ڈاکٹر عبدا لقدیر خان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی
(Dr Rais Samdani, Karachi)
|
ڈاکٹر عبدا لقدیر خان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ٭ زندگی فانی ہے جو اس دنیا میں آیا ہے اسے واپس لوٹ کر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ دکھ، ر نج، افسوس اپنی جگہ لیکن حکم خدا وندی اٹل اور حقیقت ہے جس کے مطابق ”کُلُ نَفسِِ ذَ آلقُتہُ الموت“(ترجمہ: ہر جان موت کا مزہ چھکنے والی ہے) لیکن بعض اموات کا درد اس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے کہ بھلائے نہیں بھولتا۔پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی سانوسوں کی گنتی مکمل ہوچکی تھی، جو سانسیں انہوں نے دنیا میں لینا تھیں ان کے اختتام کا وقت آن پہچا تھا۔ انہوں نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا اور 10اکتوبر2021کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ نے سچ کہا کہ ؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدا ور پیدا جوہری سائنس داں، محسن پاکستان بلا شبہ پاکستان کی ایک دیدا ور شخصیت تھے۔ یکم اپریل 1936ء کو ہندوستان کے شہر بھوپال میں جنم لینے والے عبدا لقدیر خان کی دنیاوی زندگی کا سفر 85سال اپنی آب وتاب دکھا کر پاکستان کو دنیا میں ناقابل تسخیر بنا کر پاکستان کے شہر اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوا،ان کی نماز جنازہ ان کی وصیت کے مطابق اسلام آباد کی فیصل مسجد میں ادا کی گئی اور تدفین ایچ8قبرستان میں عمل میں آئی۔ ڈاکٹر عبدا لقدیر خان کے سفر آخر میں ہزاروں پاکستانیوں نے شرکت کی۔ انہیں سرکاری اعزازات کے ساتھ مٹی کے سپرد کیا گیا۔ ان کے جنازہ میں شریک لوگوں کی تعداد یہ بتا رہی تھی کہ پاکستانی عوام ان سے کس قدر محبت اور عقیدت رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ محسن پاکستان کی اس جدوجہد کو قبول فرمائے جو انہوں نے پاکستان کو ایک جوہری طاقت بنانے میں کی۔ شاد عظیم آبادی کا معروف شعر ؎ ڈھونڈو گے گر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم ڈاکٹرعبدا لقدیر خان نے پاکستان کے لیے کیا کام کیا؟ اور ہم نے اپنے اس عظیم محسن کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ بہت بڑا سوال ہے۔ اس کا جواب حال کا مورخ شاید نہ دے سکے لیکن تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے، مورخ آج کا نہیں تو کل کا مورخ اس اہم سوال کو جواب تفصیل سے لکھے گا۔ میں بھی حال کا مورخ ہوں اس لیے اس سوال کے جواب کو یہیں پر چھوڑتا ہوں۔دنیا مکافات ِ عمل ہے، اپنے کیے کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے، رب کریم تو حساب لیں گے ہی۔ محسن پاکستان کے ساتھ منفی سلوک کرنے والے اللہ کی گرفت میں ہیں، یہی سزا کیا کم ہے کہ جس نے عرصہ دراز تک حکمرانی کی ہو، سیاہ اور سفید کا مالک رہا ہو اس کے لیے وطنِ عزیز کے دروازے بند ہیں۔ ملک پر حکمرانی جمہوری طریقے سے یا طاقت کے بل بوتے پر کرنے والے تاریخ میں حکمراں کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹرعبد ا لقدیر خان نے ایک جوہری سائنسداں کے طور پر ایسا عظیم کارنامہ سر انجام دیا کہ آج لوگ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد انہیں دوسرا رہنما تصور کررہی ہے۔ عبدا لقدیر خان کا عمل پاکستانیوں کے دلوں میں حکمرانی کررہا ہے۔ آج کہا جارہا ہے اور بات درست بھی ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان بنایا تو ڈاکٹرعبدا لقدیر خان نے پاکستان کو بچایا۔پاکستان پہلے بھی اپنی قوت کا مظاہرہ کر کے دشمن کوسکھا چکا ہے اور بتا چکا ہے کہ پاکستان کی افواج دنیا کی بہترین افواج میں سے ہیں۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد پاکستان کی پوزیشن کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوگئی۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں ایک قوم بنا ہے تو قوم میں ہیرو بنا نا ہونگے اور پاکستانی قوم نے قائد اعظم کے بعد اپنا دوسرا ہیرو ڈاکٹر عبد القدیر خان کو بنالیا۔ ڈاکٹر قدیر کا کارنامہ ہی ایسا عظم اور منفرد ہے کہ وہ محسن پاکستان ہونے کے جائز حقدار ہیں۔ اس قومی ہیرو کے ساتھ جو کچھ بھی منفی سلوک ہوا وہ پاکستانی قوم نے نہیں کیا، اس کے ذمہ دار ہمارے حکمراں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی حکمران تھے جن کی دعوت پر ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستان آئے اور ایٹمی قوت کا منظم کیا۔جنہوں نے اس قومی ہیرو کے ساتھ بد سلوکی کی وہ بھی ہمارے ہی حکمراں تھے۔ پاکستان کی عوام کے دلوں میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کا احترام ہے، عزت ہے، وہ انہیں اپنا قومی ہیرو تسلیم کرتے ہیں۔ محسن پاکستان کے ساتھ جو سلوک ہوا اس دکھ کا اظہار انہوں نے کھلے الفاظ میں کیا، وہ شاعری سے بھی شغف رکھتے تھے، وہ عام گفتگو میں بر ملا اشعار سنا یا کرتے تھے جن سے ان کے اندرکی کسک جھلکتی تھی۔ یہ شعر وہ اکثر پڑھا کرتے ؎ اڑوں کہاں کہ ہوا میں بھی جال پھیلے ہیں میں پر سمیٹ کے بیٹھا ہوں آشیانے میں اسی طرح معروف شاعر ناسکؔ کا ایک شعر بھی محسن پاکستان اکثر گفتگو میں سنایا کرتے ؎ مجھ کو آزادی ملی بھی ہے تو کچھ ایسے ناسکؔ جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے ڈاکٹر عبد القدیر خان پر ایسا بھی وقت آیا کہ ان کی زباں بندی کا حکم جاری کردیا گیا۔ پابندی لگادی گئی، کس قدر ستم کی بات تھی کہ ہم نے اپنے محسن کو اعزازات بھی دیے اور خود اسے پابند سلاسل کرنے کا اعزاز اپنے نام تاحیات لکھوا لیا۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو جو اعزازپاکستانی قوم نے دینا تھا وہ دے دیا لیکن ان کے ساتھ سلوک کرنے والوں کو کیا ملا، یہ ہم آپ سب جانتے ہیں۔ فیض احمد فیض ؔ کا یہ شعر اس صورت حال کو خوبصورتی بیان کرتا ہے . نثار میں تری گلیوں کے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے ڈاکٹر عبد القدیر خان کی آواز بند کردی گئی۔ انہوں نے اخبارات میں کالم لکھنا شروع کردیے۔ اپنے ایک کالم جو روزنامہ جنگ کی اشاعت یکم جون 2020ء میں ”یوم تکبیر اور ملکی حالات“ کے عنوان سے تحریر کیا لکھتے ہیں کہ ”ہمیں علم تھا کہ اگر ہم فیل ہوگئے تو پاکستان دس برس بھی قائم نہیں نہ رہ سکے گا اور اگر ہم کامیاب ہوگئے تو ان شاء اللہ قیامت تک کوئی پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا“۔ یہ بات اس وقت کے جوہری معاملات کے سربراہ غلام اسحاق خان اور جنرل محمد ضیا ء الحق سے ملاقات کے بعد کہی تھی۔ اس سے قبل ڈاکٹر عبد القدیر خان کو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پاکستان منتقل ہونے اور جوہری معاملات کی سرپرستی کرنے پر مجبور کر چکے تھے اس بات کا ذکر بھی محسن پاکستان اپنے ایک ٹی وی انٹر ویو میں کیا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے اپنے بھوپالی ہونے اور پھوپالیوں کے دوچیزوں پر فخر ہونے کا ذکر کچھ اس طرح سے کیا۔ کہتے ہیں کہ ”بھوپالیوں میں کوئی غدار نہیں ہوا دوسرے یہ کہ بھوپالیوں میں کوئی قادیانی پیدا نہیں ہوا“۔ اپنے یوسفزئی پٹھان ہونے کا ذکر اس طرح سے کیا ”ہم یوسفزئی پٹھان ہیں۔ ہمارے خون میں ملاوٹ نہیں ہے۔ ہمارے آباؤاجداد300 سال پہلے بھوپال آگئے تھے۔ ہمارا خون اسی طرح جوش مارتا ہے اور لڑنے مرنے کو تیار ہیں۔ اس وجہ سے ہم نے پاکستان کو ایٹمی قوت نایا کہ کسی کے آگے سر نا جھکایا جاسکے“۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر بھوپال سے حاصل کی، میٹرک 1952ء میں بھوپال سے کیا، پاکستان ہجرت کرنے کے بعد کراچی میں ڈی جے سائنس کالج سے 1960 ء میں گریجویشن کیا، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے ہالینڈ چلے گئے اور 1972ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ برلن (جرمنی)، ڈیلفٹ (ہالینڈ) اور لیوون (بیلجیم) میں بھی تعلیم حاصل کی۔ جس کے بعد وہ بیرون ملک ہی جوہری توانائی کے مختلف اداروں میں خدمات انجام دیتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں وہ پاکستان تشریف لائے اور بھٹو صاحب سے ملاقاتوں کے بعد ڈاکٹر عبد القدیر خان نے پاکستان منتقل ہونے اور جوہری توانائی کے منصوبے کی سرپرستی کرنے پر آمادہ ہوگئے وہ بیرونِ بیرون ملک سے پاکستان آگئے انہیں ریسرچ لیباریٹری کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ یہ لیباریٹری 1976ء میں قائم ہوئی،22سال کی جدوجہد کے بعد 28مئی 1998 میں پاکستان نے عالم اسلام کی اولین اور دُنیا کی ساتویں نیوکلیئرپاور ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا جس کی سربرا ہی ڈاکٹر عبد القدیر خان نے کی۔ پاکستان کا یہ عمل علاقے میں امن کے لیے طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ بھارت نے 11 مئی 1998 کو پانچ ایٹمی دھماکہ کرکے خطہ میں توازن بگاڑ پیدا کردیا تھا۔مغربی دنیا اس عمل پر خوش نہیں تھی، خوش ہوتی بھی کیسے،پاکستان ایک اسلامی ملک تھااور اسلامی دنیا میں نیوکلیئر پاور ہونے والا پہلا ملک ہونے جارہا تھا۔ امریکہ نے تو پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگا کر پاکستان سے نفرت کا عملی مظاہرہ کردیا تھا، ان اقتصادی پابندیوں کو پاکستان نے برداشت کیا، دیگر ممالک بھی امریکہ کی طرح پاکستان کے اس عمل پر خوش نہ تھے، بعض مغربی ممالک جو پاکستان کے دوست تصور کیے جاتے ہیں انہوں نے بھی پاکستان کو ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا، پاکستان نے ان کا مشورہ خوش دلی سے سن لیا لیکن قبول نہیں کیا، انہوں نے اس کا برا نہیں منایا، کسی قسم کی پابندیوں کی بات نہیں کی۔ جہاں اس عمل کی مخالفت پائی جاتی تھی دوسری جانب بعض ممالک جن میں مغربی اور اسلامی ممالک شامل تھے پاکستان کے اس عمل کے حق میں تھے۔ بعض نے اعلانیہ اور بعض نے خاموشی سے پاکستان کی حمایت کی۔ سعودی عرب نے بہت عرصے پاکستان کو مفت تیل فراہم کرکے ثابت کیا کہ وہ پاکستان کے اس عمل کو جائز اور درست سمجھتا ہے اور اس کا حقیقی دوست ہے۔ اقتصادی پابندیاں بھی پاکستان اور پاکستان کے عوام کا کچھ نہ بگاڑ سکیں، بھارت بھی پاکستان کا کچھ نہ کرسکا، بلکہ اب وہ جو کچھ کرے گا سو بار سوچے گا۔ اس لیے کہ اب ہم اسے اسی کی زبان میں جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔جو وہ کرے گا وہ ہم کریں گے۔ اس نے گولی چلائی تو جواب میں گولی ہی ملے گی، ایٹم بم گرایا تو جواب میں ہار اور پھول نچھاور نہیں کیے جائیں گے۔پاکستان کی سیاسی قوت جو اس وقت برسرِ اقتدار تھی اس نے تمام تر عالمی قوتوں کی مخالفت اور امریکہ جیسی ایٹمی قوت کے آگے سرِ خم تسلیم نہیں کیااور ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کے عوام کو دشمنوں کے سامنے برابری کی حیثیت میں لاکھڑا کیا۔ عالم اسلام کے سر فخر سے بلند کردئے۔میاں نواز شریف اس وقت وزیراعظم پاکستان تھے اس لیے یہ اعزاز ہر اعتبار سے انہیں جاتا ہے کہ انہوں نے اس وقت ملک اور قوم کے مفاد کو ہر چیز پر فوقیت دی، یہ اقدام دلیری اور بہادری کے بغیر ممکن نہیں تھا، اپنوں سے ناراضگی، دوست ممالک کی اس درخواست کو رد کردینا کہ ہم ایسا ہر صورت میں کریں گے، آپ کے مشورے کا بہت بہت شکریہ۔ ایٹمی قوت کا خوف، امریکہ کی ناراضگی، اس کی اقتصادی پابندیوں کا سامنا، الغرض انہوں نے تمام تر خطرات کو بالائے طاق رکھ کر ایٹمی دھماکہ کرنے کو ترجیح دی، اور ایسا ہوگیا، اقتصادی پابندیاں بھی پاکستان اور پاکستان کے عوام کا کچھ نہ بگاڑ سکیں، بھارت بھی پاکستان کا کچھ نہ کرسکا، بلکہ اب وہ جو کچھ کرے گاسو بار سوچے گا۔ اس لیے کہ اب ہم اسے اسی کی زبان میں جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔جو وہ کرے گا وہ ہم کریں گے۔ اس نے گولی چلائی تو جواب میں گولی ہی ملے گی، ایٹم بم گرایا تو جواب میں ہار اور پھول نچھاور نہیں کیے جائیں گے اور ہمیں یہ طاقت اور صلاحیت بخشی ہے مرحوم عبدا لقدیر خان نے۔ اللہ پاک انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے، آمین۔ (10اکتوبر2021ء)
|