وطن عزیز میں کسانوں تحریک نے ایک تاریخ رقم کردی ہے۔
دہقان جس پامردی سے مزاحمت کررہا ہے اس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے ۔
اپنے احتجاج پر اس قدر مستقل مزاجی سے کاربندکسان رہنما اور کارکنان یقیناً
سلام و احترام کے مستحق ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی یہ تحریک
کچھ نرم پڑی اس کو دشمنوں کی نادانستہ حماقت نے پھر سے زندہ کردیا۔ کسانوں
نے جب دہلی کی جانب کوچ کیا تو ان کا راستہ روک کر سرکار نے پہلی بڑی غلطی
کی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسانوں نے دہلی کے راستے روک دیئے۔ اس کے لیے
پوری طرح مرکزی حکومت کی ناعاقبت اندیشی ذمہ دار ہے اور اب عدالت عظمیٰ سے
یہ کہلوایا جارہا ہے کہ کسان راستوں کو خالی کریں ۔سرکار کے پاس وہ اخلاقی
جرأت نہیں ہے کہ ان سے بات چیت کرکے انہیں ہٹنے کے لیے کہے یا بزورِ قوت
ہٹائے۔
کسان تحریک کو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بدنا م کرنے کی ہر کوشش نے اس کی
مقبولیت میں اضافہ کیا ۔ یوم جمہوریہ کو ان پر تہمت لگانے کی جو زبردست
سازش رچی گئی وہ حکومت کی رسوائی کا سبب بنی۔کرنال میں آیوش سنہا کے
جاہلانہ بیان کہ’ جو کسان مجھ تک پہنچے اس کا سرپھٹا ہونا چاہیے‘ نے تحریک
میں نئی روح پھونک دی ۔ مظفر نگر کی بے مثال ریلی نے اس کی مقبولیت کو
آسمان پرپہنچا دیا ۔ اس کے باوجود حکومت نے دھان کی خریداری کو ملتوی کرکے
کسانوں کو اشتعال دلایا ۔ کسان پھر میدان میں اترے تو سرکار جھکنا پڑا مگر
لکھیم پور میں تو کسانوں پر گاڑی چڑھا کر بی جے پی نے جو عظیم غلطی کی ہے
بعید نہیں کہ یہ اتر پردیش میں اس کی لنکا کو بھسم کردے۔ اس سے قبل موجودہ
سرکار نے کسانوں پر لاٹھیاں برسائیں ، پانی کے فوارے چھوڑے اور ہوائی
فائرنگ کی لیکن اس مرتبہ ان ساری حدود و قیود کو پھلانگ کر ان کے جان کی
دشمن بن گئی لیکن ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ شاعر کیا کہتا ہے ؎
ظلم کی قسمت ناکارہ و رسوا سے کہو
جبر کی حکمت پرکار کے ایما سے کہو
محمل مجلس اقوام کی لیلیٰ سے کہو
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلۂ تند ہے خرمن پہ لپک سکتا ہے
وزیر اعلیٰ یوگی وہ مردِ ناداں ہیں کہ جن پر زبانِ نرم و نا زک کا اثر نہیں
ہوتا لیکن لکھیم پور کی سانحہ کی تپش کو انہوں نے بھی سیکڑوں میل دور
گورکھپور میں محسوس کرلیا ۔ وہ اپنا دورہ رد کرکے راجدھانی لکھنو آنے پر
مجبور ہوگئے ۔ اپنے چہیتے افسروں کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا کیا
جائے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ اپنے کسی وزیر کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس کے
ساتھ صلاح و مشورہ کیا جائے۔ یہاں تو معاملہ ان کے حریف کیشو پرشاد موریہ
اور رقیب روسیاہ امیت شاہ کے نائب مرکزی وزیر اجئے مشرا کا ہے ۔ وزارت
داخلہ کی بنیادی ذمہ داری ملک میں امن و امان قائم رکھنا ہے۔ اس شعبے کا
وزیر مملکت اگر اپنے بیٹے کو دنگا فساد کرنے سے نہیں روک سکے تو اسے اور
امیت شاہ دونوں کو فوراً استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ کے بیٹے آشیش مشرا عرف مونو نے احتجاج کرنے
والے کسانوں پر کمال سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاڑی چڑھا دی ۔ اس سے دو
کسان اسی وقت ہلاک ہوگئے۔ چار کسانوں کی گاڑی الٹنے سے موت ہوگئی جو آٹھ
کسان زخمی ہوئے تھے ان میں سے بھی دو فوت ہوگئے اس طرح جملہ آٹھ کسانوں
انتقال کرگئے ۔ یہ تو سیدھے سیدھے قتل عام ہے ۔ مذکورہ سانحہ اترپردیش کے
ضلع لکھیم پور کھیری کے تکونیا علاقے میں رونما ہوا جہاں بی جے پی کارکن
توکیا غنڈےنے کسانوں سے بھڑ گئے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اتوار تین اکتوبر
کو بنویر پور میں نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ کو ایک جلسہ سے خطاب
کرنا تھا۔ اس علاقہ میں چونکہ کسانوں کی تحریک چل رہی ہے اس ان کا اپنے
مطالبات کی حمایت میں سیاہ جھنڈے دکھانا توقع کے مطابق تھا۔ ایسے میں
انتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مظاہرین کے مقام متعین کردیتی اور
نائب وزیر اعلیٰ کے تحفظ کو یقینی بناتی لیکن اس نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے
میں کوتاہی کی ۔ بی جے پی والوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس
کے نتیجے میں یہ خون بہا۔ آشیش مشرا اس قدر جوش میں تھا کہ اس نے اپنی
گاڑی کو روکنے والی ایک خاتون سمیت دو پولس کو زخمی کردیا لیکن ظلم و جبر
کے ان علمبرداروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ؎
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے
اس سانحہ کے بعد لکھیم پور کے آس پاس 20کلومیٹر کا علاقہ بھی کشمیر اور
آسام بن گیا۔ وہاں بڑی تعداد میں پولس کی تعیناتی ہوگئی ۔ انٹر نیٹ بند
کرنا پڑا تاکہ سچائی ملک بھر بلکہ ساری دنیا تک نہ پھیل سکے اور وزیر اعظم
کی اقوام متحدہ میں پڑھی جانے والی تقریر کا بھرم قائم رکھا جاسکے۔ لکھیم
پو ر میں ایک طرف سے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کے حکم پر اے ڈی جی لاء
ایند آرڈر وارد ہوئے تو دوسری جانب بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش
ٹکیت جا پہنچے ۔ ضلع انتظامیہ کے ڈی ایم اروند کمار نے جو مرنے والوں کی
ابتدائی فہرست جاری کی ان میں دو بیس سال کے نوجوان اور ایک پینسٹھ سال کے
بزرگ ہیں ۔ چوتھے کسان کی عمر پینتیس سال ہے۔ اس احتجاج کے بارے میں کہا
جاتا ہے کہ یہ پنجاب کی تحریک ہے لیکن مرنے والے سارے کسانوں کا تعلق اتر
پردیش سے ہے۔ اس سانحہ کی پوری ذمہ داری مرکزی وزیر مملکت اجئے مشرا پر
آتی ہے کیونکہ بنواری گاوں ان کا آبائی وطن ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کسانوں کا اجئے مشرا کے خلاف اس قدر غم و
غصہ کیوں تھا؟ اس کی بنیادی وجہ بھی خود موصوف کے کئی متنازع اشتعال انگیز
بیانات ہیں ۔ ابھی حال میں 26 ستمبر کو اجئے مشرا نےایک خطاب عام میں کہا
تھا کہ کسانوں کے رہنما وزیر اعظم کا سامنا نہیں کرپارہے ہیں۔ یہ ایک بے
بنیاد الزام ہے۔ وزیر اعظم نے جس وقت یہ بات کہی تھی کہ ان سے کسانوں کی
ملاقات بس ایک فون کے فاصلے پر اس وقت سے کسان رہنما ان کے فون کا انتظار
کررہے ہیں لیکن سرکار نے بات چیت ہی بند کردی۔ سچائی تو یہ ہے کہ کسان
رہنما نہیں بلکہ خود وزیر اعظم پچھلے دس ماہ سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔
کسانوں کو دھمکی دیتے ہوئے اجئے مشرا نے کہا تھا کہ اگر ہم گاڑی سے اتر
جاتے تو انہیں بھاگنے کا راستہ نہیں ملتا ۔ کیا کسی مرکزی وزیر کو یہ لب
ولہجہ زیب دیتا ہے لیکن اگر اس کا تعلق بی جے پی سے ہو یا اس کی تربیت سنگھ
کی شاکھا میں ہوئی تو وہ اور کرہی کیا سکتا ہے۔ بی جے پی رہنماوں نے اپنی
بدزبانی سے سنگھ کے اقدار و کردار کو ساری دنیا کے سامنے کھول کر پیش کر
دیا ہے۔
اجئے مشرا نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ زرعی قوانین کو لے کر صرف 10-15
لوگ شور مچا رہے ہیں اگر یہ قانون اتنا غلط ہے تو پورے ملک میں پھیل جانا
چاہیے تھا۔ اس احمق کو نہیں معلوم کہ ابھی حال مظفر نگر کے اندر کسانوں نے
جو احتجاجی جلسہ کیا تھا اس میں بیس لاکھ لوگ شریک ہوئے ۔ اس کے برابر کی
ریلی کرنے کی خاطربی جے پی اگر الٹی لٹک جائے تب بھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔
اس گھمنڈ ی نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ سدھر جاو ، نہیں تو سامنا کرو ،
ورنہ ہم سدھار دیں گے ، دو منٹ لگیں گے۔ اس دھمکی کا کسانوں پر تو کوئی اثر
نہیں ہوا مگر اس کے بیٹے آشیش مشرا کے دماغ میں یہ خناس گھس گیا اور اس نے
کسانوں کو سدھارنے کی خاطر اپنے باپ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے گاڑی چڑھا
دی۔ کسانوں کا ناحق خون بہانے والا یہ درندہ صفت انسان نہیں جانتا کہ ؎
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
یہ جابر اگر سمجھتے ہیں کہ اس طرح کسان ڈرجائیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی
ہے۔ اتر پردیش کا انتخاب قریب ہے امید ہے ملک کے کسان اور عوام ان حکمرانوں
کا دماغ درست کردیں گے لیکن اس کے باوجود ان سدھرنے کا امکان کم ہے۔ اپنا
تعارف کرتے ہوئے اجئے مشرا نے کہا تھا رکن اسمبلی پارلیمان بننے سے پہلے سے
لوگ میرے بارے میں جانتے ہوں گے ۔ میں چیلنج سے ڈرتا نہیں ہوں یہ بات اگر
درست ہو تب بھی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ ڈرتے ہیں۔ اس بار اتر پردیش
کی عوام جو سبق سکھائے گی اس سے ان کے ہوش اڑ جائیں گے ۔ اب یہ معاملہ ان
کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ بی جے پی اس سیل رواں کو میڈیا کے ذریعہ روکنے
اور دبانے کی کوشش کرے گی مگر کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ کسانوں پر ہونے والا یہ
ظلم کا طوفان اس اقتدار کو لے ڈوبے گا وہ دن دور نہیں جب ساحر لدھیانوی کی
یہ پیشن گوئی سچ ہوجائے گی ؎
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
|