لوگوں سے کہا گورنرجنرل آئے ہیں ٹریک
کھولو مگرقائداعظم محمدعلی جناح گاڑی سے اترے اور فرمایا ٹریک بندرہنے
دومیں کوئی ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا جو پروٹوکول پرمبنی ہو۔دنیا
پرسب سے بڑی اسلامی مملکت قائم کرنے والے محمدعلی جناح کو اس عظیم جدوجہد
کے نتیجے میں قائداعظم کاخطاب دیا گیااوران کا یہ خطاب عوام کی طرف سے انکو
خراج تحسین تھا جو آج لوگ انہیں اصل نام کے بجائے اسی نام سے پکارتے ہیں
۔آپ نے ہمیشہ نظم وضبط، ایمانداری، دیانتداری اور بہترین علمی قابلیت رکھنے
والی شخصیت تھے انہوں نے کبھی بھی سیاسی جدوجہد کی آڑمیں ذاتی خواہشات کی
تکمیل نہیں کی نہ مال کے پیچھے بھاگے اورنہ جائیدایں بنائیں انہوں نے ایسی
سیاسی جنگ لڑی کہ صرف اس خطہ کے مسلمانوں کو آزادریاست مل جائے اسی وجہ سے
نہ کسے کے آگے جھکے اور نہ انہیں کوئی خریدسکا۔ان کے بارے میں فاطمہ جناح
لکھتی ہیں کہ قائدعظم کی کوششوں سے بے پناہ تجربہ حاصل کیا اسی لیے لوگوں
سے کہہ پاتی ہوں یہ کرویہ نہ کرویا یہ تمہارے لیے اچھا ہے یہ تمہیں نقصان
دے گا کیونکہ ان سے ہی سب کچھ سیکھا ہے ۔قائداعظم محمدعلی جناح ہندوستان
میں 18سال کی عمرمیں سب سے کم عمربیرسٹرکہلوانے والے شخص تھے ۔قائداعظم کی
بیماری کے بارے میں فاطمہ جناح لکھتی ہیں :کہ سردی ،بخاراورکھانسی کی وجہ
سے وہ کئی کئی روز بیماررہتے تھے مگربے چین رہتے تھے کیوں کہ وہ ایک عظیم
روح تھی جولوگوں کیلئے ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرنا چاہتی تھی بخار کے باربار کے
حملوں نے آپ کے جسم کو کمزورکردیا تھاپاکستان جب معرض وجودمیں آیا قائداعظم
کی صحت تسلی بخش نہ تھی مگرپھرکمزورجسم ناتوانی کے باوجود پاکستان کے طول
عرض کے دورے کیے کہیں مہاجروں کی حوصلہ افزائی توکہیں اداروں میں بہتری
کیلئے حکمت عملی بنائی مگرافسوس سے کہنا پڑتاہے کہ قائداعظم محمدعلی جناح
کے بعدآئین کی دھجیاں ہی بکھیری گئی ہیں اور آئین کو ایک ردی کا کاغذسمجھا
جاتا ہے اب اجتماعی طورپرسب عناصربدنیتی،اقرباپروری،ذاتی مفادات کی
تکمیلاور نااہلی کی وجہ سے پوراملک بحرانوں کا شکار ہے ہماری بدقسمتی ہے کہ
ہمارے ملک میں پارٹیاں توتبدیل ہوتی ہیں مگرچہرے تبدیل نہیں ہوتے وہی کرپٹ
مافیالوگ ملک پرقابض ہیں اور ملک کے ساتھ کھیل رہے ہیں ہرآنے والا دن
بدترہوتاجارہاہے ملک ہے کہ قرضوں میں ڈوبتاجارہا ہے ۔ساراکام عوام کا کیا
دھرا ہے جولوگ ملک کولوٹ رہے ہیں باربار انہیں کوموقع دیتے ہیں اور
بیوروکریٹس، سیاستدان،فوجی آمروں کو ڈھول کی تھاپ پرخود پرمسلط کردیتے
ہیں۔سب قائدکا نام لے لے کرسیاست کرتے ہیں مگرجب اسمبلیوں میں پہنچ جاتے
ہیں قائد کا نام لینا بھی بھول جاتے ہیں مجھے کوئی بھی ایساسیاستدان
نظرنہیں آرہا جو قائدکے کرداراورانکے ویژن کے مطابق کام کرے جو بھی آتا ہے
صرف اپنے خزانے بھرنے کی سوچتا ہے اورصرف ایک دن اس میں سے تھوڑا سا خزانہ
نکال کرفوٹوسیشن کرکے قائداعظم کا نام لے کر اپنی پاپولیریٹی بڑھاتے ہیں
اور دعابھی مانگے ہیں کہ اے اﷲ قائدکے رستے پرچلا مگرپھروہی لوٹ کھسوٹ شروع
کردیتے ہیں اﷲ پاک بھی کیسے دعاپوری کرے جب دل میں کچھ اور زبان میں کچھ
اورہوگا۔
|