جوہری پاکستا ن کا گوہر نایاب

(محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی یاد میں ناچیز کی چند سطور )



راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098, [email protected]

28 مئی 1998 پاکستان کی تاریخ کا یادگار ترین دن تھا ۔ چاغی کے پہاڑوں پہ اللہ کی تکبیر کے نعرے گونجے اور ساتھ ہی پاکستان ایک جوہری قوت بن گیا ۔ 80 کی دہائی یا اس سے پہلے پیدا ہونے والے پاکستانی اس دن کو کسی صورت فراموش نہیں کر سکتے ۔ ہر پاکستانی پرجوش تھا اور ہر ایک کی خوشی دیدنی تھی ۔ یہاں تک کہ جیلوں میں قید افراد نے بھی جذبہ حب الوطنی کے تحت خوشی کا بھرپور اظہار کیا۔ بظاہر تو یہ ایٹمی دھماکے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے رد عمل کے طور پر کیے گئے تھے لیکن درحقیقت یہ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے اٹھائے گئےان اقدامات کا حاصل تھا جو سقوط ڈھاکہ کے بعد حکومت پاکستان نے اٹھائے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان قوم کے وہ مایہ ناز سپوت ہیں جنہوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں انتھک محنت و لگن کی ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالدیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس کارنامے کی وجہ سے نہ صرف اہل پاکستان کے دل کی دھڑکن بن گئے بلکہ امت مسلمہ نے بھی انہیں ہیرو تسلیم کر لیا ۔ سعودی مفتی اعظم نے عبد القدیر خان کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیا اور پاکستان کے لیے خام حالت میں تیل مفت فراہم کرنے کا فرمان جاری کیا۔اس کے بعد سے پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے خام تیل مفت فراہم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر عبدلقدیر خان کی مقبولیت کبھی کم نہیں ہوئی ۔دوسری جانب پاکستان مخالف دنیا نے ڈاکٹر صاحب کو خار گلو جانا اور انکے اس کارنامے کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہ کر سکے ۔ مغربی دنیا نے پرپگینڈا کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا جسے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بخوشی قبول کر لیا۔یوں کہیے کہ ڈاکٹر صاحن پاکستان کی حلیف اور حریف دنیا میں یکساں مقبول تھے ۔ مغرب میں منفی کردار کے طور پر جانے جانے کے باوجود وہ پاکستانیوں کے حقیقی ہیرو تھے، جنہوں نے عالمی دباؤ کی موجودگی میںوطن عزیز پاکستان کے لیے ایٹم بم بنا کر اسے بھارت کی کئی گنا بڑی عسکری قوت کے خلاف ممکنہ مزاحمت (ڈیٹرنس) فراہم کی۔اقوام عالم نے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے لیے پاکستان کو امداد کی لالچ بھی دی لیکن کسی دباؤ اور لالچ کو خاطر میں لائے بغیر ایٹمی دھماکے کر دیے گئے ۔ قوم کے بچے سے لے کر اس وقت کے حکمران تک کی زبان پر یہ الفاظ تھے :
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
نہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے ، نہ انہوں نے پاکستان سے تعلیم حاصل کی اور نہ ہی ان کی شادی کسی پاکستانی سے ہوئی لیکن وہ ایسے پاکستانی تھے کہ ہر پاکستانی اُن کا احسان مندرہے گا۔ آپ ہندوستان کے شہر بھوپال(جو موجودہ وقت میں بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کا صدر مقام ہے) میں ایک اردو بولنے والے غوری پٹھان گھرانے سے تعلق رکھنے والے سکول کے کےاستاد عبدالغفور اور زلیخا کے ہاں 1 اپریل 1936ء کو پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب ابھی محض 11 سال کے تھے کہ متحدہ ہندوستان نے برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی، جس کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم بھوپال سے ہی حاصل کی ۔بھوپال سے 1952 میں میٹرک پاس کرنے کے بعد عبدالقدیر خان پاکستان منتقل ہوئے، اور کراچی میں رہائش اختیار کی، جہاں انہوں نے 1956 میں ڈی جے سائنس کالج سے طبیعات میں گریجویشن مکمل کی۔ کچھ عرصہ کراچی کی شہری حکومت میں ملازمت کے بعد آپ 1961 میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ہالینڈ چلے گئے، جہاں 1967 میں مٹیریلز ٹیکنالوجی میں ماسٹر آف سائنس (ایم ایس) کی، اور اس کے بعد بیلجئیم کی لیوین یونیورسٹی سے 1972 میں دھاتوں سے متعلق انجینیئرنگ کے شعبے میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایمسٹرڈیم میں فزکس ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری کے ساتھ کام شروع کیا ، تاہم جلد ہی وہ ایٹمی بجلی گھروں کے لیے جوہری ایندھن کے لیے گیس سنٹری فیوج طریقہ استعمال کرنے والے یورینکو گروپ سے منسلک ہو گئے۔ آپ نے ہالینڈ میں قیام کے دوران 1964 میں برطانوی خاتون ہینڈرینا ریٹرنک سے شادی کی، جو جنوبی افریقہ میں ڈچ والدین کے ہاں پیدا ہوئی تھیں، جبکہ ان کی پرورش زیمبیا میں ہوئی تھی۔ شادی کے بعد وہ ہنی خان کہلائیں اور ان سے ڈاکٹر صاحب کی کی دو بیٹیاں ہوئیں۔ڈاکٹر صاحب بیرون ممالک سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اپنے مذہب اور عقیدے کے ساتھ جڑے رہے ، وہ مذہبی سوچ رکھتے تھے ۔للہیت ان کی شخصیت کا حصہ تھی ۔ اللہ پر پختہ یقین ہی تھا جس کی بدولت انہوں نے انتہائی کم وسائل اور نامساعد حالات کے باوجود پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولی ٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی
مئی 1974 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خون نے جوش مارا۔دل میں پاکستان کے لیے ایٹم بم بنانے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنے کی خواہش پیدا ہوئی تو انہوں نے پاکستانی حکام کو اس سلسلے میں خطوط ارسال کیے ۔ دسمبر 1974 میں ان کی ملاقات اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی، جس میں انہوں نے پاکستان کی سیاسی قیادت اور چوٹی کے جوہری سائنس دانوں کو یورینیم کی افزودگی سے متعلق سمجھایا۔ اس سے قبل پاکستان کا جوہری پروگرام 1972 سے منیر احمد خان کی قیادت میں پلوٹونیم کی افزودگی کی بیناد پر کام کر رہا تھا۔ ابتدا میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورینکو گروپ کے ساتھ کام کرتے ہوئے پاکستان کے جوہری پروگرام میں مدد فراہم کرتے رہے، جس کے باعث گروپ میں انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ اسی بنیاد پر آپ کے خلاف ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے ماہرین نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ ع کتب میں بصراحت موجود ہیں ـجس کےبعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیاـ
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
آپ نے 31 مئی 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر "انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز" کے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لیا۔ بعد ازاں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کرکے " ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز" رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے نومبر 2000ء میں ڈاکٹر اے کیو خان انسٹیٹیوٹ برائے کمپیوٹر سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی کہوٹہ (KICSIT) نامی درسگاہ کی بنیاد رکھی۔ ایٹم بم پروگرام کے ساتھ رفاقت کے دوران ڈاکٹر قدیر یورینیم کی افزادگی پر زور دیتے رہے، جس کے باعث ان کے دوسرے سائنس دانوں خصوصاً منیر احمد خان کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر، جو طویل عرصے تک پاکستان کے جوہری پروگرام کے سربراہ رہے، ملکی عوام کے لیے تو ہردل عزیز شخصیت ہیں لیکن سائنس دانوں کی کمیونٹی میں ایک متنازع شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ پاکستان کے جوہری پروگرام میں کردار ادا کرنے کے علاوہ ڈاکر عبدالقدیر خان نے پاکستان کی قومی خلائی ایجنسی سپارکو کو دوبارہ منظم کرنے، اور خلائی پروگرام، خصوصاً پہلے پولر سیٹلائٹ لانچ وہیکل پروجیکٹ اور سیٹلائٹ لانچ وہیکل میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے پاکستان میں کئی انجینیئرنگ یونیورسٹیوں کے قیام میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینیئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں میٹلرجی اینڈ میٹریل سائنس انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کیا۔آپ نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔ڈاکٹر عبد القدیر خان نے سیچٹ (sachet) کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنایا ـجوتعلیمیاوردیگرفلاحیکاموںمیں سرگرم عمل ہے۔آپ کی خدمات کے عوض 14 اگست 1996ء میں صدر پاکستان فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغا بھی ان کو عطا کیا گیا۔1993ء میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔ سال 1998 میں جوہری ہتھیاروں کے کامیاب تجربے کے بعد 1999 میں ایک بار پھر نشان امتیاز سے نوازا گیا۔
ایوان ِ اقتدار پاکستان سے دس میل کے فاصلے پہ واقع ہے ۔ عوام میں ہردل عزیز شخصیات مقتدر طبقات کے دلوں میں کانٹا بن کر چبھتی ہیں ۔ خان صاحب کا شمار ان معدودے چند شخصیات میں ہوتا ہے جو پوری قوم کے متفقہ ہیرو گزرے ہیں، لیکن دیومالائی ہیرو جیسی شہرت رکھنے والے ڈاکٹر قدیر خان کی ایسی بلندی کے بعد پستی بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے ۔ عبدالقدیر خان 2004 میں ایک بین الاقوامی سکینڈل کے مرکزی کردار کی حیثیت سے دنیا کے سامنے لائے گئے ، جس میں ان پر غیر قانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے الزامات عائد کیے گئے۔ان دنوں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سابق مطلق العنان صدر پرویز مشرف کے دور میں مشیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عہدے پر فائز تھے جب امریکی صدر جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کی جانب سے 2003 میں ڈاکٹر اے کیو خان پر یورینیم دیگر ممالک کو فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔ مکے لہرا کر اقتدار پہ قابض ہونے والے جنرل پرویز مشرف امریکی دباؤ کے سامنے کھڑے نہ رہ سکے اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان پر دباؤ ڈالتے ہوئے سرکاری ٹیلی ویژن پر ان سے معذرت کروائی اور اس کے بعد ان کے خلاف باضابطہ انکوائری کا آغاز کیا گیا اور انہیں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ البتہ حکومت پاکستان نے امریکہ کے اصرار کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا، بلکہ انہیں اسلام آباد میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا، جسے کئی سال بعد اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر ختم کرنا پڑا۔ فروری 2009 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُن کی نظر بندی ختم کرنے کے احکامات جاری کیے اور کہا کہ ڈاکٹر عبد القدیر ایک آزاد شہری ہیں۔ عدالتی حکم پر ان کی نظر بندی تو ختم کر دی گئی لیکن وہ اپنی نقل و حرکت کے بارے میں حکام کو مطلع کرنے کے پابند تھے اور ہر وقت سکیورٹی کے حصار میں رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے حوالے سے ان پر دباؤ ڈال کر اعترافی بیان دلوایا گیا اور انہیں ’اسٹیبلیشمنٹ کی طرف سے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
خون سے ہم نے گلشن سینچا رنگ بھی بخشا پھولوں کو
پہلی فصل میں اہل چمن نے پیش ہم ہی کو خار کیے
ترقی یافتہ ممالک اپنے قومی ابطال (ہیروز) کی قدر کرتی ہیں ۔ انہیں سر آنکھوں پہ بٹھاتی ہیں لیکن ہم نے اپنے محسن کو سڑکوں پہ رسوا کیا۔جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں انہوں نے اپنے گھر میں نظر بند ہو کر ہی زندگی گزاری جبکہ 2012 میں انہوں نے ایک سیاسی جماعت تحریک تحفظ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ایسی شخصیت کا استحقاق تھا کہ انہیں اقتدار کی کرسی پہ پہنچایا جاتا ۔ ملکی صدارت ان کے حوالے کی جاتی لیکن یہاں کا وطیرہ ہی کچھ اور ہے ۔ ہم ان لوگوں کو سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں جو قوم کے ساتھ ہاتھ کرے ۔ 2013جو وطن عزیز کے لیے کچھ کر گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہو یا کچھ کر گزرا ہو اس کے لیے اقتدار کی کرسی شجر ممنوعہ قرار پاتی ہے ۔ کے انتخابات میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی جس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنی سیاسی جماعت تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ اپنے پیٹی بند کی حمایت کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ حکومت وقت کا رویہ بدلتے ہی کچھ سائنسدانوں نے ڈاکٹر صاحب کے کارناموں کو مٹی میں ملانے کی کوشش کی ، کچھ نے ان کے کارناموں میں حصہ دار بننے کی کوشش کی اور کچھ عاقبت ناانیشوں نے تو ایٹم بم کی تیاری کو وقت اور قومی دولت کا ضیاع قرار دیا ۔ ارباب اقتدار کے ہتک آمیز رویے، اپنے ساتھیوں کے حاسدانہ رویے اور عوام کی طرف سے سیاسی پزیرائی نہ ملنے کے باوجود ڈاکٹر خان نے پاکستان سے ہی وفا کی ، پاکستان سے ناطہ توڑنے اور کہیں اور جا بسنے کا سوچا تک نہیں ، زندگی کے آخری ایام اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر ہی گزارے۔
آئین جوانمرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
آپ کافی عرصہ سے علیل تھے ۔پھیپھڑوں کے مرض کے سبب کے آر ایل ہسپتال لایا گیا جہاں ان کی طبیعت مزید خراب ہو گئی، ڈاکٹروں اور طبی ماہرین نے انہیں بچانے کی پوری کوشش کی تاہم 10 اکتوبر 2021ء کی صبح 7 بج کر 4 منٹ پر وہ پاکستانی قوم کو سوگوار چھوڑ کردار ِفانی کو الوداع کہہ گئے ، وجہ وفات کورونا پیچیدگی اور پھیپھڑوں سے خون بہنا تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کی وصیت کے مطابق انکی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی۔پوری قوم اس بطل جلیل کے لیے سوگوار تھی ، ایوان اقتدار جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے پاکستان سے دس میل کے فاصلے پر ہے اس لیے محسنِ پاکستان کے جنازے میں وزیر اعظم اور صدر پاکستان صف دوستاں میں نظر نہیں آئے ۔ ڈاکٹر صاحب نے زندگی میں وہ کارنامے کر دیے ہیں کہ ان کو بعد از مرگ عزت دینے کے لیے کسی شاہ و سلطان کی بیساکھی کی ضرورت نہیں ۔ پاکستان کو جوہری قوت بنانے والا گوہر نایاب اپنی اصل منزل کی جانب کوچ کر گیا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو اپنی رحمت کے سائے میں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ہمیں اپنے محسنوں کی قدر کرنے کا سلیقہ اور توفیق عطا فرمائے اور اس گوہر نایاب کا نعم البدل پاکستان کو عطا فرمائے ۔ آمین۔


Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 85 Articles with 105153 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More