اکھاڑا پریشد کے آنجہانی سربراہ مہنت نریندر گری مبینہ
خودکشی کیس کے اہم ملزم سوامی آنند گری کا سی بی آئی لائی ڈٹیکٹر ٹیسٹ
کرانے کی تیاری کر رہی ہے۔ سنا ہے اس ٹسٹ میں انسان سچ سچ بول دیتا ہے ۔
ایسا اگرہوگیا تو اتر پردیش میں بہت بڑا سیاسی بھونچال آجائے گا کیونکہ
گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر جن سچائیوں سے آنند گیری نے رجوع کرلیا ہے وہ
سب بھی سامنے آجائیں گی اور مہنت نریندر گیری کے ساتھ ساتھ ہندو دھرم کے
سادھو سنتوں کے اخلاق و کردار پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ اس
خودکشی کے معاملے میں آنند گری لگاتار خود کو بے گناہ بتاتے ہیں لیکن سی
بی آئی نے پریاگ راج کی سی جے ایم کورٹ میں عرضی داخل کر آنند گری کا
کسٹڈی ریمانڈ لینے کی تیاری کرلی ہے ۔ اس کے علاوہ سی بی آئی آدیا اور
سندیپ کے پالیگراف ٹیسٹ پر بھی غور کررہی ہے گی۔ اس کے بعد بہت ممکن ہے
مہنت نریندر گری کی مشتبہ موت کا معمہ حل ہوجائے لیکن ہندو دھرم کو لاحق
سنکٹ میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے ۔بعید نہیں کہ پھر لوگ بھول جائیں گے
مولانا کلیم صدیقی کون تھے اور مولانا عمر گوتم کیا کرتے تھے؟ یہ اسی طرح
کی بات ہے کہ جیسے لوگوں نے کمبھ میلے کے تباہی کے بعد تبلیغی جماعت کے
مرکز کی کہانی کو بھلا دیا ۔
ہندوستان میں سَنتوں کی سب سے بڑی تنظیم اکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد کے
سربراہ مہنت نریندر گری کے موت کی خبر تو پرانی ہوگئی مگر اس کے اطراف پایا
جانے والے شکوک شبہات کے بادل دن بہ دن گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔ یہ بادل کس
پر آگ برسائیں گے یہ کوئی نہیں جانتا ؟ لیکن یوگی ادیتیہ ناتھ کے لیے
الیکشن کے موسم میں یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ مہنت کے بارے میں پہلے تو یہ
بات سامنے آئی کہ وہ خودکشی تھی۔ اس کو اگر درست مان لیا جائے تو سوال
پیدا ہوتا ہے کہ یوگی کے رام راجیہ میں سادھو سنتوں کے سربراہ کو خودکشی کے
لیے کیوں مجبور ہونا پڑا؟ مایوسی یا خوف کی انتہا پر پہنچ کر انسان جب اپنے
آپ کو بے یارو مددگار پاتا ہے تو اس طرح کا انتہائی قدم اٹھاتا ہے۔اس لیے
سوال یہ بھی ہے کہ ڈبل انجن سرکار میں مودی اور یوگی کے دلدادہ مہنت نریندر
گیری پر یہ وقت کیوں آیا ؟ دوسرا امکان قتل کا ہے؟ اگر یہ الزام درست نکل
آتا ہے تب تو یوگی کے اس دعویٰ کی ہوا نکل جاتی ہے جو انہوں نے اقتدار
سنبھالنے کے بعد کیا تھا کہ اب یاتو جرائم پیشہ لوگ صوبے سے فرار ہوجائیں
گے یا پرلوک بھیج دیئے جائیں گے ۔ مہنت نریندر گیری کا اگر قتل ہوا ہو تو
یہ سوال ضرور پوچھا جائے گا کہ یوگی راج میں اگر سنتوں کا سربراہ محفوظ
نہیں ہو تو عام آدمی کی کیا بساط؟
یہ حسن اتفاق ہے کہ وطن عزیز میں امن و امان کے نام نہاد علمبردار سنت
مہاتما مختلف اکھاڑوں سے منسلک ہیں اور کمبھ میلے کے موقع پر ان کے درمیان
اکثر خونریز تصادم بھی ہوجاتا ہے۔ اس بار کورونا کے سبب کوئی جھگڑا فساد
نہیں ہوا تو اس کو بہت بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا۔ مہنت نریندر
گیری نرجنی اکھاڑے کے مہنت اور سیکریٹری بھی تھے۔ ان کی موت کے 12 گھنٹے
بعد ان کے خادم سرویش کمار دویدی نے نہایت پراسرار تفصیلات بتائیں۔ انہوں
نے کہا کہ مدھیہ پردیش سے کچھ عقیدتمند ’گرومنتر‘ لینے کے لیے 5 بجے شام کا
انتظار کررہے تھے مگر مہنت باہر نہیں آئے۔ کمرے کے دونوں دروازے اندر سے
بند تھے ۔ اس کو دھکا دیا گیا تو اندر کی کنڈی کھل گئی اور کمرے میں مہنت
کی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی ۔ چھان بین کے دوران 7 صفحات پر مشتمل
سوسائیڈ نوٹ بھی ملی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ 13 صفحات کی تھی اور پھر بتایا
گیا کہ دو صفحات خالی تھے اس لیے گیارہ صفحات کی تھی وغیرہ وغیرہ۔ یہ
معاملہ سلجھنے کے بجائے آئے دن الجھتا جارہا ہے۔
سی بی آئی فی الحال مہنت نریندر گیری کے فوت ہونے کی تحقیق کررہی ہے لیکن
اس سے قبل یہ بات ذرائع ابلاغ میں آچکی ہے کہ وہ اپنے شاگرد آنند گیری کی
دھمکیوں سے عاجز آچکے تھے۔ رسی انہوں نے اپنے مٹھ کے شاگرد سے منگوائی
تھی۔ خودکشی سے قبل ازخود موبائل پر ایک ویڈیو ریکارڈ کیا۔ ان کو پھندے پر
لٹکا دیکھ کر جب پولس کے ایک بڑے افسر کو فون کیا گیا تو اس نے فوراً نیچے
اتار کر اسپتال لے جانے کے لیے کہا ، اس کے بعد ہی انہیں اتارا گیا لیکن اس
وقت تک موت ہوچکی تھی۔ سوسائیڈ نوٹ میں جن تین لوگوں کے نام ہیں ان کو پولس
نے حراست میں لے لیا ۔ اس سانحہ سے یوں تو سارے ملک کے لوگ حیرت زدہ رہ گئے
لیکن مٹھ کے لوگوں کو کوئی خاص تعجب نہیں ہوا کیونکہ پچھلے دو سال میں یہ
دوسرا حادثہ ہے۔
2019 میں منعقد ہونے والے کمبھ میلے سے قبل مہنت نریندر گیری کے ساتھ نظر
آنے والے نرجنی اکھاڑے کے سکریٹری آشیش گیری کی لاش میلے کے بعد اسی مندر
میں ملی تھی ۔ پولس کے مطابق انہوں نے خود کو گولی مارکر ہلاک کرلیا مگر
بظاہر یہ قتل کا معاملہ لگتا تھا کیونکہ نرنجنی اکھاڑے کے سکریٹری کا خود
کشی کرلینا ناقابلِ یقین واقعہ تھا۔ مہنت نریندر گیری کے اپنے شاگردِ خاص
آنند گیری سے جب تعلقات خراب ہوگئے تو انہوں نے آشیش گیری کی موت کو
خودکشی کے بجائے قتل قرار دیا تھا۔ سی بی آئی کی تفتیش کا مطالبہ کرتے
ہوئے آنند گیری نے کہا تھا کہ اگر اس معاملے کی ٹھیک سے جانچ ہوجائے تو
باگھنبری مٹھ کی بہت بڑی سازش کھل کر سامنے آسکتی ہے۔ ان کے مطابق چونکہ
آشیش نے جائیداد کے غلط استعمال کا معاملہ اٹھایا اور کئی مواقع پر مہنت
نریندر گیری کی مخالفت کی اسی لیےان کے قتل کی سازش کی گئی۔ اس الزام میں
قاتل کی جانب لطیف اشارہ موجود ہے۔ قدیم ترین نرنجنی اکھاڑہ 900 سال اور
باگھنبری گدی 300 سال پرانی ہے ۔ یہیں پر مہنت نریندر گیری اور مہنت آشیش
گیری فوت ہوئے۔ اس کےلیے دھن دولت کی لڑائی کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔
ان دونوں اکھاڑوں کی ملکیت میں تقریباً 3ہزار کروڈ کی جائیداد کا تخمینہ
لگایا جاتا ہے۔ پریاگ راج کے اندر باگھنبری مٹھ کی 5 تا 6 بیگھا زمین ۔
یہاں نرنجنی اکھاڑے کے نام پر ایک اسکول ہے۔ سنگم سے متصل داراگنج علاقہ
میں بھی اکھاڑے کی زمین ہے۔ مانڈہ میں ان 100 بیگھا اور مرزا پور میں 400
بیگھا سے زیادہ زمین مٹھ کے نام پر ہے۔ اسی طرح مرزا پور کے نیڈی اور سگھڑا
میں جملہ 140 بیگھا زمین ہے یعنی پریاگ راج کے آس ہاس ہی ان کے پاس 300
کروڈ سے زیادہ کی پراپرٹی ہے۔ اجین اور اونکیشور میں 250 بیگھا زمین ہے۔
ناسک میں 100 بیگھا زمین اور درجن بھر آشرم و مندرہیں ۔ بڑودہ ، جئے پور۔
ماونٹ آبو میں بھی قریب 125 بیگھا زمین ہے۔ ہری دوار اور نوئیڈا میں بھی
50 بیگھا زمین ہے۔ وارانسی میں کئی مندر اور کروڈوں کی زمین ہے۔ الزام یہ
ہے اس قتل و غارتگری کے پسِ پشت یہی دھن دولت اور اس پر ہونے والی عیش و
عشرت کار فرما ہے۔ اس پر کوئی ای ڈی کا چھاپہ نہیں پڑتا کیونکہ تمام سیاسی
پارٹیاں ان سادھو سنتوں کے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔
آنند گیری کے شوق ساری دنیا میں مشہور ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ 2012 سے
وہ مہنت پر حاوی تھا ۔ اس کو لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کے الزام میں آسٹریلیا
کے اندر گرفتار بھی کیا گیا تھا ۔ اس طرح اس نے عالمی سطح پر اپنے دین کی
تبلیغ و تشہیر کے فرائض انجام دئیے۔آنند گیری ایک زمانے میں مہنت نریندر
گیری کا چہیتا تھا اور پٹرول پمپ کھولنا چاہتا تھا مگر استاد کے منع کرنے
پر ناراض ہوگیا ۔ 14 مئی 2021 کو اس پر چڑھاوے کی رقم اپنے اہل خانہ پر خرچ
کرنے کا الزام لگا کر مٹھ سے نکال دیا گیا ۔ یہاں بھی معاشی بدعنوانی لیکن
جواب میں آنند گیری نے بھی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر اپنے
گرو پر سنگین الزامات لگائے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اسے آسٹریلیا میں
جیل سے چھڑانے کی خاطر مہنت نریندر گیری نے چار کروڈ روپئے جمع کرلیے۔ اس
نے اپنے گرو پر مٹھ کی کروڈوں کی زمین فروخت کرنے کا الزام بھی لگایا۔ اپنے
خط میں اس نے لکھا کہ گرو نریندر کے کئی بڑے اور مہنگے شوق ہیں ۔ ان کو
پورا کرنے کےلیے مٹھ کا سرمایہ استعمال ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی
ایسے مہنت کے خلاف جو سرکار دربار کے نہایت قریب ہو جھوٹے الزامات لگانے کی
جرأت ممکن ہے؟ حکومت نے جب ان الزامات پر کارروائی نہیں کی توایک خبر کے
مطابق وہ اپنے گرو کو بلیک میل کرنے لگا ۔ آگے چل کر آنند گیری نے معافی
مانگ لی لیکن اس سے الزامات تو ختم نہیں ہوتے۔ شاگرد اگر جھوٹاہے اس پر
کارروائی ہونی چاہیے۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری )
|