کوٹ ڈیجی کا قلعہ

کوٹ ڈیجی کا قلعہ

پاکستان کی سرزمین قدرتی حسن سے تو مالا مال ہے ہی لیکن یہاں متعدد تاریخی مقامات بھی موجود ہیں جن میں قابل ذکر وہ حیرت انگیز قلعے بھی شامل ہیں جو مختلف بادشاہوں کےادوار میں تعمیر کیے گئے تھے۔شاہی قلعہ، لال قلعہ، رنی کوٹ، عمر کوٹ کا قلعہ ہو یا کوٹ ڈیجی کا قلعہ، قدیمی دور میں تعمیر ہونے والے تاریخی قلعے آج بھی کسی حد تک اپنی شان و شوکت کے ساتھ موجود ہیں اور اپنے ساتھ جڑی حکم رانوں کے جاہ و جلال کی داستانیں بیان کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان قدیم آثار میں ان کے ماضی کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ 5ہزار سالہ قدیم تہذیب کی حامل سندھ دھرتی پر بھی صدیوں پرانے 3بڑے قلعے موجودہیں، جن میں کو ٹ ڈیجی، رنی کوٹ اور عمر کوٹ کا قلعہ شامل ہیں۔ آج ہم آپ کو سندھ دھرتی پر واقع ایسے ہی ایک تاریخی قلعے کو ٹ ڈیجی کے حوالے سے بتارہے ہیں۔ قلعے کی سیر کرنے کے لیے آنے والوں کو یہاں کے مناظر آج بھی مبہوت کردیتے ہیں۔ یہ قلعہ اپنی بناوٹ، خوبصورتی اور ساحرانہ کشش کےباعث نہ صرف بر صغیر بلکہ دنیا بھر میں شہرت کا حامل ہے۔ کوٹ ڈیجی کا قلعہ 100 فٹ اونچی پہاڑی پربنا ہوا ہے اور بناوٹ میں اپنی مثال آپ ہے۔ کوٹ ڈیجی کےقلعے میں اس دور کے معماروں نے اپنی کاریگری کے ایسے نقوش ثبت کیے ہیں کہ دیکھنے والا ان کی ہنرمندی کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

مشرق کی جانب اس قلعہ میں داخل ہونے کا مرکزی دروازہ ہے جو اپنی بناوٹ کی وجہ سے قلعہ کے مکینوں کو بیرونی حملہ آوروں سے تحفظ فراہم کرتا تھا۔ یہ دروازہ جسے شاہی دروازے کا نام دیا گیا تھا،حقیقتاً اس دور کےانجینئروں کا باکمال شاہ کار ہے۔اس مقام کی مزید حفاظت کے لیے دو برج تعمیر کیے گئے تھے جو قلعے پر قبضہ کرنے کے لیے آنے والے لشکرکے لیے ٹریپ کا کام کرتے تھے۔ ان برجوں تک رسائی صرف مشرقی سمت سے ہی ممکن ہے جبکہ آہنی میخوں سے سجے لکڑی کے دروازے شمالی دیوار کے مغربی کونے میں موجود ہیں۔یہ آہنی میخیں قلعہ کے بہترین دفاعی نظام کا حصہ تھیں۔ ان کو اس طرح سے دروازوں میں پیوست کیا گیا تھا دشمن کے مسلح دستے یا ہاتھیوں کی فوج ان لکڑی کے دروازوں کو توڑ کر اندر داخل نہیں ہوسکتی تھی۔شاید یہی وجہ ہے کہ قلعہ کی پوری تاریخ میں اس پر کبھی حملہ نہیں ہوا۔کوٹ ڈیجی قلعے کی تعمیر چونے کے پتھروں اور مقامی ساختہ اینٹوں کی مدد سے ہوئی۔اس قلعے کی تعمیر میں چونے کے پتھروں اور مقامی طور سے بنائی گئی اینٹوں سے کام لیا گیا ہے۔جس پہاڑی پراسے تعمیر کیا گیا ،اس کی لمبائی ایک سو دس فٹ ہے جس کے اوپر قلعے کی دیواریں مزید تیس فٹ بلند ہیں، اس کے علاوہ یہاںفوجی نقطہ نظر سے تین ٹاور بھی بنائے گئے تھے، جن کی بلندی پچاس فٹ کے لگ بھگ ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ قلعہ جس دور میں تعمیر کیا گیاتھا اس وقت جنگ و جدل میں توپوں کا استعمال عام ہوگیا تھا۔ اس بات کا اندازہ اس کے ڈیزائن اور پوزیشن سے بھی لگایا جاسکتا ہے ۔یہاں توپوں کے لیے متعدد اسٹیشنز موجود ہیں اور چونکہ یہ عمارت ایک تنگ راستے پر بلندی پر واقع تھا اس لیے دشمن کی توپوں کو طویل فاصلے کے باعث زیادہ مدد نہیں ملتی ہوگی۔علاوہ ازیں شاہی دروازے سے داخلے کے علاوہ بھی اس میں تین چھوٹے خفیہ راستے موجود ہیں جو ہنگامی حالات میں استعمال کیے جاتے تھے۔شاہی دروازے سے گزرنے کے بعد چھوٹے نیم بیضوی کھلے حصے کے تینوں اطراف اونچی دیواریں ہیں جو کہ مرکزی قلعے تک چڑھائی کے ذریعے رسائی فراہم کرتی ہیں۔دوسرے دروازے سے گزرنے کے بعد ایک سرنگ نما راستہ آتا ہے جس سے گزر کر اوپر کی جانب تیسرے دروازے پر پہنچا جاتا ہے۔ قلعے کا مرکزی حصہ اس مقام کی عقبی سمت میں واقع ہے۔کوٹ ڈیجی کا قلعہ کی تعمیری منصوبہ بندی کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ یہ دفاع اور ضرورت پڑنے پر حملے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ اس کے برجوں پر گھر، ٹاورز، اسلحے کا ڈپو، پانی کا ذخیرہ، میروں کا حرم، ایک جیل، عدالتی احاطہ ،ر بیرکس، پہریداروں کی اقامت گاہیں بنائی گئی تھیں۔قلعہ کےچھ برج ہیں اور ان کی شناخت کے لیے دروازوں کی طرح انہیں بھی مختلف نام دیئے گئے ہیں جیسے ایک برج کوفتح ٹھل کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ تیسرے دروازے سے ملحق ہے ۔دیگر برجوں کو شفان شفاءاور ملک میدان برج کے نام دیئے گئے جو کہ مغربی سمت میں واقع ہیں۔دو توپیں شفان شفاء اور ملک میدان میں ایستادہ کی جاتی تھیں،۔شہید بادشاہ نامی برج قلعے کے شمال مغربی سمت میں واقع ہے۔ اس برج کے نشیب میں ایک حکم ران کا مقبرہ بنا ہوا ہے جو کسی جنگ میں مارا گیا تھا، جس کی مناسبت سے اس کا نام ’’شہید بادشاہ برج‘‘ رکھا گیا۔ایک اور برج جو مشرقی کونے کی جانب واقع ہے اور جس کارخ صحرا میں جیسلمیر کی جانب ہے، اسے جیسلمیر ٹھل کہا جاتا ہے۔ایک اور برج کا نام مریم ٹھل ہے جہاں مریم نامی توپ ہوتی تھی جسے اب خیرپور شہر میں قومی شاہراہ کی کراسنگ پر رکھا گیا ہے۔ ’’مریم توپ‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے پرتگال کے بحری جہازراں اپنے ساتھ لارہے تھےکہ ایک لڑائی میںپسپا ہوکر فرار ہوتے ہوئے اسے روہڑی کے قریب دریائے سندھ پر چھوڑ کر چلے گئے تھے، جسے بعد ازاں کوٹ ڈیجی قلعہ پہنچا دیا گیا تھا ۔یہاں ایک تالاب بھی ہے جو کہ پینے کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا، یہ تالاب 3.75 میٹر گہرا اور گیارہ میٹر لمبا ہے جبکہ اس کی چوڑائی سات میٹر سے کچھ کم ہے۔خیرپور سے 15میل جنوب کی طرف چار دیواری میں قائم قدیمی شہر کوٹ ڈیجی کے کھنڈرات بھی موجود ہیں جو کہ قلعہ کوٹ ڈیجی کے بالمقابل ہیں۔ قدیم کو ٹ ڈیجی میں چہار دیواری کے اندر ایک شہر آباد تھا، جہاں حکمران طبقہ رہا کرتا تھا جب کہ چہار دیواری سے باہر عام آبادی تھی۔ آج یہ 40فٹ اونچا ٹیلہ ہے جو مشرق سے مغرب تک00 فٹ لمبائی اور 400فٹ چوڑائی میں ہے۔ قدیمی کوٹ ڈیجی شہر کے آثار سے قطع نظر کوٹ ڈیجی قلعہ کے حوالے سے بات کی جائے تو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ میر فتح علی خان ، تالپورخاندان کی سندھ میںحکم رانی کا بانی تھا۔ اس خاندان نے سندھ میں 1784 ء سے 1843ء تک حکومت کی، اس نے اپنی حکومت کو بہتر طریقے سے چلانے کے لئےمقامی قبائلیوں کو ساتھ ملایا۔ انہوں نے سندھ کو 3مختلف حصوں میں تقسیم کیا، ہر حصہ کو تالپوروں کے خاندان کےکسی فرد کے ماتحت کیا، ان میں حیدرآباد خیرپور، میرپور خاص قابل ذکر ہیں۔ خیرپور کا حکمران میر سہراب خان تھا جس نے اپنا دارالخلافہ کوٹ ڈیجی کو بناکر یہاں 1803ء میں ایک قلعہ تعمیر کیا، جس میں 28 سال کا عرصہ لگا، اس قلعہ کا نام احمد آباد رکھا گیا، جبکہ یہاں ایک فارسی کتبہ بھی لگا ہوا ہے جس پر اس کا نام احمد آباد لکھا ہوا ہے، کتبے پرشعر کندہ کیا گیا ہے۔

تاریخی روایات کے مطابق یہ قلعہ احمد نامی ایرانی ماہر تعمیرات نے ڈیزائن کیاتھا۔ کوٹ ڈیجی کا قلعہ دریائے سندھ سے مشرق میں قومی شاہراہ پر 40کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، خیرپور سے اس قلعہ کا فاصلہ 25کلو میٹر ہے۔ اس کی دیواریں 2265 گز جبکہ قلعہ کی مکمل عمارت 94000 مربع گز پر مشتمل ہے، قدیم آثار کے ماہرین کے مطابق قدیمی کوٹ ڈیجی شہر کی کھدائی میں آبادی کی کل 16پرتیں ملی ہیں۔سب سے اوپر کی 3پرتیں وادی سندھ کی نمائندہ ہیں، جب کہ سطح 4 سے لے کر 16تک جو سب سے نیچے ہیں، اس میں سندھ کی تہذیب سے پہلے کے آثار ملے ہیں۔ کوٹ ڈیجی قلعے کے حوالے سے تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس قلعے میں طویل عرصے تک انتہائی منظم پیمانے پر تعمیر کیا ہوا شہر آباد رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کے وجود میں آنے سے صدیوں پہلے نہایت دولت مند اور ترقی یافتہ لوگ یہاں رہتے تھے۔ ان کے مکانات کی بنیادیں پتھر کی اور دیواریں کچی اینٹوں سے تعمیر کی گئی تھیں،۔برتن چاک پر بنتے تھے، ان کے اوزار نہایت ترقی یافتہ تھے، جن میں نیزوں کی انیاں، برچھے، چھوٹے استرے اور کھرچنے وغیرہ شامل ہیں۔ قدیم آثار سے ایک بیل کی سفالی مورتی بھی ملی ہے۔ اس قلعے کے لوگ طویل عرصے قلعہ پر قابض رہے ہیں، یعنی لگ بھگ 700 سال، کیوں کہ اس جگہ عمارتی ملبے کی 13سطحیں ملی ہیں۔ جن میں سے کم از کم 11یا 12مرتبہ آبادی رہی ہے۔ شہر کا وہ حصہ جو قلعے سے باہر ہے اس میں 5مرتبہ آبادی رہی ہے۔ اس قلعے کی دیوار پرحفاظتی برج بھی ہیں، اس کی بنیاد میں پتھر اور اوپر کی چنائی میں کچی اینٹیں استعمال ہوئی ہیں۔ اس قلعے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ بیرون شہر سے آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کوٹ ڈیجی قلعہ دیکھنے کے لیے یہاں کا رخ کرتی ہے۔سکھر سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں رہنے والے لوگوں کی بڑی تعداد بھی عام تعطیلات یا تہواروں کے دنوں میںیہاں پہنچ کر سیر و تفریح کرتی ہے۔ملکی و غیر ملکی سیاح جوسکھر کی سیر کو آتے ہیں، کوٹ ڈیجی قلعہ ضرور دیکھنے جاتے ہیں۔ قدیمی شہر کوٹ ڈیجی کے آثار کا ذکر کیا جائے تو یہ قومی شاہراہ کے کنارے خیرپور شہر سے جنوب کی طرف پندرہ میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ ایک چٹان پر واقع شرقاً غرباً 600 فٹ لمبی اور شمالاً جنوباً 400 فٹ چوڑی ڈھیری ہے جو ارد گرد کی زمین سے 40فٹ اونچی ہے۔تاریخ کے اوراق کے مطابق کوٹ دیجی کی ثقافت کا زمانہ 3155 ق م سے لے کر 2590 ق م کا زمانہ ہے، یہ قلعے کے اندرونی شہر کا زمانہ ہے، قلعے کے باہر جو شہر ہے اس کی سب سے قدیم آبادی 2805 ق م سے لے کر 2885 ق م تک رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس مدفون شہر کے دو حصے ہیں، ایک حصہ قلعہ کے اندر ہے، جس میںحکم راں طبقے کی رہائش رہی ہوگی، دوسرا حصہ قلعہ کے باہر ہے جس میں دست کار اور ہنرمندلوگ رہتے تھے، جوحکم رانوں کے نزدیک غلاموں کا درجہ رکھتے تھے۔ تیسری سطح کے نیچے اور چوتھی سطح کے اوپر یعنی وادی سندھ کی تہذیب کے آنے اور اس سے پہلے زمانے کے درمیان شدید آتش زنی کے آثارپائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی قدیم اور جدید مادی ثقافت میں زبر دست فرق ہے۔ماہرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ نئے آنے والوں نے قدیم شہر کو جلا دیا ہوگا، اس کے ثبوت میں مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پہلے لوگ باریک دیوار کے نفیس برتن بناتے تھے جب کہ نئے لوگ موٹی دیوار کے برتن بناتے تھے۔ پرانے دور میں کم جگہ میں زیادہ برتن اور نہایت عمدہ معیار کے ملے ہیں۔ جس کا مطلب کہ وہ بہت زیادہ امیر لوگ تھے اور ان کی صنعت و حرفت بہت ترقی یافتہ تھی۔ ایک اور دلچسپ بات جو معلوم ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ قدیم دور میں سب سے نچلی سطح 16 سے سطح 4 تک بار بار راکھ اور جلی ہوئی لکڑی کے کوئلے کی سطحیں ملتی ہیں۔قدیم ترین شہر کوٹ ڈیجی کے آثار کو وقت کے بے رحم لمحے اجاڑتے جارہے ہیں، جب کہ اس عظیم الشان قلعہ کے در و دیواربھی حکومت کی عدم توجہی کے سبب خستہ حالی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اگر حکومت نے اس تاریخی ورثے پر جلد توجہ نہ دی تو خدشہ ہے کہ سندھ میں واقع قدیم ترین تہذیبوں کے یہ آثار تاریخ کی گرد میں کہیں گم ہوجائیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس جانب خصوصی توجہ دے کرکوٹ ڈیجی کے قلعہ سمیت تمام قدیمی آثار کو محفوظ بنائے۔ ان کی تزئین و آرائش و مرمت کا کام ہنگامی بنیادوں پر کرانا چاہیے ۔ یہاں سیر و تفریح کے لئے آنے والوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں تو کوئی شک نہیں کہ سندھ کے یہ آثار جو کہ دنیا بھر کے سیاحوں میں بے حد مقبول ہیں،ان کی کشش سیاحوں کویہاں کھینچ کر لائے گی جس سے حکومت کو ریونیو کی مد میں خاطر خواہ آمدنی ہوگی۔

 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 190557 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.