صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

یوں تو ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر صحابی اپنی ذات میں انجمن، آسمان ہدایت کا درخشاں ستارہ، ادخلو فی السلم کافة پر عمل کا مجسم نمونہ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اک اک ادا پر سب کچھ کر گزرنے پر تیار، جانثار اور رب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارۂ ابرو پر قربان نظر آتا ہے مگر جنت کے حقیقی حقدار اور کل وعد اللہ الحسنیٰ کے حامل ان رجال اللہ میں بھی مختلف درجات اور طبقے افضلیت کے نظرآتے ہیں۔ ان کواکب ہدایت میں جن کی تعداد سوا لاکھ کے قریب تھی، ایک اعلیٰ و ارفع شان حضرات مہاجرین و انصار کی نظر آتی ہے۔ پھر ان میں فضیلت کے اعلیٰ منابر پر ہمیں اصحاب صلح حدیبیہ متمکن نظر آتے ہیں جن میں بعض نجوم ہدایت کی لمعانیت اوروں سے دوچند ہے۔ یہ ہیں غزوہ بدر میں دشمن کے خلاف صف آراء حضرات۔ پھر ان تین سو تیرہ مجاہدین و مبلغین میں ہمیں چار ستارے اپنی بے مثل و مثال روشنی سے چہار دانگ عالم کو منور کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہیں خلفائے راشدین علیہم الرضوان، جن کی سنت کی اتباع صاحب شریعت رسول طریقت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح لازم قرار دی جس طرح اپنی سنت کی اتباع۔

پھر ان چار چمکتے دمکتے ہیروں میں بھی ایک ہیرہ رشک شمس و قمر، لیل و نہار اور فخر زمین و آسماں نظر آتا ہے۔ جسے دنیا حضرت سیدنا عبداللہ ابوبکر بن ابو قحافہ عامر بن عمرو بن کعب بن تیم التیمی القریشی المکی رضی اللہ عنہ کے نام نامی اسم گرامی سے جانتی ہے۔یہ وہ عظیم شخصیت ہے جس نے اللہ کے پاک پیغمبر کی مصاحبت اور آپ کے ساتھ تعاون اس وقت شروع کیا جبکہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت بھی نہ فرمایا تھا۔ وہ عظیم الخلائق بندۂ خدا جسے رب کعبہ نے زمانہ جاہلیت میں بھی ہربرائی سے پاک رکھا، نہ کبھی آپ نے شراب پی، نہ بت پرستی کی بلکہ ایسی خرافات کے قریب بھی نہ گئے۔آپ کی وہ آزمائشیں ہوئیں جن سے دوسرے صحابہ محفوظ رہے۔ آپ نے وہ قربانیاں پیش کیں جو آپ ہی کا خاصہ تھیں۔ جرأت اور بے جگری کا وہ عالم کہ قبول اسلام کے بعد ہی گھر کے آگے مسجد تعمیر فرما کر مصروف عبادت و ریاضت، دعوت و تبلیغ نظر آتے ہیں کوئی پروا نہیں کہ ہر طرف سے ناپسندیدگی کے مظاہرے ہو رہے ہیں،اپنے بھی خفا ہیں اور پرائے بھی ناخوش، محبتیں عداوت کی شکل اختیار کر رہی ہیں، چچا کمرے میں محبوس کرکے مار رہے ہیں، ہر خطرے سے بے خطر اور ہر خوف سے بے خوف دیوانہ وار سفر و حضر میں، عسرو یسر میں، جنگ وامن میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔ اس طلب، تڑپ اور اخلاص سے وعظ و تبلیغ فرما رہے ہیں کہ عشرہ مبشرہ میں سے پانچ عظیم المرتبت صحابہ جو مکہ کے پانچ ذی اثر و وقار قبائل کے چشم و چراغ ہیں، مشرف با سلام ہو رہے ہیں۔ حضرت شہید مظلوم امیر المومنین عثمان بن عفان، حضرت سیدنا طلحہ، حضرت سیدنا زبیر، فاتح شام و ایران وقبرص سیدنا سعد بن ابی وقاص اور حضرت سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین۔

اسلام پر سب کچھ لٹانے کا وہ عالم ہے کہ مال تجارت کے علاوہ قبول اسلام کے وقت چالیس ہزار کی نقد رقم کے مالک ہیں،کئی ریشم کی دکانیں ہیں مگر سب کا سب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب فرمان رب رحمان کے بینک میں جہاد کے دفاعی فنڈ کی مد میں جمع کرا رہے ہیں جس کا وہ ثمرہ ملنے والا ہے کہ روز محشر رب کعبہ فرمائیں گے:
''ابوبکر !تجھ سے حساب لینانہیں ، بلکہ تجھے تو میں نے بدلہ دینا ہے''

پیارے آقامدنی ۖ نے بھی ایک حدیث میں اس حقیقت کوواضح فرمایاہے کہ میں نے ہراحسان کرنے والے کابدلہ دے دیا،سوائے صدیق اکبر کے ،کہ ان کابدلہ اللہ تعالیٰ ہی روزمحشر عطافرمائیں گے۔

اسلام کی پاداش میں ظالم آقا غلاموں پر جینا دو بھر کیے ہوئے ہیں، صدیق سے رہا نہیں جاتا ،چنانچہ خطیر رقم صرف کرکے درجنوں غلاموں کی قید غلامی توڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر بوڑھا باپ اعتراض کرتا ہے، ابوبکر دربار نبوت میں انصار کا طالب ہے۔ مگر ابھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان رسالت پناہ سے کوئی کلمہ نہیں نکلا کہ عرشی تڑپ جاتے ہیں اور رب ذوالجلال دفاع صدیق میں قرآن اتار دیتے ہیں۔

جنگ خندق جیسی عسرت کا موقع ہے۔ حضور صحابہ سے جہادی فنڈ جمع فرما رہے ہیں، کوئی ثمن،کوئی ثلث، کوئی سدس لا رہا ہے۔ فاروق اعظم نے سوچا میرے پاس مال ہے کیوں نہ خطیر رقم دے کر صدیق سے آگے بڑھ جاؤں، چنانچہ نصف لا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں رکھ دیا۔ حضور کی نگاہیں صدیق کی متلاشی ہیں، سب سے آگے رہنے والے نے آج دیر کیوں کر دی، اتنے میں صدیق آتے دکھائی دیتے ہیں، قلیل مال کے ساتھ۔۔۔۔ فاروق اعظم کے دل میں خوشی میں لڈو پھوٹ رہے ہیں، زبان نبوت سوال کرتی ہے گھر میں کیا رکھ آئے ہو اور صدیق اکبر وہ جواب دیتے ہیں کہ شاعر مشرق علامہ شیخ محمد اقبال فرماتے ہیں۔
پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

شجاعت اور بے جگری کا وہ عالم ہے کہ حضرت اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں: ہم سب میں سے بہادر ترین شخص صدیق اکبر ہے۔ ہر غزوے میں حاضر اور ائمہ کفر کیلئے صائقہ آسمانی بن کر ان کے پرغرور و نخوت سروں کو زمیں بوس کرکے اسلام کو شان و شوکت بخشنے والے صدیق اکبر بلاشبہ سب سے بڑے فہیم و معاملہ فہم جرنیل اور نڈر دلیر سپہ سالار ہیں۔ طبیعت میں فطری نرمی ہے مگر خدا کے دشمنوں کے حق میں قطعاً نرمی کے قائل نہیں۔ مرتدین و منکرین جہاد کے فتنہ کو اس تدبر اور فراست ایمانی سے حل کرتے اور جھوٹے مدعیان نبوت کو وہ عبرت آموز مزا چکھاتے ہیں کہ پھر پورے ڈھائی سالہ دور خلافت میں کسی سر پھرے من چلے شیطان صفت انسان کی ایسی جرأت نہیں ہوتی۔ آپ کی فراست مومنانہ پر دنیا ششدر رہ جاتی ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سانحہ وفات سے صحابہ کرام پر قیامت کبریٰ ٹوٹ پڑی ہے، سب حیران و پریشان، مبتلائے ہیجان اور انگشت بدنداں ہیں۔ عقل و خرد نے ساتھ چھوڑ دیا ہے کیونکہ نہ ہو کہ آج ان کا روحانی باپ جس نے انہیں تنزل سے ترقی، جہنم سے جنت، ناکامی سے کامیابی اور خسران سے منفعت کی راہ پر گامزن کیا، ان سے منہ پھیر کر رفیق اعلیٰ سے جا ملا ہے۔ مگر صدیق اکبر کو اللہ نے عجیب حوصلہ دے رکھا ہے وہ جو سب سے زیادہ رقیق القلب ہے، آج استقامت و عزیمت کا پہاڑ بنا کھڑا ہے، کیونکہ نہ ہو کہ خدا نے اس سے بڑا کام لینا ہے۔ چنانچہ حجرہ اقدس میں قدم رنجہ فرما کر جبین نبوی کو بوسہ دیتے ہیں اور سوز جگر سے برملا زبان مبارک پر یہ کلمات جاری ہوتے ہیں
''وانبیاہ واخلیلاہ واصفیاہ''(اے نبی،اے خلیل،اے اللہ کے چنے ہوئے رسول ۖ)

پھر مجمعہ مسلمین میں آکر وہ خطبہ پردرد ارشاد فرماتے ہیں جو ٹوٹی ہمتوں کو حیات نو بخشتا ہے اور صحابہ کرام غلبہ اسلام کے عظیم کام میں دوبارہ منہمک ہو جاتے ہیں۔خلافت کے مسئلے پر سقیفہ بنو ساعدہ کا قضیہ فتنے کی شکل اختیار کرنے والا ہے مگر ف اکبر اپنے رفیق فاروق اعظم کے ساتھ مجمعہ میں تشریف لا کر وہ کلمات طیبات ارشاد فرماتے ہیں کہ مہاجرین و انصار یک قلب و یک زبان ہو کر آپ کے دست حق پرست پربیعت خلافت کا آغاز فرما دیتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی بنفس نفیس فرزندان و اہل قرابت کو لے کر آپ کے دست مبارک پر اپنا ہاتھ رکھ دیتے ہیں، تاکہ خلافت کو وراثت قرار دے کر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکے۔ پوچھنے والے پوچھتے ہیں:
''حق آپ کا تھا، یہ آپ نے کیا کیا؟''

قربان جائیے داماد رسول صلی اللہ علیہ وسلم عم زاد محمد ۖحضرت علی رضی اللہ عنہ پر، کہ وہ کفر شکن جواب دیا جس نے اس وقت کے مفسدین کو تو خاموش کر ہی دیا، اب بھی سواچودہ صدیاں بیتنے کے باوجود حضرت علی کو خلیفہ بلافصل کہہ کر خلفائے ثلاثہ کا انکار کرنے والوں کا منہ بھی بند کر دیا۔فرمایا:
''میں اس ابوبکر کی بیعت کیوں نہ کروں جسے مرض الوفات میں میری موجودگی کے باوجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام نماز ہی نہ بنایا بلکہ مجھے اور چچا عباس رضی اللہ عنہ کو ان کی اقتدا کا حکم بھی دیا۔''
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307905 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More