آئی ایس آئی کے نئے ڈائرکٹر جنرل کے نام پر سول حکومت اور فوج کے درمیان تنازعہ؟

پاکستان میں سول حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات کئی مرتبہ بگڑ چکے ہیں کیونکہ ملک میں فوج طاقتور حیثیت رکھتی ہے ۔ ان دنوں موجودہ پاکستانی فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ،اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان تعلقات کشیدہ نہیں بلکہ بہتر دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ اور بات ہیکہ پاکستان کے شعبہ انٹلی جنس (آئی ایس آئی ) کے ڈائرکٹر جنرل کے عہدہ پر تقرری کا معاملہ تنازعہ کا شکار ہوگیا تھا جسے بات چیت کے بعد حل کرلیا گیا ہے ۔واضح رہے کہ 6؍ اکٹوبر کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی پریس ریلیز میں آئی ایس آئی سربراہ کی حیثیت سے جنرل ندیم احمد انجم کے نام کا اعلان ہوچکا تھا لیکن حکومت اور فوج کے درمیان یہ معاملہ تنازعہ کی شکل اختیار کرگیا۔بتایا جاتا ہیکہ وزیر اعظم عمران خان کو شکوہ ہیکہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے پہلے انکے نام کا اعلان وزیراعظم آفس سے ہونا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم نے جنرل ندیم احمد انجم کے تعلق سے کہا ہیکہ جنرل ندیم بہت پروفیشنل آدمی ہیں ، انکے نام پر کوئی اعتراض نہیں ہے ، ہوسکتا ہیکہ وہ ان ہی کے نام کی منظوری دے دیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ملک عامر ڈوگر کا کہنا ہیکہ وزیر اعظم عمران خان، موجودہ آئی ایس آئی سربراہ جنرل فیض حمید کو عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اور وزیر اعظم کو یہی شکوہ ہیکہ اس عہدے پر تقرر کا اعلان وزیر اعظم آفس سے ہونا چاہیے تھا لیکن یہ پنڈی (فوجی ہیڈکواٹر)سے کردیا گیا۔اس اعلان کے بعد وزیر اعظم او رفوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باوجود کے درمیان ایک طویل نشست منعقد ہوئی جس کے بعد بتایا جاتا ہیکہ آئی ایس آئی سربراہ کے نام کیلئے وزارت دفاع کے ذریعہ تین نام دیئے گئے ہیں جن میں سے ایک نام کی منظوری وزیراعظم عمران خان دینگے۔ عامر ڈوگر کے مطابق کابینہ کی میٹنگ میں وزیر اعظم نے تفصیل کے ساتھ بات کی اور کہا کہ انکے جنرل قمر جاوید باجوہ سے مثالی تعلقات ہیں، جو آج تک کسی وزیر اعظم اور آرمی چیف کے اتنے اچھے تعلقات نہیں تھے۔ اسی اثناء 13؍ اکٹوبر کو اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) نجی ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف میں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کے نام پر اتفاق ہوگیا ہے۔ نئے ڈی جی آئی ایس آئی وہی ہونگے جن کے نام کا اعلان پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے کیا تھا۔ بتایا جاتا ہیکہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم ہونگے جن کی تعیناتی کے حوالے سے جلد ازجلد نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے گا۔نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد ندیم احمد انجم اگلے ہفتے سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہیکہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری پر مشاورت مکمل ہوچکی ہے اور تقرری کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ انہو ں نے کہاکہ ایک بار پھر سول اور فوجی قیادت نے یہ ثابت کردیا کہ ملک کے استحکام ، سالمیت اور ترقی کیلئے تمام ادارے متحد اور یکساں ہیں۔جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہیکہ 6؍ اکتوبر کو پاکستانی فوج میں اعلیٰ سطح پر تبادلے اور تقرریاں کی گئی تھیں جن کے مطابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا گیاتھا۔

سعودی عرب میں خواتین کیلئے مواقع۰۰۰شعبہ مساجد امور میں دوسو خواتین تعینات
ایک طرف افغانستان میں طالبان کی نئی عبوری حکومت خواتین کو اسلامی دائرے کار میں رکھنے کیلئے پابندیاں عائد کررکھی ہیں تو دوسری جانب سعودی عرب نے ویژن 2030کے تحت خواتین کو ملک میں ہر شعبہ ہائے حیات میں مواقع فراہم کرنے کی سعی کررہا ہے۔ ملک میں سب سے پہلے خواتین کو ڈرائیونگ کی عام اجازت دی گئی اور پھر اس کے بعد خواتین کو روزگار سے مربوط کرنے کے لئے آزادی دے دی گئی۔ ماضی میں دارالحکومت ریاض اور دوسرے شہروں میں سعودی خواتین ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک کی خواتین کو بھی حجاب لازمی رکھا گیا تھا لیکن آج سعودی میں بے پردگی عام ہوتی جارہی ہے۔ سینما کلچر عام ہوتا جارہاہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ سعودی معاشرے میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ مواقع دینے کی غرض سے جنرل پریزیڈنسی کی جانب سے اس سال دو سو سے زائد خواتین کو مملکت کی دو بڑی مساجد یعنی حرمین شریفین کے امور میں ملازمت دی گئی ہے۔عرب نیوز کے مطابق ریاض میں منعقد ہونے والے بک فیئر اور حرمین پویلین کے دورے کے موقع پر مسجد الحرام کے خطیب و امام اور جنرل پریزیڈنسی کے صدر ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس عام لوگوں سے ملاقات کی اور انہیں مساجد کے امور میں خواتین کو شامل کیے جانے اور ان کے کردار کے بارے میں بتایا۔ڈاکٹر السدیس کا مزید کہنا تھا کہ ’مملکت میں ہمارے پاس خواتین کیلئے ایک واضح راستہ موجود ہے اور اس کے ذریعے ہم نے ڈاکٹریٹ اور ماسٹرز ڈگری رکھنے والی بہنوں کو ایک موقع دیا ہے۔ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کے مطابق ’ہم سعودی ویڑن 2030 کے حوالے سے اپنی قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں تاکہ خواتین اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ خواتین نے زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں جن کو میڈیا میں اجاگر کیا جانا چاہیے۔‘ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کا مزید کہنا تھا کہ ’مملکت کی تشکیل میں خواتین نے تاریخی کردار ادا کیا، آج مملکت ویڑن 2030 کے لیے پوری طرح پرعزم ہے کہ خواتین کو اسلامی اقدار اور قومی شناخت کے مطابق خود مختار بنایا جائے۔‘ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ ذرائع ابلاغ کے مطابق اگست میں ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس نے ڈاکٹر النود البود اور ڈاکٹر فاطمہ الرشود کو اپنے آفس میں اسسٹنٹس کے طور پر تعینات کیا جبکہ ادارے کی دیگر اہم عہدوں پر بھی خواتین کو بھرتی کیا گیا۔ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کہتے ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ خواتین کو اسلامی احکامات اور اپنی قیادت کی جانب سے اختیار کیے جانے والے طریقہ کار کے مطابق ان کا جائز مقام دیں۔‘

سعودی عرب و دیگر اسلامی ممالک کی مساجد میں نمازیوں کے درمیان سماجی فاصلہ برقرار
وزارت اسلامی امور، دعوت و ارشاد نے تمام مساجد کی انتظامیہ کو نمازیوں کے درمیان سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارت نے کہا ہیکہ ’’صحت اداروں کی جانب سے نئی ہدایت ملنے پر سابقہ فیصلے پر نظر ثانی کی جائے گی۔ وزارت اسلامی امور نے بتایاکہ وزارت صحت کے تحت کورونا کے انسداد کے لئے کام کرنے والی کمیٹی کے ماہرین سے مشورہ کیا گیا تھا ۔ ملک میں کورونا کی صورتحال قابل میں آنے کے بعد کیامساجد میں نمازیوں کے درمیان سماجی فاصلہ کم کیا جاسکتا ہے۔ وزارت نے کہا کہ اس پر مذکورہ کمیٹی نے نمازیوں کے درمیان سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی تجویز دی ہے۔ اس تجویز کے بعد تمام مساجد کی انتظامیہ کو تاکید کی گئی ہیکہ تاحکم ثانی نمازیوں کے درمیان پہلے کی طرح فاصلہ برقرار رکھا جائے۔ علاوہ ازیں مساجد میں تمام حفاظتی تدابیر پر عمل جاری ہے تاکہ وبا پر قابل پایا جاسکے۔اس سے قبل بھی مساجد میں نمازیوں کے لئے دیگر اسلامی ممالک نے کورونا کے سخت قوانین کو مزید جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا اور مساجد کو نماز کیلئے آنے کی اجازت لینے کا لزروم رکھا تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ کورونا وبا کے بعد جس طرح حرمین شریفین میں عبادات کے لئے دنیا بھر سے آنے والے مسلمانوں پر پابندی عائد کردی گئی اور گذشتہ دو سال سے ماضی کی طرح بڑے پیمانے پر حج و عمرہ کا انتظام نہ کے برابر کردیا گیا ۔ سعودی عرب میں مقیم تارکین وطنوں کو ہی حج کی اجازت دی گئی تھی وہ بھی یہ اجازت سخت پابندیوں کے ساتھ چند ہزار عازمین کیلئے تھی۔ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کی جانب سے کورونا وبا کے بعد جس طرح مساجد کو بند کردیا گیا یا پھر پابندی اورسخت شرائط کے ساتھ چند افراد کو نماز کی اجازت دی گئی تھی اس کا اثر دنیا بھر میں رہنے والے کروڑوں مسلمانوں پر پڑا کیونکہ دنیا بھر کے ممالک نے بھی حرمین شریفین اور عالمِ اسلام کے ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے مساجد کو بند کردیا یا پھر مسلمانوں کو سخت شرائط کے ساتھ نماز پڑھنے کی اجازت دی ۔ الحمد ﷲ ہندوستان کی بیشتر مساجد میں سماجی فاصلہ کے بغیر پنجوقتہ نمازوں کا اہتمام کیا جارہا ہے اور جمعہ کا اہتمام بھی ماضی کی طرح کیا جارہا ہے۔ ہونا تو یوں چاہیے تھاکہ عالم عرب خصوصاً سعودی عرب میں حرمین شریفین میں سماجی فاصلہ کو برخواست کرتے ہوئے مسلمانوں کو بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوکر اس وبا سے چھٹکارہ پانے کی تلقین کی جانی چاہیے تھی۔

پاکستان کے نامور ایٹمی سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انتقال
پاکستان کو عالمی سطح پر طاقتور اسلامی ایٹمی ملک کی حیثیت سے روشناس کروانے والے پاکستانی سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا 10؍ اکٹوبر کو 85سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں بھی کورونا وبا کے شکار ہوگئے تھے۔انکی نماز جنازہ ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مسجد شاہ فیصل کے احاطہ میں ادا کی گئی اور وہیں متصل قبرستان میں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین عمل میں آئی۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے گہرے رنگ و غم کا اظہار کیا اور اپنے تمام کابینی ارکان کو ان کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کی ہدایت دی تھی۔ پاکستان نے یوم سیاہ منایا اور قومی پرچم نصب بلندی تک سرنِگوں کیاگیا تھا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ پاکستان کے جوہری پروگرام کی تخلیق میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔عبدالقدیر خان 27؍ اپریل 1936ء کو ہندوستانی شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد 1847ء میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگئے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے سلسلہ میں وہ یورپ گئے اور پندرہ سال تک وہیں قیام کیا۔1976ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان میں انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کی بنیاد رکھی۔جس کا نام ڈاکٹر خان سے منسوب کردیا گیا۔بتایا جاتا ہیکہ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان طویل عرصہ تک پاکستان کے جوہری پروگرام کے سربراہ رہے ہیں۔حکومت پاکستان نے انہیں نشانِ امتیاز اور بلال امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنرل پرویز مشرف نے انکے دورِ اقتدار میں اپنا مشیر نامزد کیا تھا۔تاہم اس دور میں انہو ں نے سرکاری ٹی وی پردیگر ممالک کو جوہری راز فروخت کرنے کے الزامات تسلیم کئے تھے۔ جس کے بعد 2004ء میں انہیں انکے گھر میں نظر بند کردیا گیا تھا، انکی یہ نظر بندی 2009ء میں ختم ہوئی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جوہری رازکے افشاں کا مسئلہ پاکستان کے لئے دردِ سر بنا ہوا تھا، شاید یہی وجہ ہوسکتی ہیکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جوہری راز فاش کرنے کا الزام قبول کیا۔ اس سلسلہ میں جب ان سے پوچھا گیا کہ ان پر جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے الزامات کیوں لگائے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ایک آدمی پر ڈال دیں تو ملک بچ جاتا ہے ، بات ملک پر سے ہٹ جاتی ہے‘‘۔ اس میں کتنی حقیقت ہے یہ تو وہ خود جانتے تھے۰۰۰
***

 

Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 358 Articles with 255818 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.