انوکھی راہوں کے تنہا مسافر

 پچھلے کئی دنوں سے تحریک لبّیک اور حکومتی فورسز کے درمیان جاری تناؤ, کش مکش, کھینچا تانی نے اب ایک خطرناک صورت اختیار کر لی ہے, ملک کے دو بڑے شہروں لاہور اور راولپنڈی کا بذریعہ جی ٹی روڈ رابطہ منقطع ہے, جب کہ جہازی سائزکنٹینرز, ٹرالر, کئی فٹ چوڑی اور گہری خندقوں, کنکریٹ کے مضبوط بلاکس سے بنی مضبوط قلعہ نما دیواروں نے جرنیلی روڈ پر اب ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ لاہور سے گوجرانوالہ تک کے سفر میں اب تک دونوں اطراف سے سینکڑوں زخمیوں اور درجنوں ہلاکتوں کی خبریں موجود ہیں, جب کہ طرفین کی نادانی,الہڑاپے اور خام کاری سے مزید جانی نقصان کا اندیشہ بڑھ چکا ہے۔

اس دھینگا مشتی اور دراز دستی نے جہاں ملک بھر میں ایک ہیجان اور اضطراب برپا کر دیا ہے, وہیں دونوں بڑے شہروں کے درمیانی علاقے میں پہلے سے ہی لٹی پٹی عوام کا امن و سکون اور معمولات زندگی کا سوا ستیاناس کر کے رکھ دیا ہے, پچھلے کئی دنوں سے پٹرول اور دوسری ضروریات زندگی کی اشیاء کی بروقت سپلائیز نہ ہونے کی وجہ سے عام عوام کو جو خفت اور کلفت اٹھانا پڑ رہی ہے, اور جس کرب سے گزرنا پڑ رہا ہے اس کا یہ دونوں فریقین شاید ادراک تک بھی کرنے سے قاصر ہیں, جب کہ مزید کچھ دن اگر یہی صورت حال رہی تو بلاشبہ عام گھریلو ضروریات زندگی, خوراک اور ادویات کی قلت سمیت بدنظمی, افراتفری اور چھینا چھپٹی کا ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔ ادھر مزدور اور دیہاڑی دار طبقے کے لیے تو مہنگائی کے عذاب کے بعد اب یہ ایک نیا المیہ پیدا ہو گیا ہے کہ تجارتی رسد, متفرق راء میٹیریلز اور لوکل ٹرانسپورٹ کی بندش نے اسے گھر بیٹھنے پر مجبور کر دیا اب یہاں اس ذکر کی ضرورت نہیں کہ ایک مزدور کے گھر بیٹھنے سے اس پر اور اس کے بال بچوں پر کیا کیفیت گزرتی ہے۔ ادھر ان علاقوں میں پچھلے کئی دنوں سے موبائل اور انٹرنیٹ کی معطلی نے الگ سے نظام زندگی میں رخنہ اور خلل ڈال کر یہاں کے باسیوں کی زندگی الگ سے اجیرن کر رکھی ہے۔

یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی لپھڑے یا تنازعے کا آخری اور مستقل حل مفاہمت اور موافقت ہی ہوا کرتا ہے, اور بلاشبہ خیر اور بھلائی کی ہر ایک کرن بات چیت اور اتفاق رائے کے چراغوں سے ہی پھوٹتی ہے, تو پھر حکومتی مسندوں پر براجمان ان ناعاقبت اندیش اور کوتاہ بین فرمانرواؤں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ کئی دن اور کئی راتوں سے سڑکوں اور شاہراؤں کی دھول مٹی پھانکنے والے مظاہرین کو بزور طاقت اور جبر و تعدی سے یکلخت کیسے ہٹایا جا سکتا ہے؟ اور پھر ایک ایسے وقت میں جب وہ دین پرستی کا زعم لیے خود ہی سر پر کفن باندھ کر نکلے ہوں تو کیا مذہبی وعظ اور دھرم یُدھ کے طوفان باد و باراں اور طغیانی کے سامنے ایک مذہبی ریاست کی سرکاری مشینری کا بند باندھا جا سکتا ہے؟ یقیناً ایسا ممکن نہیں, اور اگر اس جلالی کیفیت کا کوئی نتیجہ نکل بھی آئے اور سرکار اپنی طاقت اور اسباب کے سبب غالب آ بھی جائے تو بلاشبہ یہ قومی و ملی وجود پر دورس نتائج چھوڑتا ہے, اور بلاشبہ ہم بحیثیت قوم ان راہوں کی اذیتوں اور کربناکیوں کو پہلے ہی جھیل چکے ہیں یا ابھی تک سہہ رہے ہیں۔ وزرائے سلطنت اور اعیانِ حکومت یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ وہ پہلے ہی اپنی متنازعہ پرفارمنس اور کارکردگی کی تشنہ کامی کے باعث نہ صرف اکیلے ہیں بلکہ اپنی شعلہ مزاجی اور ترش روئی کے سبب سیاسی و انتظامی سطح پر بھی کسی مربی و خیر خواہ سے محروم ہو چکے ہیں, ایسے میں ایسی انجان اور بے اعتدال راہوں پر چلنا اور پہلے سے ہی دکھتی رگوں سے کھلواڑ کھیلنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

ادھر دوسری طرف دینی غیرت و حمیت کا علم اٹھائے ہمارے کوتاہ اندیش لبیکی مجاہدین سے بھی گزارش ہے کہ خدارا ناموس رسالتﷺ کی حفاظت تمام اہلیان اسلام کا مشترکہ مشن اور مقصد ہے, اور بلاشبہ اس کے لیے ایک مسلمان کا تن من دھن سب کچھ قربان ہے, اوروقت پڑنے پر حرمت رسولﷺ پر کٹ مرنے والے چند ہزار یا لاکھ نہیں بلکہ کروڑوں اور اربوں کی تعداد میں ہوں گے, ان شاء اللہ۔ لیکن خدارا اس لفظ اور اس موضوع کو ایک ایسی پراڈکٹ مت بنائیں جو صرف کسی ایک کمپنی یا کسی ایک مذہبی ادارے کی ملکیت ہو کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے جیسے چاہے اپنی ذہنی استعداد کے مطابق اس کا استعمال کر لے, اور اس کے معیار و خد و خال کو اپنی تعبیر کے سانچوں میں ڈھال کر اپنی اور دوسرے مسلمانوں کی زندگیاں خطروں ڈال دے۔

بلاشبہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور توہین رسالتﷺ کا معاملہ ایک مسلمان کے لیے اپنے جسم و جاں سے بڑھ کر ہے, اور ایسے توہین آمیز افعال کے مرتکب ہونے والوں کے لیے کوئی لچک, نرمی, گنجائش رعایت یا کسی بھی طرح کا تعلق اور روابط رکھنا ایک مسلمان کے قطعاً شایان شان نہیں, لیکن بخدا اس معاملے کی نزاکت اور حساسیت سے پہلو تہی بھی ایک زہرِ قاتل ہے, اور فساد فی الارض کے مترادف ہے۔ کیونکہ دشمن ہمیشہ ایسے دقیق اور پیچیدہ معاملات کی آڑ میں اپنا تیز دھار خنجر چپکے سے مسلمانوں کے میان میں اڑیس کر خود پیچھے ہٹ کر تماشا دیکھتا ہے, اور ناموس رسالتﷺ پر مر مٹنے کے جذبات کا طلاطم لیے بھولا بھالا مسلمان اس سے اپنی اجتماعیت اور وحدت کو پارہ پارہ کر بیٹھتا ہے۔ بدقسمتی سے اسلامی تاریخ ایسے سانحات و واقعات سے بھری پڑی ہے۔

اگر موجودہ حالات اور خاص کر تحریک لبیک کے مطالبات میں سب سے اہم فرانسیسی سفیر کو نکالنے والے معاملے کا بالغ نظری سے جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کے اظہار میں کوئی امر مانع نہیں کہ یہاں بھی کہیں نہ کہیں ملک دشمن عناصر سیدھے سادھے مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کر کے ناپاک اور بہیمانہ ارادوں کی تکمیل چاہتے ہیں, کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حکومت کسی طور ایسے مطالبات ماننے کی پوزیشن میں نہیں, اور نہ ہی اس طرح کان سے پکڑ کر کسی سفیر کو ملک بدر اور سفارت خانے کو تالا لگانا ممکن ہے۔ کیونکہ فرانس میں موجود لاکھوں پاکستانی فیملیز کے ڈاکومنٹس اور ویزوں کے مسائل یکلخت جنم لے سکتے ہیں اور پھر یہ فیصلہ صرف فرانس سے ہی سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر منتج نہیں ہو گا, بلکہ یہ سلسلہ یورپی یونین سمیت دوسرے بہت سارے ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی گہرا اثرانداز ہو گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک دشمن قوتوں اور شیطانی عناصر کو اس ذمہ دار ایٹمی ریاست کے خلاف بدرنگی کی سر اٹھانے کا ایک ایسا موقع میسر آ گیا ہے, جسے وہ کسی صورت گنوانا نہیں چاھیں گے۔

ویسے بھی اگر سیدھے سادھے انداز میں اس معاملے کا جائزہ لیا جائے تو ہماری اسلامی تعلیمات اور خود نبی کریمﷺ کے افعال بھی اس کی وضاحت کے لیے کافی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مدنی دور میں کفار مکہ کی ہر طرح کی شرانگیزی اور توہین آمیز رویے کے باوجود ان سے سفارتی تعلقات مکمل منقطع نہیں فرمائے۔ خلفائے راشدین کے دور میں ایران اور روم کے ساتھ جنگیں بھی ہوتی رہیں مگر سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع نہیں ہوئے۔ صلاح الدین ایوبی جیسی جری مجاہد نے بھی بیت المقدس پر حملہ آور صلیبیوں کے ساتھ مذاکرت کا دروازہ بند نہیں کیا تھا, اور بالآخر ان سے امن معائدہ کیا۔
ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام ارباب بست و کشاد اور لبیکی اکابرین سے دست بستہ عرضداشت ہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں, اور ایسی راہوں کا انتخاب مت کریں جن پر آپ اپنی اپنی سمت میں بظاہر اکیلے چل رہے ہیں, لیکن بلاشبہ ان راہوں کی تاریکیوں میں ہم سارے ہی مارے جائیں گے۔ اور پھر ہماری پہچان ہمارے اجتماعی وجود سے ہو گی, جس کے ماتھے پر پہلے ہی لفظ "انتہا پسند " کند ہو چکا۔
 

Tahir Ayub Janjua
About the Author: Tahir Ayub Janjua Read More Articles by Tahir Ayub Janjua: 5 Articles with 3559 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.