لکھیم پور کھیری تشدد معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ عدالت کو
اس پر سخت موقف اختیار کرنا پڑا اسی لیے بادلِ ناخواستہ کلیدی ملزم اور
مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا ٹینی کا بیٹا آشیش مشرا ساتویں دن
منہ پر رومال باندھ کر پیچھے کے دروازے سے کرائم برانچ میں حاضر ہو گیا۔ اس
کی حفاظت کے لیے پولیس تھانے میں سخت حفاظتی انتظامات کرکے چھاؤنی میں
تبدیل کر دیا گیا تھا ۔ ہر جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے چپے چپے پر پولیس اہلکار
تعینات کر دیئے گئے تھے۔ایسا کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اگر ایسا نہ
کیا جاتا تو اجے مشرا ٹینی کی گینگ کے لوگ اپنے چہیتے مونو بھیا کو چھڑا کر
لے جاتے۔ ان کی بڑی تعداد نےاپنی عقیدت کا اظہار کرنے کی خاطر بی جے پی کے
دفتر پر جمع ہوکر آشیش مشرا کے حق میں نعرے لگا ئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ
تو دنگل میں تھا جبکہ موقع واردات پر دہشتگرد تھے اس طرح کسانوں پر دہشت
گردی کا الزام لگادیا گیا ۔
اس موقع پر اپنے حامیوں کو سمجھانے بجھانے کی خاطر خود وزیر مملکت اجئے
مشرا کو جھروکے میں آکر کہنا پڑا کہ بیٹاتفتیش کی خاطر (کرائم برانچ) میں
گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہے اگر ہوئی تو ہم آپ کے
ساتھ ہیں ۔ یعنی وزیر موصوف اور پارٹی مظلوم کسانوں کی نہیں بلکہ ان کے
قاتلوں کی ہمنوا ہے۔ اپنا یہ کریہہ چہرہ چھپانے کی خاطرریاستی سرکار اب تک
تین مرتبہ انٹرنیٹ کی سہولت معطل کرچکی ہے۔8؍ اکتوبر سے قبل 5؍ اور 3؍
اکتوبر کو بھی یوگی سرکار نے ذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹنے کی مذموم حرکت
کرچکی ہے۔ یوگی اور اجئے کی حمایت آشیش مشرا کو جیل جانے سے نہیں بچا سکی
اور بالآخر اسے جیل کی ہوا کھانی ہی پڑی۔ آشیش اور اس کے والد کہہ رہے
ہیں کہ وہ جائے واردات پر موجود ہی نہیں تھا مگر اسے قتل، حادثے سے موت ،
مجرمانہ سازش اور لاپروائی سے گاڑی چلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔ یہ
الزام اس بات کی تردید کرتا کہ وہ جائے واردات کے بجائے دنگل میں تھا۔
آشیش کو گرفتار کرنے کی اصل وجہ عوام اور عدلیہ کا دباو ہے۔ اتر پردیش کی
یوگی پولس کا الزام ہے کہ آشیش تفتیش میں تعاون نہیں کررہا ہےاور کچھ
سوالات کے جواب نہیں دے سکا ہے اسی لیے اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے
کا فیصلہ کیا گیا۔
کرائم برانچ میں آشیش کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا گیا اس کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ طبی معائنہ کے لیے اس کو اسپتال لے جانے کے
بجائے ڈاکٹر کو اس کی خدمت میں حاضر کیا گیا ۔ تفتیش تو صرف 12 گھنٹے چلی
مگر اس دوران 14 مرتبہ چائے ناشتہ اندر گیا۔ اس دوران نہ صرف آشیش کا وکیل
اودھیش سنگھ بلکہ وزیر موصوف کا نمائندہ اروند سنگھ سنجے بھی غیر
جانبدارانہ تفتیش کی دھجیاں اڑانے کی خاطر وہاں موجود تھے۔ وہ لوگ کیا
کررہے تھے یہ جگ ظاہر ہے مگر اس کے باوجود آشیش کا جیل جانا اس بات کا
ثبوت ہے کہ دھاندلی کی جو حد ہوتی ہے وہ اس کے آگے جا چکا تھا۔ اس گرفتاری
میں اتنی تاخیر کی کئی وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ ایسے وزیر مملکت کا چشم و
چراغ ہے جو امورِ داخلہ کے لیے ذمہ دار ہے۔ دوسرے یہ معاملہ ایک ایسے صوبے
میں پیش آیا جہاں قانون کے بجائے جنگل کا راج ہے۔آشیش کی گرفتاری میں
تاخیرکی دوسری وجہ یہ تھی کہ اس دوران 10؍ حلف نامہ اور 13؍ویڈیوز جمع کرکے
اس کی مدد سے آشیش کی بچانے کی سعی کی گئی جو ناکام رہی ۔
لکھیم پور کےلوگوں کا کہنا ہے کہ کسانوں کو کچلنے والی گاڑی کے پیچھے والی
گاڑی میں وہ بذاتِ خود موجود تھا ۔ وزیر اور اس کے بیٹے نے اس حقیقت کا
انکار تو کیا مگر ثابت نہیں کرپایا۔ ایس آئی ٹی کے 6؍ افسران نے اس سے
موقع واردات کے دوران وہ کہاں تھا کی بابت 40 ؍سوالات پوچھے جن کا وہ
اطمینان بخش جواب نہیں دے سکا ۔ پولس ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ جیسے جیسے
وقت گزر رہا تھا اس کی سانسیں اٹک رہی ہیں ۔ اس کے چہرے پر خوف ظاہر ہورہا
تھا نیز شام 5 ؍بجے جب گرفتاری کے آثار روشن ہوگئے تو اس کے چہرے کی رنگت
بھی اڑ گئی ۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ ظالم وجابر کس قدر بزدل ہوتا ہے۔
ایک طرف تو وہ بے قصور کی جان لینے میں پس و پیش نہیں کرتے لیکن جب سارے
عیش و عشرت کے ساتھ جیل میں مختصر وقت گزارنے کی نوبت آتی ہے تو ان کی ہوا
نکل جاتی ہے۔ بی جے پی نے پہلے تو ایک ظالم کو بچانے کی حتی القدور کو شش
کی مگر جب اس میں ناکام رہی تو اب گرفتاری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی
لیکن اب بہت تاخیر ہوچکی ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل ان 15 ؍ سوالوں پر نظر ڈالنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ
جن کے سبب آشیش مشرا جیل کی چکی پیس رہا ہے۔
اس میں پہلا سوال یہ ہے کہ ’تشدد کے وقت تم کہاں تھے‘؟
جواب ملا ’دنگل میں‘۔
دوسرا سوال ’ بظاہر تم جائے واردات پر تھے تو تمہارے قافلے کتنی گاڑیاں
تھیں‘؟
’ میں دنگل میں ہی تھا ۔ نہیں پتہ قافلے میں کون کارکن تھے؟ ‘
’تمہاری گاڑی میں کون کون تھے‘؟
’ڈرائیور ہری اوم تھا ۔ اس کے ساتھ کون تھا نہیں معلوم‘۔
’جس گاڑی میں تم تھے وہ کس کی تھی‘؟
’ تھار میری تھی۔ میں اس میں نہیں تھا ۔ ایک بات کتنی بار پوچھیں گے‘؟ (یہ
بیزاری کا اظہار ہے)۔
اب پھر پوچھا گیا ’گاڑی میں تم کدھر بیٹھے تھے اور گاڑی کون چلا رہا تھا‘؟
’ مجھے نہیں معلوم ، میں نہیں تھا بس‘۔اب اگر وہ تھا ہی نہیں تو معلوم نہیں
کا کیا مطلب؟
اگلا سوال’ جب تمہاری گاڑی جائے واردات پر پہنچی تو مجمع کتنا تھا‘؟
’آپ لاکھ بار پوچھ لیجیےہم ایک ہی جواب دیں گےجائے واردات پر ہم موجود
نہیں تھے‘ ’وہاں کیا ہوا ‘۔’کچھ نہیں پتہ۔ معلومات بعد میں ملی‘۔
یہ جواب درست ہو تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسانوں کو کس بنیاد پر دہشت گرد
کہا جارہا ہے؟ یہ جوابات بی جے پی کی جانب سے پھیلائے جانے والے جھوٹ کہ
کسان نہیں فسادی تھےکی نفی کرتے ہیں ۔
اگلا سوال ’ بھیڑ سڑک پر کیا کررہی تھی کیا تمہاری گاڑی کو روک رہی تھی‘؟
’پتہ نہیں‘ ۔
’جب پہلا آدمی گاڑی سے ٹکرایا تو گاڑی کو کیوں نہیں روکا‘؟
میں ہوتا تو روکتا۔ جب تھا ہی نہیں تو کیسے روکتا۔ ڈرائیور نے ایسا کن
حالات میں کیا پتہ نہیں ۔
اب اگلا دلچسپ سوال دیکھیں کہ تمہارے پاس لائسنس والا اسلحہ ہے یا نہیں ؟
تمہارے ساتھ گاڑی میں کس کس کے پاس لائسنس والا ہتھیار تھا۔
اب جواب سنیے نہیں پتہ ؟ انسان کو یہ پتہ نہ ہو کہ اس کےپاس ہتھیار ہے یا
نہیں اور اس کا لائسنس ہے یا نہیں؟ کیا یہ قابلِ فہم ہے؟ شاید وکیلوں کو اس
سوال کی توقع نہیں تھی اس لیے اس کا جواب نہیں سجھایا اور ملزم لاجواب
ہوگیا۔
فائرنگ کی آواز گاڑیوں سے کیسے آرہی تھی؟
اس کا جواب :ہمیں نہیں معلوم ۔ بار بار ایک ہی سوال کیوں پوچھ رہے ہیں آپ
لوگ؟
جائے واردات کی ویڈیو زتمہاری موجودگی ثابت کرتی ہیں؟
وہ ویڈیو غلط ہیں میں جو ویڈیو دے رہا ہوں وہ درست ہے۔ میں وہاں نہیں تھا۔
تو سوال یہ ہے کہ ویڈیو کہاں سے آئی اور ایک غلط اور دوسرے کے درست ہونے
کی بنیاد کیا ہے؟
اب یہ سوال کہ اگر تم وہاں موجود نہیں تھے تو ایف آئی آر کے بعد روپوش
کیوں ہوگئے اور نوٹس کے بعد بھی کیوں نہیں حاضر ہوئے؟
میں دہلی میں تھا پہلا جھوٹ۔ دوسرا میڈیا سے رابطے میں تھا۔ تیسرا نوٹس کی
اطلاع تاخیر سے ملی۔ یعنی ساری دنیا کو اطلاع مل گئی ۔ چوتھا جھوٹ کہ طبیعت
ٹھیک نہیں تھی اس کی تردید سرکاری ڈاکٹر نے کردی ورنہ وہ جیل جانے کے بجائے
اسپتال جاتا۔
آخری تین سوالات نے آشیش کی جیل یاترا پر مہر لگا دی۔ تم کس بنیا دپر
دعویٰ کرتے ہو کہ جائے وارادات پر نہیں تھے؟
دنگل اور گاوں والوں کی ویڈیو اور حلف نامہ کی بنیاد پر ۔ آپ جانچ کرلیں
تو سچائی سامنے آجائے گی کہ میں گاوں میں تھا ۔
آخری مشکل سوال یہ تھا کہ تمہارے دعویٰ اور پیش کردہ ثبوتوں پر پولس کیوں
بھروسہ کرے؟ جبکہ تم نے اب تک کوئی تعاون ہی نہیں کیا ؟
اس سوال نے گویا گرفتاری طے کردی اب اس کا یہ جواب سامنے آیا کہ پولس نے
جیسے بلایا میں حاضر ہوگیا۔ یہ بات غلط اول 6 ؍ دن بعد بلایا گیا اور وہ
ساتویں دن حاضر ہوا۔ یہ بھی کہا گیا کہ جب بھی میرے تعاون کی ضرورت پڑے گی
تعاون کروں گا۔ قتل جیسے سنگین الزامات میں بھی اگر تعاون کی یقین دہانی پر
لوگوں کو چھوڑ دیا جائے تو جیل کا بوجھ بہت گھٹ جائے گا لیکن یہ سہولت صرف
وزیر کے بیٹے تک کیوں محدود ہو؟ جبکہ وہ خود کہہ رہا ہے کہ میں ایک رہنما
بیٹا اور تاجر ہوں یعنی شواہد کو مٹا سکتا ہے اس لیےضمانت بھی نہیں ہونی
چاہیے۔ آشیش نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ مجرم نہیں ہوں۔ اس کا فیصلہ تو
عدالت کرے گی ۔ وہ یا اس کے والد بلکہ وزیر اعلیٰ بھی نہیں کرسکتے۔ آشیش
مشرا نے اس سال دسہرہ تو جیل میں منایا بہت ممکن ہے کہ دیوالی اور آنے
والی کئی دیوالیاں جیل منائیں ویسے جس سفاکی مظاہرہ وہاں کیا گیا اس کے لیے
تو عمر قید کی سزا بھی کم ہی ہے۔ اس طرح کے مجرمین کو بھی اگر پھانسی نہیں
چڑھایا جاتا تب تو وہ سزا ہی ختم ہوجانی چاہیے لیکن چونکہ وہ مرکزی وزیر کا
بیٹا ہے اس لیے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|