خدارا، آسانیاں پیدا کریں

قوم کو مبارک ہو۔اب پٹرول ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ یقیناً اتنا مہنگا پٹرول خریدنے والی قوم کوئی عام قوم نہیں ہو سکتی۔ ایک شاندار قوم ، جس کی خوشحالی قابل رشک ہو۔ مگر لوگ کمال ہیں اوور کوٹ کے اندر جھانکنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ویسے اتنا مہنگا پٹرول اور اس پر عوام کا سکوت مرگ جیسا خاموشی اختیار کرناثابت کرتا ہے کہ قوم انتہائی خوش حال ہے، حکومتی کارکردگی سے مطمن ہے اور ایسے چھوٹے موٹے جھٹکے اس کی برق رفتاری میں کوئی فرق نہیں ڈال سکتے۔ ویسے بھی گبھرانے کی کوئی بات نہیں اس لئے کہ سنا ہے تمام ملکی بنکوں کی انتظامیہ نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ ہر گاڑی خریدنے والے کو گاڑی کے ساتھ تحفے کے طور پر ایک تازہ دم اور جوان گدھابھی دیا جائے گا کہ مہینے کے آخری دنوں میں جیب میں پیسے کم ہونے کی وجہ سے پٹرول نہ خرید سکنے کے باعث گدھے کو گاڑی کے آگے باندھ کر کام چلایا جا سکے۔

کہتے ہیں کسی علاقے میں ایک صاحب حکمت اپنے تین چار حواریوں سمیت آبسے۔ حواریوں نے عوام کو ان کے تجربے اور ماضی کے حوالے سے اتنی خوبصورت باتیں بتائیں کہ سبھی لوگ ان کی فہم و فراست کے قائل ہو گئے۔سیدھے سادھے لوگ اپنے مسائل انہیں آ کر بتاتے ،وہ فوراً کوئی الٹا سیدھا جواب دے دیتے۔ حواری اس طرح واہ واہ کرتے جیسے گاؤں کے چوہدری کی ہر بات پر گاؤں کی ایک خاص ذات کے لوگ واہ واہ کرتے ہیں۔سوئے اتفاق گاؤں کے چوہدری کا بیٹا بیمار ہو گیا۔ تین چار دن علاج کے باوجود وہ لڑکا ٹھیک نہ ہوا تو کچھ لوگوں نے چوہدری کو گاؤں میں موجود اسی حکیم اور فطین شخص سے مشورہ کرنے کا کہا۔چوہدر ی صاحب پریشانی میں حرارت سے سلگتے بیٹے کو اٹھا کر اس سیانے کے پاس لے آئے۔ سیانے نے ہاتھ لگایا تو کہنے لگا یہ تو بہت گرم ہے۔ مگر کوئی بات نہیں مجھے اس کا حل بہت اچھی طرح معلوم ہے۔ اس نے دو بندوں کو کہا کہ لڑکے کو رسی سے باندھ کر چند منٹ تالاب میں غوطے دو۔ ان بندوں نے ویسا ہی کیا۔ تھوڑی دیر بعد لڑکے کو نکالا گیا تو حرارت کے ساتھ ساتھ اس کی روح بھی ختم ہو چکی تھی۔ وہ ذہین شخص پریشان ہو کر بولا کمال ہے ، دو دن پہلے میرے گھر کا تالا بہت گرم تھا ، پانی میں ڈالا تو منٹوں میں صحیح ہو گیا، مگر لڑکا مر کیوں گیا، یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ یہ سن کر اس قصبے کے لوگوں نے اس ذہین اور فظین شخص کو دھکے دے کر وہاں سے نکال دیا۔ اگلے مرحلے وہ شخص اپنے حواریوں سمیت ایک نئے شہر منتقل ہو گیا۔ اس شہر کی معیشت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ اس کے حواریوں سے اس کی کمال شہرت سننے کے بعد متاثر ہو کر مملکت کے لوگوں نے بیت المال اس کے سپرد کردیا۔ چند دنوں میں اس نے اپنے خوبصورت اقدامات سے لوگوں کی چیخیں نکلوا دیں مگر اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر تنقید کے جواب میں امید کی شمع جلاتا اور تسلی دیتا کہ پوری دنیا کے حالات ہی خراب ہیں وہ کیا کرے، پوری دنیا جتنا رو رہی ہے میں نے ابھی اتنا نہیں رلایا۔ وہاں کے سیاستدان چونکہ عقل و دانش کے ایک معیار سے زیادہ سوچتے ہی نہیں تھے اس لئے اس کے اقدامات اور باتوں سے مطمن تھے اور انہوں نے اسے مستقل حکومت کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔اس حکومتی فیصلے کے جواب میں عوام نے رو رو کر رب سے اس سے چٹکارا دلانے کی بہت دعا کی۔ سنا ہے قبولیت کی گھڑی قریب ہے۔

یہ داستان یا اس سے ملتے جلتے حالات دنیا کے بہت سے ممالک کے ہیں۔ اگر کسی کو اپنے حالات سے کچھ مماثلت نظر آئے تو معذرت خواہ ہوں۔اپنے حالات تو شاید اس سے بھی دگر گوں ہیں ۔ یہاں کوئی قانون نہیں، کوئی انصاف نہیں۔ ہاں البتہ اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو وکیل آپ کا، قانون آپ کا، انصاف آپکاحتیٰ کہ میڈیا بھی آپ کا۔ آپ دس بیس بندے مار بھی دیں آپ کا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ لوگوں کو خبر ہی نہیں ہو گی اور ہو گی بھی تو وہ کانوں میں انگلیاں دے لیں گے کہ کچھ سنا ہی نہیں۔ آج لوگ مہنگائی سے انتہائی تنگ ہیں مگر ان کو احتجاج کی بھی ہوش نہیں۔ احتجاج ہو بھی تو سنتا کوئی نہیں۔ اس ملک نے آزادی فقط ایک خاص طبقے کو دی ہے اور یہ ملک ، اس کا قانون اس کا انصاف سب اس طبقے کے غلام ہیں۔
موجودہ حکومت کی بات چلی تو کیا کہوں اس کا ہر انداز نرالا ہے۔حکومت کے خیال میں امپورٹ خزانے پر بوجھ ہے اس لئے امپورٹ کو اس قدر خراب کیا جائے کہ لوگ امپورٹ کرنا چھوڑ دیں۔ کیا عجیب خیال ہے۔ جس چیز کی اس ملک میں ضرورت ہے اسے ہر حال میں مارکیٹ میں پہنچنا ہے۔ امپورٹ نہیں ہو گی تو سمگلنگ ہو گی۔ آپ کی کونسی ایجنسی ہے جو سمگلنگ روک سکتی ہے، سب ذمہ دار پیسے اکٹھے کرنے میں مگن ہیں۔امپورٹ کو کنٹرول کرنا ہے تو انڈسٹری کو فروغ دینا ہو گا، کارخانے لگانے ہوں گے ، سرمایہ کاروں کو سہولتیں دینی ہو گی۔ صرف ٹیکسٹائل سیکٹر میں تھوڑا سا کام کرنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ آپ کرپشن کے خاتمے کی بات کرتے ہیں جتنی کرپشن اس دور میں کھلم کھلا ہو رہی ہے اتنی کبھی نہیں ہوئی۔ لوگوں کو سمجھ آ گئی ہے کہ خوب رشوت لو، اگر کہیں پھنس گئے تو رشوت دے کر چھوٹ جاؤ گے، یہی سادہ سا فارمولا ہے۔آپ چند لوگوں کے خلاف کاروائی کرکے خوش ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اثاثے اور رہن سہن ان کی آمدن سے زیادہ ہے۔کبھی کسی پٹواری کا، کسی کسٹم کے کلرک کا ، پولیس کے چھوٹے اہلکارکا ، بلدیہ کے کسی ملازم کا اور کسی بھی محکمے کے انسپکٹر کا رہن سہن دیکھ لیں، کسی بائیسویں گریڈ کے افسر سے کم نہیں ہو گا۔مہنگائی اس قدر ہے کہ ایماندار آدمی کا زندہ رہنا مشکل ہو رہا ہے۔ میرا تعلق محکمہ تعلیم سے ہے۔ میں نے بیس تاریخ کے بعد دیکھا ہے کہ اکیس گریڈ کے دیانتدار پروفیسر خالی جیب بقیہ دن بڑی مشکل سے گزارتے ہیں۔

حکومت کے وزرا ہر بات میں بھارت اور بنگلہ دیش سے اپنا مقابلہ کرتے ہیں۔ ڈالر کی وہاں کیا صورت حال کبھی وہ بھی دیکھ لیں۔ ایک ڈالر بنگلہ دیش میں چوراسی {84}ٹکے کا ہے اور بھارت میں فقط بہتر (72) روپے کا۔ آپ اس قدر نا اہل ہیں کہ آپ سے ڈالر کی پرواز نہیں روکی جا رہی۔ ڈالر ایک سو بہتر (172) پاکستانی پر بھی مطمن نہیں اور اس سے آگے جانے کے لئے تیار ہے۔بہت سے مافیہ آپ کے دور میں متحرک ہوئے مگر آپ کچھ نہیں کر سکے ان کا کچھ نہیں بگڑااور آج ،آپکی پریشانیوں کا سبب وہی مافیا ہیں، یاد رہے کہ سفید کالر کرائم کرنے والے لوگ اور مافیاز سے کچھ حاصل کرنے کے لئے ان کا پیٹ پھاڑنا ہوتا ہے قانون اور انصاف میں فرق ہے ان کے ساتھ قانونی کھیل نہ کھیلیں، ان کے ساتھ انصاف کریں کیونکہ ان کے ساتھ اگر انصاف نہ ہو ، ان کا پیٹ نہ پھاڑا جائے تو وہ آپ کا سب کچھ پھاڑ دیتے ہیں۔ آپ تبدیلی کی بات کرتے ہیں مگر آرمی چیف اور چیرمین نیب تک کو آپ بدلنا نہیں چاہتے۔کیا تبدیلی آئے گی۔ کوئی سچی بات آپ کے وزرا سننے کو تیار نہیں فوراً ناراض ہو جاتے ہیں۔بزرگ کہتے ہیں جب آدمی غصے میں بات کرتا تو جتنا وہ اپنے منہ کو بھینچتا ہے اسی قدر اس کی زندگی بھینچی جاتی ہے، مختصر ہو جاتی ہے۔ میری ایک عرض ہے کہ یاد رکھیں حکومتیں سدا قائم نہیں رہتیں۔آپ لوگ اگر لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنا چاہتے ہیں ، حکومت قائم رکھنا چاہتے ہیں تو لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں کیونکہ لوگوں کی مشکلات جس قدر زیادہ ہوں گی حکومت کی زندگی اتنی مختصر ہو گی۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500843 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More