غروبِ آفتاب

چوبیس مئی ۱۱۰۲ کو آفتاب احمد خان نے سیالکوٹ میں آنکھیں بند کرلیں۔وہ آئیوی آرٹ کلب، فیصل آباد کے جنرل سیکریٹری تھے۔مذکورہ ادارہ، فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ادیب جاوید اقبال اور ان کے احباب نے قائم کیا تھا۔ غیر منقسم ہندوستان کے فلمی نگار خانوں اور مشہور فلمی شخصیات کے بارے میں جتنا آفتاب احمد خان جانتے تھے، شاید ہی کوئی اور جانتا ہو۔ راقم کے علم میں ان کی واحد تحریر جو ایک حیرت انگیز طور پر معلوماتی تحریر کہلائے جانے کے قابل ہے، کتاب ملاقاتوں کے بعد کے دیباچے کے طور پر لکھی گئی اور جو ہندوستانی فلمی صنعت کے سرکردہ افراد کی زندگیوں کے مختلف النوع دلچسپ گوشوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ ملاقاتوں کے بعد کے مصنف جاوید اقبال موجودہ صدی کے پہلے عشرے کے وسط میں فیصل آباد سے بمبئی پہنچے تھے اور یوں اکتوبر ۶۰۰۲ میں ہندوستانی فلمی صنعت سے وابستہ تخلیق کاروں سے انٹرویوز پر مبنی کتاب ملاقاتوں کے بعد منظر عام پر آئی۔ یہ وہ کام تھا جو فیصل آباد جیسے صنعتی شہر میں رہائش پذیر ایک شخص کے ہاتھوں سرانجام پایا ۔ مذکورہ کتاب میں موسیقار اظم نوشاد، خیام ، جگجیت کور، شیام بینیگل، اشوک کمار، نقش لائل پوری، افتخار امام صدیقی، سیما سہگل ،ندا فاضلی اور نصیر الدین شاہ کے انٹریوز شامل ہیں۔ جاوید اقبال صاحب کے مطابق کتاب میں شامل نوشاد اور اشوک کمار کے انٹرویز ، دونوں حضرات کے آخری طویل انٹرویوز قرار پائے۔

آفتاب احمد خان کے بارے میں زیر نظر مضمون جناب جاوید اقبال کی تازہ تحریر ہے جس سے خان صاحب کی ہفت پہلو شخصیت پڑھنے والے پر آشکار ہوتی ہے۔ مضمون کی فراہمی پر راقم الحروف، جاوید صاحب کا ممنون ہے ۔

یوں تو خان صاحب سے متلعق اس مضمون میں دلچسپ واقعات کی بھرمار ہے لیکن یہاں خصوصیت سے ایک واقعے کا ذکر لازمی ٹھہرا:

بچپن کے ایک اور واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے تھے۔سکول کے زمانہ ان کے ایک ہندو استاد چرن داس ہوا کرتے تھے۔ کسی بات پہ ایک دن ماسٹر صاحب نے میری پٹائی کردی اس قدر ڈنڈے مارے کہ میری قوت برداشت ختم ہوگئی۔مجھے پتا نہیں کیا ہوگیا۔ میں نے شدید تکلیف کے عالم میں ماسٹر صاحب سے ڈنڈا چھینا ۔ جواباً ان کے جسم پر دو تین ڈنڈے برسا ئے اور پھر خوف کے عالم میں وہاں سے بھاگ گیا۔ جماعت کے لڑکے میرے پیچھے بھاگے لیکن میں صحت کے لحاظ سے بہتر تھا ۔ ویسے بھی جان بچانے والے کو ایسی حالت میں ایک اضافی طاقت عطاہو جاتی ہے۔ بھاگتا بھاگتا اُن کی حدود سے باہر آگیا۔ میں ڈر کے مارے گھر بھی نہیں گیا کیوں کہ ماسٹر صاحب ہمارے قریب ہی رہتے تھے۔ اُن کی شکایت پر میرے ساتھ جوسلوک ہونا تھا،مجھے اُس کا اندازہ تھا۔ بغیر ٹکٹ کے سیدھا جالندھر اپنے دودھیال پہنچ گیا۔ وہاں سے میں نے اطلاع بھجوادی کہ آپ چاہے مجھے جان سے ماردیں ۔ میں نے اب اُس سکول میں نہیں پڑھنا۔میں جالندھر میں پڑھنے لگا۔ چھ ماہ بعد گھر جانے کو دل بے تاب ہوگیا۔ٹرین میں بیٹھ کر اپنے شہر آگیا ۔ اسٹیشن سے پیدل ہی گھر کے لئے روانہ ہوگیا۔ گھرکے راستے میں شمشان گھاٹ آتا تھا ۔وہاں کچھ لوگ جمع تھے۔اُن کے قریب جا کھڑا ہوا۔آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے۔ کسی مردے کی آخری رسوم ادا کی جا رہی تھیں۔ساتھ والے آدمی سے پوچھا۔ ”کون مرگیا۔“ وہ کہنے لگا۔ ”ماسٹر چرن داس پرلوک سدھار گئے ہیں۔“مردے کے سر پر ہتھوڑا مارنے کا مرحلہ آیا۔ہتھوڑا مارا گیا اور چوٹ پڑتے ہی فضا میں چھوٹی چھوٹی ہڈیاں بکھر گئیں۔ ہڈی کا ایک ٹکڑا بہت بری طرح میرے ٹخنے پر آ کے لگا۔شدید تکلیف سے دوہرا ہو گیا۔وہ یہ واقعہ سناتے ہوئے بہت ہنسا کرتے اور کہا کرتے۔” ماسٹر چرن داس مر تو گیا لیکن جاتے جاتے مجھ سے اپنا بدلہ لے گیا۔“

آئیے یہ مضمون پڑھتے ہیں اور اس شخص کی مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں جو آفتاب احمد خان کہلاتا تھا!
خیر اندیش
راشد اشرف

غروبِ آفتاب
جنازگاہ کا ماحول حسبِ روایت سوگوار تھا۔نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے لئے قاری صاحب کا انتظار تھا۔اگلی صف میں اقبال فیروز اور حمید شاکر افسردہ کھڑے نظر آئے۔میں اُن کے قریب چلاآیا۔ اقبال فیروز مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہنے لگے۔ ”رانا صاحب نے زندگی کے آخری سال قریباً آپ کے ساتھ ہی گزارے ہیں۔“

”لیکن کل شام آخری باتیںمیرے ساتھ ہوئی تھیں۔“ حمید شاکر فوراً بولے۔میں خاموش رہا۔۔۔اقبال فیروز نے قریب پڑی میّت کو تاسف سے دیکھا اور بولے۔” کون کہتا ہے ، انسان دنیا سے خالی ہاتھ جاتا ہے۔یہ شخص اپنا علم، تجربہ ، مشاہدہ اور اپنی باتیں ساتھ لے کر جارہا ہے۔“ قاری صاحب آگئے ۔ نمازہ جنازہ ہوئی۔تدفین کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی لیکن اقبال فیروز کے جملے میرے احساس سے چپکے رہے۔

راجندر سنگھ بیدی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کسی ایسے شخص کے بارے میں دیانتداری سے لکھنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے جو دنیا چھوڑ کر چلا جائے کیونکہ بالعموم ایسے عالم میں اُس شخصیت سے متعلق آپ کے اندر سے مثبت آوازیں ہی برآمد ہوتی ہیں۔۔۔ میں یہاں کوشش کروں گا کہ جذبات سے ہٹ کر کچھ تحریر کر سکوں۔

آفتاب احمد خاں سے پہلی ملاقات مجھے صحیح طرح سے یاد نہیں ہے کہ کہاں ہوئی اور اُس ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں۔آپ کو زندگی میں بہت سے لوگ ملتے ہیں۔ اُن میں جو روح کے ساتھی ہوتے ہیں وہ بغیر کسی وجہ کے آپ کے قریب آجاتے ہیں اور غیر متعلق لوگ بغیر کسی وجہ کے آپ کی زندگی سے دور چلے جاتے ہیں۔آفتاب احمد خاں کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا وہ دھیرے دھیرے نہیں آنا فاناًمیرے قریب آگئے۔غالباً حمید شاکر انہیں میرے پاس ”کیفے دیوان “ میں لے کر آئے تھے۔ اُن دنوں جھنگ بازار فیصل آبادکے کیفے دیوان میں رات کی طویل نشستیں ہمارے ادبی و فنی کیتھارسس کا ذریعہ ہوتی تھیں۔ جن میں شہر کے کئی معروف دوست شریک ہوتے تھے۔ خیر آفتاب احمد آئے۔ دھوتی اور قمیص میں ملبوس ،بھاری بھر کم جثہ، رعب دار آواز اور چاک وچوبند انداز۔ ۔۔دیکھنے میں وہ مکمل غیر آرٹسٹ نظر آئے۔ اس طویل ملاقات کے بعد حمید شاکر نے مجھے بتا یا کہ وہ منتخب لوگوں سے دوستی کرنا پسند کرتے ہیں۔یہاں آنے کے لئے بھی رضامند نہیں تھے۔کہہ رہے تھے آپ پتا نہیں مجھے کن لوگوں سے ملوانے جارہے ہو۔خیر اُس نشست میں ہونے والی باتوں سے وہ کسی حد تک مطمئن دکھائی دئیے لیکن انہوں نے اظہار نہیں کیا کیونکہ وہ فوری رائے دینے سے احتراز کرتے تھے۔۔۔ اس کے بعد ہماری کیفے دیوان والی نشستیں تواتر سے ہونے لگیں۔جن میں اُن کی شخصیت کے کئی اور پہلوبھی نمایاں ہوئے۔

سارے دوست انہیں ”رانا صاحب “ کہہ کر پکارتے تھے۔ہمیں علم نہیں تھا کہ ہم انجانے میں اُن کو کسی ناگواری میں مبتلا کررہے ہیں۔ایک بار ریاض مجید سے اُن کی کسی بات پہ ناراضی ہوئی۔ کچھ عرصہ بول چال بند رہی۔ آخر مجھے کودنا پڑا۔ میں نے ریاض مجید سے کہا کہ آپ صلح کرلیں۔ وہ بڑے فراخ اور فیاض ہیں اِس معاملہ میں، ناراضی کے ایک اور واقعہ میںریاض مجیدنے اپنا بڑا سفید رومال جسے وہ گرمی سے بچاﺅ، کسی چیز کو سمیٹنے اور ضرورت پڑنے پر جائے نماز کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں، شانے سے اتار کر خان صاحب کے قدموں پہ رکھ دیا تھا۔ خیر ریاض مجید حسب امید فوراً ہی مان گئے ۔ کہنے لگے۔ ” میری تو کوئی لڑائی ہی نہیں ہے۔“ اب رانا صاحب کو منانا خاصا مشکل تھا۔ بہر حال میں نے کچھ محنت کر کے اُن کو راضی کر لیا لیکن انہوں نے چند شرائط رکھیں کہ اُن کو پورا کئے بغیر صلح ممکن نہیں ہے۔اُن میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ انہیں ”رانا“ کہہ کر نہ بلایا جائے۔ استفسار پر بتانے لگے۔ ”رانا ایک مشرکانہ نام ہے۔ مجھے اس نام کا سابقہ پسند نہیں ہے۔ “ ” پھر کیا کہا جائے آپ کو۔“ میں نے پوچھا۔ کہنے لگے ۔ ”آپ مجھے آفتاب کہہ لیا کرو۔ “عمروں کے تفاوت کی وجہ سے انہیں اِس بے تکلفی سے پکارنا میری اخلاقیات کی راہ میں مانع تھا اس لئے میں انہیں ” خان صاحب“ کہہ کر مخاطب کرنے لگا لیکن دوست احباب پھر بھی انہیں رانا صاحب کے نام سے ہی بلاتے تھے۔

پچھلے دو ماہ سے اُن سے رابطہ کچھ کم ہوگیا تھا۔پتا نہیں کیوں؟ ہاں شاید ایک وجہ تھی ۔ انہوں نے فون پر مجھے بتا یا تھا کہ ان کی صحت اب بہتر نہیں رہی۔ ممکن ہے وہ اب فیصل آباد نہ آسکیں۔میں اُن کی بات سن کر بجھ سا گیا تھا۔ میں نے اُن سے دانستہ رابطہ ختم کرلیا تھا شاید کسی انجانے خوف کے زیرِاثر۔۔۔ البتہ جمعہ کے روز حلقہ اربابِ ذوق کی میٹنگ میں جب اُن کے بھائی ارشد جاوید سے ملاقات ہوتی تو میں اُن کی خیریت دریافت کرلیتاتھا۔ بعد کی ایک ملاقات میں ارشد جاوید نے بتایا کہ اُن کی طبیعت اب سنبھل چکی ہے اور پھر حمید شاکر کے ذریعے مجھے آفتاب صاحب کا پیغام ملا کہ میں رابطہ کروں۔ اُن کو فون کیا تو آواز کی توانائی سے اندازہ ہو گیا کہ وہ اب بہتر حالت میں ہیں ۔ اپنی مصروفیات اور کچھ تساہل پسندی کی وجہ سے اُن سے پھر رابطہ نہ کر سکا اور بالآخر24مئی 2011ءکی شب ان کے بھتیجے مدثر اور بھائی ارشد جاوید کی یکے بعد دیگرے دو فون کالز نے اُن کے دنیا چھوڑ جانے کی بات کو راسخ کردیا۔

وہ زیادہ تر ماضی میں رہنا پسند کرتے تھے اور خود کو آرتھوڈوکس کہتے تھے۔بقول اُن کے بالخصوص تاریخ اور فلم میرے پسندیدہ موضوعات ہیں لیکن میری دانست میںوہ قریباً ہر موضوع پر معلومات کے خزانے لٹاتے تھے۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے وہ فصاحت و بلاغت کے وسیع اظہار میں اس قدر محو ہوجاتے جیسے اُن صدیوں میں اُن لوگوں کے درمیان موجود رہے ہوں۔ محفل میںموجود سارے لوگ خود کو اُن کی بارعب آواز اور سیر حاصل گفتگو کے بوجھ تلے دبا محسوس کرتے اور چپ چاپ اُن کی حیران کن علمی و ادبی باتیں سننے میں ہی عافیت محسوس کرتے اور ایک دم سے وہ کمرہ جہا ں اِس طرز کی گفتگو جاری ہوتی، گلوبل روم میں بدل جاتا۔ ایسے موقعوں پر وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر اُن کی کوئی بات غلط ہے تو معترض شخص ان کی غلطی کے حوالہ سے کوئی ثبوت ضرور پیش کرے۔

وہ مشاہیر سے ملنے کے بھی بڑے شائق تھے۔سعادت حسن منٹو کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ پچاس کی دہائی میں جب میں دیال سنگھ کالج میں پڑھتا تھا تو کبھی کبھار منٹو سے ملنے لکشمی مینشن اُن کے گھر چلا جایا کرتا تھا۔ ایک بار میں فیصل آباد کے” منروا“ سنیما کے باہر کھڑانئی ریلیز ہونے والی فلم ”شہنائی “ کے پوسٹر دیکھ رہا تھا کہ ایک پرشکوہ گاڑی میرے قریب آکر رکی۔ میں نے نظر دوڑائی۔ گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر فلم ”شہنائی “ کے ہیرواور دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان بیٹھے تھے اور پچھلی سیٹ پر تھکے تھکے سے منٹو صاحب موجود تھے۔ناصر خان گاڑی سے باہر آتے ہی مجھ سے مخاطب ہوئے۔

”یہاں کے کسی اچھے سے ہوٹل کا پتا بتا سکتے ہو۔“میں نے کچہری بازار کے ایک ہوٹل کا بتایا اور مزید کہا کہ وہاں سے آپ کو اچھا کھانا مل جائے گا۔اتنے میں منٹو بھی کمر پر ہاتھ رکھے گاڑی سے باہر آگئے اور مجھے پہچانتے ہوئے پنجابی میں بولے۔
”اﺅے توں کتھے؟۔“
” جی ایتھے میرا گھر اے۔“ میں نے سعادت مندی سے کہا۔
” تے فیر لاہور؟۔“
” جی اوتھے میں پڑھدا واں۔“
منٹوکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ بولے۔
” فیر تے توں بڑا بدمعاش ایں۔“

ساحر لدھیانوی کا تعلق اُن کے علاقے یعنی لدھیانہ سے تھا۔دونوں خاندانوں کا آپس میں گھریلو تعلق تھا ۔ساحر عمر میں اُن سے بڑے تھے اس لئے وہ ساحر کو ” بھائی جی“ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ جب 1948میں ساحر پاکستان چھوڑ کر واپس انڈیا چلے گئے تو ساحر کے والد چوہدری فضل محمدآفتاب احمد سے ساحر کو خط لکھوایاکرتے تھے کیونکہ چوہدری صاحب پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ اِس حوالے سے اُن کا مفصل بیان آپ کو کتاب ”ملاقاتوں کے بعد“ میں اُن کے تحریر کردہ دیباچہ میں مل سکتا ہے۔بہرحال وہ ساحر کو انڈین فلم انڈسٹری کو جدیدیت سے ہمکنار کرنے والے پہلے شاعر کا درجہ دیتے تھے۔علاوہ ازیں وہ ساحر اور امرتا پریتم کے لاہور میں گزرے محبت بھرے دنوں کے بھی عینی شاہد تھے۔ اِس امر کا کچھ اظہار انہوں نے 14 ستمبر2010 کوریڈیو ایف ایم 103 لاہور کے ایک پروگرام میں کیا تھا۔یہ پروگرام ساحر لدھیانوی کے فن وزندگی سے متعلق تھا۔

شعرا ءمیں وہ علامہ اقبال، مرزا غالب ، سیماب اکبر آبادی، سیف الدین سیف اور عبدالحمید عدم کے پرستار تھے۔ اپنی گفتگو میں وہ علامہ صاحب اور غالب کے اردو اور فارسی کے لاتعداد شعروں کو بکثرت استعمال کرتے تھے۔ قریباً سبھی اکابرین کی تخلیقات کے اقتباسات اور بالخصوص اُن کی نجی زندگیوں کے متعلق نایاب تحقیق اُن کی باتوں کو تقویت بخشتی تھی۔وہ فنِ صحافت میں مولانا ظفر علی خان اور مولانا چراغ حسن حسرت کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ غالباً چراغ حسن حسرت کا ایک شعر وہ کبھی کبھی خاص رومانی موڈ میں پڑھا کرتے تھے۔ کہتے تھے۔ کیا سادہ لفظوں میں انہوں نے انسانی جمالیات کو سمیٹ لیا ہے۔
زلف کی ، رخسار کی باتیں کریں
آﺅ حسنِ یار کی باتیں کریں

ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں وہ بغیر ویزہ ،بارڈر کے لوگوں سے” مِل ملا “کے بمبئی میں موسیقار مدن موہن کے گھر مہمان کی حیثیت سے گئے۔ مدن موہن کے اسسٹنٹ بپن بابل( سیدمرغوب صدیقی ) اُن کے برادر نسبتی تھے۔ بابل کے متعلق وہ بتایا کرتے تھے کہ وہ مدن موہن کے کلاس فیلو رہے تھے میوزک سے لگاﺅ دونوں کی گہری دوستی کا سبب بنا۔بابل اُن دنوں انجینئرنگ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے ۔ ایک دن وہ اپنے کمرے میں ہار مونیم بجارہے تھے کہ اُن کے والد اندر آئے۔ بہت غصے میں تھے۔ کہنے لگے۔ ”اِن بے ہودہ کاموں کو چھوڑ دو یا ابھی اِس گھر کو چھوڑدو ۔“بابل نے اُسی لمحے گھر چھوڑدیا اور اپنے دوست مدن موہن کے پاس لکھنو چلے گئے جو وہاں ریڈیو اسٹیشن میں ملازم تھے۔ وہ ساری عمر مدن موہن کو اسسٹ کرتے رہے۔1975 میں مدن کی موت کے بعد پاکستان آئے۔ ایک پاکستانی فلم بھی سائن کی لیکن کام مکمل ہونے سے پہلے ہی اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ہندوستان میں بابل نے آزاد حیثیت میں بھی کچھ فلموں ” سلامِ محبت۔24 گھنٹے ۔بس کنڈکٹراور بادل اور بجلی “ وغیرہ میں موسیقی دی اور اُن کے چند گیت کافی مقبول ہوئے۔ بہرحال مدن کے گھر آفتاب صاحب کی ملاقات آشا بھونسلے سے بھی ہوئی جو ریکارڈنگ کے سلسلے میں آئی تھیں کیونکہ مدن موہن نے ریکارڈنگ سٹوڈیو گھر میں ہی بنا رکھا تھا ۔شام ڈھلتے ہی مدن موہن کے گھر مختلف فنکار جمع ہوجاتے تھے۔ اُن میں راجہ مہدی علی خان، او پی نیر، جے دیو اور راجندر کرشن وغیرہ نمایاں تھے۔ انہوں نے بتا یا کہ ایک دن مدن ،آشا اور میں تینوں کمرے میں بیٹھے تھے۔ مدن موہن آشا سے کہنے لگے۔
” آشا بائی! ٹھیک ہے تیری بہن لتا بھی خوب گاتی ہے لیکن تیرا تو جواب ہی نہیں ہے۔“
” آپ تو بس یونہی بناتے ہیں۔“ آشا نے انکساری سے کہا۔
” بناتا نہیں۔ سچ کہتا ہوں۔“ مدن موہن نے اُسی سچائی سے جواب دیا۔

آفتاب صاحب آشا بھونسلے کے بہت بڑے مداح تھے اور اُن کے گیتوں پر جھوم جھوم جاتے تھے۔ ہم انٹرویوز کے لئے انڈیا جانے لگے تو انہوں نے مختلف مشاہیر سے کئے جانے والے سوالات کی ایک بڑی فہرست ہمیں تھما دی کہ آپ اپنے سوالات کے علاوہ یہ سوال بھی ضرور کریں۔ان سوالوں کو دیکھ کر نوشاد صاحب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ مجھ سے زیادہ تو آفتاب صاحب میرے بارے میں جانتے ہیں۔بہرحال اُن سے پوچھا گیا کہ لتا اور آشا میں سے کون بہتر سنگر ہے۔نوشاد صاحب پہلے تو ٹال مٹول کرتے رہے لیکن ہمارے اصرار پہ رائے دینے پر مجبور ہوگئے۔ کہنے لگے۔” لتا نے شروع سے خود پر سنجید ہ موڈ طاری کیا ہوا ہے۔ وہ اُس سے نکل نہیں پائیں جبکہ آشا کے پاس ورائٹی ہے وہ ہر طرح کے گیت آسانی سے گا لیتی ہیں۔“ آفتاب صاحب کی آشا کے بارے میں جو رائے تھی اُس پر مہرِ تصدیق ثبت ہوگئی اور وہ اپنے ہر ملنے والے سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے۔وہ بالخصوص آشا کے دوگیت ” شوخ نظر کی بجلیاںدل پہ میرے گرائے جا۔“ او ر ”آئیے مہرباں “ ترنگ میں آکر گایا کرتے تھے۔ شمشاد بیگم کی گائیکی بھی انہیں پسند تھی۔اُن کا ایک گیت ”میرے پیا گئے ر نگون“ وہ بار بار سنا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ شمشاد نے اِس گیت کے شروع میں لفظ ”پیا“ جس شوخی و طراری سے ادا کیا ہے وہ کسی اور سنگر کے بس کی بات نہیں ہے۔ شمشاد بیگم نے اپنی زندگی میں صرف ایک ٹی وی انٹرویودیا ہے۔ اتفاق سے وہ میرے پاس موجود تھا۔ وہ متعدد بار بڑے ذوق و شوق سے یہ انٹرویو دیکھ چکے تھے۔ وہ کے ایل سہگل کے گیتوں کے دیوانے تھے۔ نوشاد صاحب نے جب سہگل کے بارے میں کہا ۔ ” اُس جیسا کوئی دوسرا پیدا نہیں ہوا۔“ تو وہ عش عش کر اٹھے تھے۔ جالندھر میں 18 جنوری 1947کوسہگل کی ارتھی کو جاتے ہوئے انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ بتاتے تھے کہ اس روز ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔بیل گاڑی پر سپیکرنصب تھے۔ اور اُن کے گائے گئے ایک گیت ”جب دل ہی ٹوٹ گیاہم جی کے کیا کریں گے“ کو باربار بجایا جارہا تھاکیونکہ یہ سہگل کی وصیت تھی ۔ ۔۔محمد رفیع کی گائیکی کے بارے میں آفتاب صاحب کہتے تھے کہ آج اگر تان سین کہیں سے آجائے تو محمد رفیع کے گیت سن کر شرم سے دریا میں ڈوب مرے۔ اُن کی باتوں میں شدت پسندی کارجحان نمایاں ہوتا تھا ۔شدت پسندی کے اظہار کے لئے وہ پنجابی زبان کی مرصع گالیوں کا استعمال کرتے تھے ان کی شدت پسندطبع شاید اسی طرح تسکین پاتی تھی۔ بتاتے تھے کہ یہ عادت انہیں اپنے والد سے ورثہ میں ملی ہے۔ شدت پسند مزاج کے اظہار کے لئے وہ ”داغ“ کے اس مصرعہ ” جلا کے خاک نہ کردوں تو داغ نام نہیں“ کو اِس ترمیم کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔” جلا کے بھسم نہ کردوں تو داغ نام نہیں۔“

خان صاحب شاعری میں بھی طبع آزمائی کرلیتے تھے۔ میں نے ان کی چند تخلیقات کا مطالعہ کیا ہے۔ اُن کی غزلوں اور نظموں پہ مشتمل شاعرانہ کاوشوں کے علاوہ نایاب کتب، صدیوں پرانے کرنسی سکے ، غیر دستیاب فلمی و غیر فلمی گانوں کے البم، پرانی فلمیں، اختر شیرانی کی دستخط شدہ تصویر اور جانے کیاکچھ اُن کے اثاثہ میں محفوظ پڑا ہوگا۔ کتاب ”ملاقاتوں کے بعد“ کے دیباچہ ”دیباچہ نہیں الف لیلیٰ“ میں اُن کی ہشت پہلو شخصیت کا اظہار موجود ہے۔

بمبئی قیام کے اُن دنوں سے پہلے اور بعد میں بھی انہوں نے فلمی طرز کے کچھ گیت لکھے ۔ یہ گیت بذریعہ ڈاک وہ مدن موہن کو بھجوادیتے تھے۔ اُن کا لکھا ہوا ایک گیت محمد رفیع اور گیتا دت نے گایا تھا جو فلم ”آگرہ روڈ “سے ہے۔گیت کے بول تھے۔”دنیا کی نظر ہے بری ،زلفیں نہ سنوارا کرو۔“ مدن موہن نے وہ گیت فلمی شاعر پریم دھون کو تھما دیااوروہ اسے متذکرہ بالا فلم میں لے آئے۔

کتاب ”ملاقاتوں کے بعد“ کے دیباچہ میں انہوں نے مدھو بالا کو کائناتِ عکس و آہنگ کی حسین ترین عورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ قدرت کو اپنے تخلیق کردہ حسین چہرے پر کوئی شکن گوارہ نہیں تھی اس لئے عین شباب میں اسے واپس بلا لیا۔ انہوں نے ہم دوستوں کو بتا یا تھا کہ وہ مدھو بالا کو زندگی میں صر ف ایک بار دیکھ سکے ہیں وہ بھی کچھ فاصلے سے۔بمبئی قیام کے انہی دنوں میں انہوں نے ’پیڈر روڈ ‘کی دوسری جانب مدھو بالا کو ایک گاڑی کے پاس کھڑے دیکھا تھا۔وہ سفید ساڑھی میں ملبوس تھیں اور اُن کے لفظوں ”زمین کا وہ ٹکڑاشفاف نور میںڈھلاہوا تھا۔“مدھو بالا نے اپنے ڈرائیور سے کوئی بات کی اور پھر پچھلی نشست پر جا کر بیٹھ گئیں یوں وہ فوراً ہی اُن کی نظروں سے اوجھل ہوگئیں۔وہ یہ بات اور اِس طرح کی دوسری باتیں متعدد بار بتا چکے تھے لیکن ہر بار اُن کے اظہار میں تازگی ہوتی تھی۔۔۔ آفتاب صاحب کافی سالوں سے مدھو بالا کے برتھ سرٹیفیکیٹ کی تلاش میں سرگرداں تھے اور متعدد بار لاہور کارپوریشن کے چکر لگا چکے تھے ۔ مجھے علم نہیں وہ کامیاب ہوئے کہ نہیں، البتہ وہ نورجہاں کا برتھ سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوگئے تھے۔ اِن باتوں سے اُن کا فنکاروں کے سا تھ گہری وابستگی کا پتا چلتا ہے۔ ایک بار ہم ممبئی کے ” سانتا کروز“ قبرستان سے مدھو بالا کی قبر کی کچھ مٹی لے آئے۔ ایک شب چنیوٹ بازار میں دوستوں کی محفل جمی تھی۔ آفتاب صاحب کے آتے ہی میں نے انہیں مٹی کی وہ پڑیا پیش کی۔ انہوں نے پڑیا کھولی۔ چند لمحے محبت اور حسرت سے اُسے د یکھتے رہے ۔ ایک آہ بھری۔ تھوڑی سی مٹی ہتھیلی پررکھی ۔منہ میں ڈالی اور پھر پانی پی لیا ۔اِس عمل کے بعد اُن کی ذہنی بشاشت سے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی حیات آفریں دوا کھالی ہو۔کچھ دوست حیران تھے لیکن ریاض مجید کی حیرانی دیدنی تھی۔ریاض مجید متعدد محفلوں میں اُن کی اِس ’حرکت‘ کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ خان صاحب بتاتے تھے کہ وہ مدھو بالا کو پہلے بس ایک ایکٹریس کے طور پر لیتے تھے لیکن جب اُن کی موت واقع ہوئی تو انہیں ایک جھٹکا لگا کہ اس طرح کی خوبصورتی بھی مر سکتی ہے؟ منٹو کے ایک کردار کی طرح، جس میں ایک ماں فسادات میں کھوئی اپنی بیٹی کو ڈھونڈ رہی ہے۔ منٹوایک دن اُسے بتاتے ہیں ”تمہاری بیٹی مر چکی ہے۔ “ماں بے یقینی سے کہتی ہے۔ ”نہیں، وہ اتنی خوبصورت ہے ، مر نہیں سکتی۔“ آفتاب صاحب بتاتے تھے ۔ مدھوبالا کی موت کے بعد مجھے اپنا ہوش نہ رہا۔ رنج وملال کی کیفیت میں کتنے ہی دن میں بھوکااور پیا سا رہا اور قدرت اﷲ شہاب کے افسانہ ”چندراوتی“ کا اختتامیہ مجھے اپنے آپ پہ منطبق لگا،یعنی مدھوبالا سے مجھے اُس وقت محبت ہوئی جب اسے مرے ہوئے تیسرا دن تھا۔

افسانہ” چندرا وتی “اُن کے دل و دماغ پر چھایا رہتا تھا۔ وہ اس افسانے کو فلمبند کرنا چاہتے تھے۔ بڑے سرگرم دکھائی دیتے تھے اُن دنوں ۔ ہماری نشستوں میں اب زیادہ تر اسی موضوع پر بات ہونے لگی تھی۔ منظر نامے پر بات ہوتی، مکالمے بولے جاتے۔اس بات پہ غور وخوض جاری رہتا کہ اس منصوبے کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے لاہور میں فلم ڈائریکٹر اسلم ڈار سے بھی ملاقات کی۔ اسلم ڈار کو آئیڈیا پسند آیا لیکن ۔۔۔ فلم نہیں بن سکی۔ان کی چند دیگر خواہشوں میں ”چندراوتی“ بنانے کی یہ خواہش بھی شامل تھی لیکن تشنہ کام رہی۔انہوں نے چندرا واتی کا برتھ سرٹیفیکٹ تلاش کرنے کی کوشش کی ۔جانے وہ کامیاب ہوئے یا نہیں ۔وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے اُن کمروںمیں خاص طور پر گئے جہاں چندرا وتی پڑھتی تھی۔ وہ ایمن آباد میں واقع چندرا وتی کے گھر بھی گئے ۔ گھر کے باہر لگے نلکے سے پانی پی کر انہیں فرحت انگیز احساس ہوا، جس کا وہ اظہار کرتے تھے۔ وہاں کے لوگوں سے کچھ معلومات بھی حاصل کیں۔ بتاتے تھے کہ امتدادِ زمانہ ایمن آباد کو زیادہ بدل نہیں پایا۔

بمبئی قیام کے دنوں میں انہوں نے دلیپ کمار سے ملنے کی بھی جستجو کی۔ وہ دلیپ کے گھر پہنچے۔ پتا چلا وہ کسی شوٹنگ کے سلسلہ میں بمبئی سے باہر ہیں۔ نوشادصا حب سے ملنے کا ارمان بھی شدید تھا لیکن کسی وجہ سے وہ بھی نہ مل سکے۔ دلیپ کمار اور نوشاد سے نہ مل سکنے کا انہیں ساری زندگی قلق رہا۔ میں نے ایک بار پوچھا۔” دلیپ کمار کے علاوہ آپ کو کس ہیرو نے متاثر کیا ہے؟“ کہنے لگے۔” سچ پوچھو! دلیپ کمار سے باہر کسی کو دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ اداکاری سے ہٹ کر اس کی شکل و صورت سے مماثل بھی کوئی شخص میں نے روئے زمین پر نہیں دیکھا۔“ وہ بے جا حمایت کے بھی قائل نہیں تھے۔اُن دنوں فیصل آباد کے اقبال سٹیڈیم میں پاکستا ن اور انڈیا کے مابین کرکٹ میچ ہورہا تھا۔ آئیوی آرٹ کلب کی ایک ذیلی تنظیم ” دیوداس گروپ “ بھی ہے۔ جو دلیپ کمار کی شہرہ آفاق فلم دیواس حوالے سے ہم نے قائم کی ہے۔ خیر حمید شاکر نے مجھے بتایا کہ میں نے دیوداس گروپ کے بارے میں بات کی تھی ۔ اس سلسلے میں ”زی ٹی وی“ والے آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ شام کو ” پرائم ہوٹل “میں اُن کے ساتھ پروگرام طے ہے۔ میں ، آفتاب صاحب، میاں بشیر اعجاز، کامران رشید اور دوسرے احباب پرائم ہوٹل پہنچے۔ زی ٹی وی کا کیمرہ آن ہوا۔ ان کا مجھ سے پہلا سوال ہی کافی تیز تھا کہ پاکستان جیسے گھٹے ہوئے ملک میں آپ کس طرح اس گروپ کو چلارہے ہیں کہ جس میں ہیرو ہر وقت شراب کے نشہ میں دھت رہتا ہے۔۔۔ میں نے کوشش کرکے کسی حد تک موثر جواب دیا۔ کیمرہ آفتاب صاحب پر اوپن ہوا۔

” آپ کو دیوداس میں کیا سب سے بہتر لگا۔ “ زی کے نمائندے نے پوچھا۔

” میں منافقت نہیں کرسکتا۔ “ آفتاب صاحب دھیمے لہجے میں بولے۔” مجھے دلیپ کمار والی نہیں سہگل والی دیوداس پسند ہے۔“ ہمارے چہروں پر ناگواری ابھری ۔ ہمیں پتا تھا کہ وہ سہگل کی دیوداس کو پسندکرتے ہیں اور میںراستے میں انہیں سمجھاتا آیا تھا کہ آپ دلیپ کمار کی دیوداس پر کوئی توصیفی بات کردیںلیکن دلیپ کمار کو پسند کرنے کے باوجود وہ کیمرے کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکے۔ جھوٹ کچھ لوگوں کی سرشت میں نہیں ہوتا وہ بھی شاید اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔( دلیپ کمار پر ہم نے آفتاب صاحب کے ساتھ مل کر چار گھنٹوں پہ محیط ایک پروگرام کیا تھا)

و ہ روئے زمیں پر شاید موسیقار نوشاد کے سب سے بڑے پرستار تھے۔نوشاد کی منتخب دھنوں پر وہ جھوم جھوم جاتے تھے۔ وہ اس قدر بے خود ہوجاتے تھے کہ انہیں پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ کہاں بیٹھے ہیں اور اُس ماحول میں اِس طرح کی وارفتگی کی اجازت ہے بھی یا نہیں۔نوشاد صاحب نے بھی اپنے انٹرویو میں آفتاب صاحب کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن جیسے موسیقی سے محبت کرنے والوں کے دم سے ہمارے اندر کام کرنے کی لگن موجود رہتی ہے۔نوشاد صاحب کا فلم ” شاردا“ کا گیت ” تم نہیں آتے ہو، نہیں آﺅ، یاد سے کہہ دو ، وہ بھی نہ آئے۔“ وہ اکثر گا کر سنایا کرتے تھے۔ وہ دوسرے بھی کئی گیت بھی گایا کرتے تھے ۔ کبھی جب بہت اچھے موڈ میں ہوتے تو ردھم کے ساتھ میز بھی بجایا کرتے تھے۔

گلوکارہ سریندر کور اُن کی پسندیدہ سنگر تھیں۔ان کی پسندیدگی کی وجہ سریندر کور کے اردو گانے تھے۔ جب انہوں نے پہلی بار اس امر کا اظہار کیا تو ہمیں کافی حیر ت ہوئی کیونکہ ہم سریندر کو محض پنجابی سنگر کے طور پر جانتے تھے۔ جب ہم نے سریند کورکے اردو گیت سنے تو ہمیں اپنی کوتاہ نظری کا شدید احساس ہوا۔باکمال اردو گیت تھے سریندر کو ر کے۔۔۔سریندر کور کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک پروگرام شاہد ندیم (سیکریٹری جنرل آئیوی آرٹ کلب ) کے گھر طے پایا۔ہم دوست وہاں اکٹھے ہوگئے۔ آفتاب صاحب کے انتظار میں ہم گلی میں کھڑے تھے کہ دور سے وہ سائیکل پر آتے دکھائی دئیے۔ سائیکل اُن کو زندگی کی اس مشکل دوڑمیں بھگائے پھرتا تھا ۔ پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے ٹانگوں کے درد کی وجہ سے ان کا بہترین دوست بچھڑ گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں اس ساتھی کے جدا ہونے سے وہ آدھے سے زیادہ مرگئے تھے۔ اُن محافل سے کٹ گئے تھے جو ان کے مخصوص مزاج کو آکسیجن فراہم کرتی تھیں۔ خیر! آفتاب صاحب آسمانی رنگ کے شلوار سوٹ میںتھے۔ آنکھو ں کو ر ے بین کی خوبصورت عینک نے ڈھانپ رکھا تھا۔پاس آکر رکے۔ چہرے پر شادمانی کا تاثر، وہ کچھ گنگنا رہے تھے۔ان کے آجانے پر ہم گھر میں داخل ہونے کے لئے دروازے کی طرف بڑھے تو انہوں نے کہا۔” نہیں رکو۔“ اُن کی آواز میں ایک خاص حکمیہ طرز کا دبدبہ ہوتا تھا۔ ہم فوراً رک گئے۔ان کے چہرے پر خوشگواریت پھر سے عود کرآئی اور وہ ہمیں اپنی ذہنی کیفیت میں شامل کرنے کے لئے سائیکل پر بیٹھے بیٹھے گانے لگے۔ ” اسان گندھائیاں مینڈھیاں تُو کسے بہانے ویکھ بھلا۔“ گیت ختم ہوتے ہی بولے۔ ”میں سارا رستہ یہی گاتا آیا ہوں۔“ سریند ر کو ر کے پروگرام میں انہوں نے اردو زبان میں گفتگو کی۔اختتام پرمیں نے کہا۔” سریندر کو رپنجابی ہیں۔ آپ پنجابی زبان میں بات کر لیتے۔“ کہنے لگے۔” میرا لہجہ کرخت ہے۔ پنجابی میں بات کرتے وقت زیادہ کرخت لگتا ہے اس لئے میں ایسے موقعوں پر اردو زبان کا سہارا لیتا ہوں۔ جس سے کرختگی کسی حد تک کم ہوجاتی ہے۔ “ سریند ر کور کے حوالے سے مرتب شدہ وہ پروگرام غالباً ریاض مجید کے پاس محفوظ ہے۔

صاف اور کھری بات منہ پہ کہنے کے عادی تھے۔ ایک بار امجد اسلام امجد فیصل آباد آئے۔ میں ان سے اپنی کتاب ”ملاقاتوں کے بعد“ کے دیباچہ کے سلسلے میں ملنا چاہتا تھا۔فون پہ انہوں نے بتا یا کہ وہ فیصل آباد یونیورسٹی اور ایم ٹیکس کے پروگرامز میں مدعو ہیں۔ آپ شام کے بعد سیرینا ہوٹل کے فلاں کمرے میں آجائیں۔ مغرب کے بعد میں اور آفتاب صاحب سیرینا جا پہنچے۔ امجد صاحب سے مختلف موضوعات پر بات چیت شروع ہوگئی۔بات اُن فنکاروں کی ہونے لگی جو دوسرے ممالک میں جاکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ امجد اسلام امجد بتانے لگے کہ عدنان سمیع نے پچھلے دنوں برطانیہ میں شو کیا۔اس نے پروگرام کے اتنے پونڈز طلب کئے یعنی ایک خطیر رقم وصول کی۔یہ کہتے ہوئے امجد صاحب کے چہرے پرہلکی سی مرعوبیت نظر آئی۔یہ سنتے ہی آفتاب صاحب اپنے مخصو ص دبنگ لہجے میں بولے۔

” امجد صاحب! آپ اپنے شعبہ میں بلند مرتبے پر فائز ہیں۔ آپ کو اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتیں۔“

تاریخی عمارتوں اور نوادرات سے انہیں دلی انس تھا۔تاریخی اثاثے کی بربادی کا بہت دکھ اور کرب سے ذکر کیا کرتے تھے کہ اِن مشرف بہ اسلام لوگوں نے فلاں تاریخی عمارت گرادی۔ فلاں عمارت خستہ حالی کا شکار ہے وغیرہ۔ ایک بار مجھ سے ملنے آئے تو ان کے پاس ایک تھیلا تھا۔ کوئی وزنی چیز لگ رہی تھی اُ س میں۔کھولا تو اس میں مندر کی ایک بڑی سی گھنٹی تھی۔ کہنے لگے ۔”یہ گھنٹی میں نے گزشتہ 55 سال سے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔ 1947 میں یہ گھنٹی میں نے لاہور کے ایک بڑے مند ر سے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اتاری تھی۔کیونکہ اُس برباد مندر میں ایک سانپ کا بسیرا تھا۔ “مندر کا نام بھی انہوں نے بتایا تھا لیکن میں اِس وقت بھول رہا ہوں۔ پھر بولے۔” آپ لوگ انڈیا جاتے رہتے ہیں ۔ میری خواہش ہے جہاں کی یہ چیز ہے وہاں پہنچ جائے۔ آپ یہ گھنٹی وہاں کسی مندر کو دے دیں۔“ وہ گھنٹی اب میرے پاس محفوظ پڑی ہے ۔ زیادہ وزنی ہونے اور سیکیورٹی معاملات کی وجہ سے میں اُن کی خواہش پوری نہیں کرسکا۔

لاہور شہر ان کے رگ وپے میں سرایت کرتا تھا۔ اس شہر کے گلی کوچوں کا ذکر ہوتے ہی وہ عجیب سی کیفیت میں کھو ئے آہیں بھرا کرتے تھے شایدوہ شہر اُن کی کئی ایک سہانی یادوں کامدفن تھا۔کہتے تھے ۔”اگر آپ نے قیام پاکستان سے پہلے کا لاہور دیکھنا ہے تو 1940 میں بنی فلم” داسی“ دیکھیں۔“ وہ ارشد چودھری سے یہ فلم بھی لے کر آئے اور کہا کہ اپنے کمپیوٹر میں کاپی کرلیں۔ ایک بار اُن کے ساتھ لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے امرتا پریتم ، باری علیگ ،منٹواور دیگر مشاہیرکے گھر اور تاریخی حوالے سے معتبر کئی مقامات دکھائے۔۔۔ آخری عمر تک اُن کا ایک خاص معمو ل رہا۔وہ دیال سنگھ کالج سے کچھ فاصلے پر واقع ایک بس سٹاپ کا ذکر کیا کرتے تھے۔بس سٹاپ والی سڑک کا نام بھی مجھے اب یاد نہیں آرہا۔ لاہور تو جاتے ہی رہتے تھے حتٰی کہ سیالکوٹ سے فیصل آباد کے لئے روانہ ہوتے تو اپنے اس معمول کا پورا کرنے کے لئے100 سے زائدکلو میٹر کا اضافی سفر طے کرکے لاہور پہنچتے۔ جاتے ہی وہ اُس بس سٹاپ کی طرف روانہ ہوجاتے۔ پندرہ بیس منٹ اس بس سٹاپ پر گم صم کھڑے رہتے۔ کمال معصومیت سے بتاتے تھے ۔ ”زمانہ طالبعلمی میں، میں اس بس سٹاپ سے کالج کی بس پکڑا کرتا تھا۔ کچھ فاصلے پر وہ کھڑی ہوتی تھی۔ نظریں جھکائے۔ نظر ملتی تو دانستہ چرا لیتی۔میں موقع پاکر بات کرنے کی کوشش کرتا تووہ شرما کر ادھر ادھر دیکھنے لگتی۔“یہ مصرعہ ادا کر کے انہوں نے پرفغاں آہ بھری۔ ” وہ چہچہاتی بلبلیں جانے گئیں کہاں۔ وہ زمانہ رخصت ہوا۔ کئی اورزمانے گزرگئے۔میں اب بھی وہاں جاتاہوں اور بچھڑی ہوئی اُسی فضا کو محسوس کرنے کے لئے بس سٹاپ پر کھڑا رہتا ہوں ۔ “ وہ قریباً ساٹھ برس تک اِس رسمِ دلبری کو نبھاتے رہے۔

وہ جب بھی کوئی اچھا گیت سنتے۔ مشاہیر کی کوئی اچھی بات ذہن میں آتی یا ماضی کی کسی یاد میں کھوئے ہوتے تو اس کاتذکرہ کرتے ہوئے اختتامی لمحوں میں کچھ ایسے اداز سے آہ بھرتے کہ وہ ”آہ “ان کے دل کے سرد خانوں سے نکل کر فضا کو سوگوار کردیتی۔ ایسے میں جانے کیوں مجھے علم کے بوجھ تلے دبے بڑے بڑے نام ان کی سچی اور کھری محض ایک” آہ“ کے مقابل ماندنظر آتے۔اپنی اس بات کا اظہار میں کچھ دوستوں سے پہلے بھی کرچکا ہوں۔

مشاہیر کے انٹرویوز پر مبنی کتاب” ملاقاتوں کے بعد“ کا دیباچہ لکھنے کا مرحلہ آیا تو میں نے کہا۔” دو میں سے ایک دیباچہ آپ لکھ دیں۔“ میری بات مان لیتے تھے ۔ دراصل اُن کو سمجھنے کے لئے ایک خاص طرز کی مہارت درکار تھی اور میں شاید اس سے آشنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان سے دس بارہ سال کی ملاقات میں ہمارے بیچ ایک بھی تلخ جملے کا تبادلہ نہیں ہوا۔ خیر حسب ِامید دیباچہ لکھنے پر راضی ہوگئے۔ بہترین پیپرز کثیر تعداد میں منگوائے گئے۔ لکھنے کے لئے اعلٰی طرز کا قلم خریدا گیا۔وہ کچھ بھی لکھنے کے لئے اچھے کاغذ اور قلم کے قائل تھے۔ طویل دیباچہ انہوں نے قریباً تین ماہ میں میرے پاس بیٹھ کرہی مکمل کیا کیونکہ ایک نشست میں ایک ڈیڑھ صفحے سے زیادہ نہیں لکھتے تھے۔ بہت کم ایسا ہوا کہ وہ گھر سے کچھ لکھ کر لائے ہوں۔ کتاب چھپ کر آئی تو مسرت سے کہنے لگے کہ آپ کو نہیں پتا، آپ نے کتنا بڑا کام کیا ہے۔ اشاعت کے کچھ عرصہ بعدہی مجھ سے کہنے لگے۔ ” جب اس کتاب کا نیا ایڈیشن آئے تو دیباچے میں سے فلاں فلاں پیراگراف حذف کر لینا ۔ مجھ سے نجانے کس ترنگ میں تحریر ہوگئے ہیں۔ “ میں نے کہا۔”جی ضرور!۔“

کچھ لوگ محافل میں صرف اس لئے شرکت کرتے ہیں کہ وہ ان محافل کا حسن برباد کر کے رکھ دیں ۔ محفل کے مزاج اور موڈ کو سمجھے بغیر غیر متعلق باتیں کر کے وہ نادانستگی میں کیا ظلم کر جاتے ہیں انہیں پتا نہیں ہوتا۔کیفے دیوان کی نشستوں کے دنوں میں ایک رات ہم حسبِ معمول چھت پر بیٹھے تھے کہ دور سے ایک ایسا ہی” دوست“ آتا دکھائی دیا۔میں نے اسے دیکھتے ہی یہ مصرعہ کہا۔ ”تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا۔“ آفتاب صاحب کھلکھلا کر ہنس پڑے اور بولے۔ ”بڑا بر محل کہا ہے۔“ پھر کہنے لگے۔ دیوانِ غالب کے پرانے نسخوں میں مرگ کے بجائے لفظ ” موت “ لکھا ہوا ہے۔کسی کی بھی تصحیح کرنا ان کی فطرتِ ثانیہ تھی۔ مجھے جب اس طرز کی مدد درکار ہوتی تو میں ان سے رجوع کرتا تھا۔شایدمیں نے کتابوں سے اس قدر نہیں سیکھا جتنا میں نے ان کے ساتھ ہونے والی نشستوں میں پایا ہے۔بہت سے دوست اپنی تخلیقات کے حوالے سے ان سے اکتساب فیض کرتے رہے ہیں۔ لائل پور کہانی کے عنوان سے چھپنے والی دونوں کتابوں میں ان کا بھر پور حصہ شامل ہے۔

ہماری نشستیں کچھ عرصہ ناظم آباد کے بوہڑ چوک میں بھی ہوتی رہی ہیں۔اُن دنوں آفتاب صاحب ، حمید شاکر سے کسی بات پرخفا تھے۔ ہم وہاں بیٹھے تھے کہ حمیدشاکر بھی آگئے اور مجھے ایک طرف لے جاکر کہنے لگے۔آپ ہماری صلح کرا دیں۔میں نے کہا۔ ”کوشش کرکے دیکھ لیتے ہیں۔“میں نے حمید شاکر کو وہیں چھوڑا اور آفتاب صاحب کے پاس آکر کہا۔” آپ شاکر صاحب سے صلح کر لیں۔ وہ صرف اسی غرض سے اپنا کام چھوڑ کر آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مجھ سے جو بھی غلطی ہوئی ہے اس کی آفتاب صاحب سے معافی مانگ لیتا ہوں۔“

” نہ کبھی کسی سے معافی مانگی ہے اور نہ کبھی دی ہے۔“ حسبِ توقع ان کی آواز رعب دار تھی۔ اس بھاری بھر کم جملے نے میری امید کو ختم کردیا اور میں خاموش ہوگیا۔ میں نے حمید شاکر کو جو کچھ فاصلے پر موجود تھے، پاس بلا لیا۔ جانے کیوں کچھ دیر بعد میں نے پھر کہا۔ ” خان صاحب ! جانے دیں۔“ وہ بولے۔ ” اِس سے پوچھو! یہ پہلے ا یسی غلطیاں کیوں کرتا ہے۔“ مجھے لگا اب بات بن جائے گی۔ خیر میں اُن کے بیچ صلح کرانے میں کامیاب ہوگیااور دوسرے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد دیکھا۔ آفتاب صاحب اور حمید شاکر ہمیں بھول کر کسی بات پر ہنستے ہوئے بے تکلف گفتگو میں مصروف ہیں۔

معروف تو ایک طر ف وہ کم معروف بندوں کے بھی حسب نسب،اورذات برادری وغیرہ سے کمال درجہ کی آگہی رکھتے تھے۔نئے ملنے والے سے ابتدائی تعارف کے بعد بتا دیتے کہ آپ کے آباءکا تعلق کس علاقہ سے ہے۔شروع میں آپ کا قبیلہ کہاں آباد تھا اور اب پاکستان میں آپ کی برادری کن کن علاقوں میں مقیم ہے۔ یوں آنے والا شخص اپنے بارے میں نئی معلومات جان کر حیرت میں ڈوبا رخصت ہوتا۔ شو بز سے متعلق لوگوں کے بارے میں تو وہ کچھ زیادہ ہی جانتے تھے۔ مثلاً امیتابھ بچن کی ماں کچہری بازار فیصل آباد کی کس گلی اور کس مکان میں رہتی تھیں۔موسیقار روی فلم لائن میں آنے سے پہلے کیا کام کرتے تھے۔ ساحر لدھیانوی کی بہن فیصل آباد کے کس گاﺅں میں بیاہی گئی ہیں۔اوپی نیر شروع میں ایک سازندے کے طور پر لاہور کے کس ہوٹل میں ملازمت کرتے تھے۔ امروز فیصل آباد کی کس دکان میں پینٹنگ کا کام کیا کرتے تھے۔اس طرز کی ہزارہا باتیں۔۔۔ اور تو اور انہوں نے ہمارے محلہ ہرچرن پورہ نمبر1 سے ہی ایک ایسے موسیقار کو برآمد کر لیا جس نے انڈین فلم انڈسٹری کو بہت اچھے گانے دئیے۔ کہتے تھے کہ آپ کے محلہ کی گلی نمبر4میں وہ رہتے تھے۔ کچھ سال پہلے تک سیمنٹ کی دیوار میں کندہ اُ ن کی نیم پلیٹ موجود تھی۔میں نے اس گلی میں رہائش پذیر اپنے شاعر دوست نعیم احمد سے پتا کیا تو انہوں نے بتایا کہ اتفاق سے ہم اُسی گھر میں رہ رہے ہیں۔ وہ موسیقار، ہنس راج بہل تھے، جن کا ایک گیت انڈین فلم انڈسٹری کے ٹاپ ٹونٹی میں شامل ہے۔ فلم” ملن “سے لتا کا گایا گیت تھا۔ ”ہائے جیا روئے۔“

بچپن کے واقعات وہ بڑے اشتیاق اور جذبے سے سنایا کرتے تھے۔کہتے تھے۔قدرتی طور پر میری آواز اچھی تھی۔ہندو عورتیں مجھے اپنے گھر بلا لیتیں اور مجھ سے بھجن سنا کرتی تھیں۔ واپسی پر وہ مجھے پیسہ دو پیسہ تھما دیتیں یوں کافی پیسے جمع ہوجاتے تھے اور کبھی ساتھ میں مٹھائی اور بتاشے وغیرہ بھی دے دیتی تھیں۔جب گھر لوٹتا تو والدہ کو پتا نہیں کیسے پتا چل جاتا اور وہ ڈانٹنے لگ جاتیں۔
’’ کافرا۔ اَج فیر گا کے آیا ایں؟“

بتاتے تھے کہ بہتر زندگی گزارنے کے لئے ایک رہنما بات میں نے ایک سکھ سے سیکھی ہے۔ ہم کچھ حیران ہوئے کیونکہ سکھوں سے ایسی توقع عبث لگتی ہے۔ کہنے لگے۔ ” بچپن میں جب مجھے سائیکل سیکھنے کا شو ق پیدا ہوا تو میں کرائے کا سائیکل لے کر لدھیانہ کے ”پل جگراواں“پر چلا جاتا۔ پل سے اُترائی میں جاتی سائیکل یوں لگتی جیسے میں دنیا کی سب سے اچھی سواری کا لطف لے رہا ہوں۔ ایک دن میں جگراواں پل پر سائیکل کی گدی پر ساکت حالت میں بیٹھا تھا کہ ایک سکھ کا وہاں سے گزر ہوا۔

” کا کا ایتھے کیوں کھڑاں؟“ سکھ نے پوچھا۔
” او جی! سامنے گائیاں نیں ۔ لنگ لین تے فیرمیں سائیکل چلاناں۔“
” او چھڈ توں گائیاں نوں۔ پیڈل توں پیر چک لے ۔ رستہ آپی لبھ جائے گا۔“

بچپن کے ایک اور واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے تھے۔سکول کے زمانہ ان کے ایک ہندو استاد چرن داس ہوا کرتے تھے۔ کسی بات پہ ایک دن ماسٹر صاحب نے میری پٹائی کردی اس قدر ڈنڈے مارے کہ میری قوت برداشت ختم ہوگئی۔مجھے پتا نہیں کیا ہوگیا۔ میں نے شدید تکلیف کے عالم میں ماسٹر صاحب سے ڈنڈا چھینا ۔ جواباً ان کے جسم پر دو تین ڈنڈے برسا ئے اور پھر خوف کے عالم میںوہاں سے بھاگ گیا۔ جماعت کے لڑکے میرے پیچھے بھاگے لیکن میں صحت کے لحاظ سے بہتر تھا ۔ ویسے بھی جان بچانے والے کو ایسی حالت میں ایک اضافی طاقت عطاہو جاتی ہے۔ بھاگتا بھاگتا اُن کی حدود سے باہر آگیا۔ میں ڈر کے مارے گھر بھی نہیں گیا کیوں کہ ماسٹر صاحب ہمارے قریب ہی رہتے تھے۔ اُن کی شکایت پر میرے ساتھ جوسلوک ہونا تھا،مجھے اُس کا اندازہ تھا۔ بغیر ٹکٹ کے سیدھا جالندھر اپنے دودھیال پہنچ گیا۔ وہاں سے میں نے اطلاع بھجوادی کہ آپ چاہے مجھے جان سے ماردیں ۔ میں نے اب اُس سکول میں نہیں پڑھنا۔میں جالندھر میں پڑھنے لگا۔ چھ ماہ بعد گھر جانے کو دل بے تاب ہوگیا۔ٹرین میں بیٹھ کر اپنے شہر آگیا ۔ اسٹیشن سے پیدل ہی گھر کے لئے روانہ ہوگیا۔ گھرکے راستے میں شمشان گھاٹ آتا تھا ۔وہاںکچھ لوگ جمع تھے۔اُن کے قریب جا کھڑا ہوا۔آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے۔ کسی مردے کی آخری رسوم ادا کی جا رہی تھیں۔ساتھ والے آدمی سے پوچھا۔ ”کون مرگیا۔“ وہ کہنے لگا۔ ”ماسٹر چرن داس پرلوک سدھار گئے ہیں۔“مردے کے سر پر ہتھوڑا مارنے کا مرحلہ آیا۔ہتھوڑا مارا گیا اور چوٹ پڑتے ہی فضا میں چھوٹی چھوٹی ہڈیاں بکھر گئیں۔ ہڈی کا ایک ٹکڑا بہت بری طرح میرے ٹخنے پر آ کے لگا۔شدید تکلیف سے دوہرا ہو گیا۔وہ یہ واقعہ سناتے ہوئے بہت ہنسا کرتے اور کہا کرتے۔” ماسٹر چرن داس مر تو گیا لیکن جاتے جاتے مجھ سے اپنا بدلہ لے گیا۔“

علامہ محمد اقبال کی وفات کے وقت وہ آٹھ برس کے تھے۔ بتاتے تھے۔ علامہ صاحب کے دنیا سے چلے جانے کا اُن دنوں اِس قدر چرچا تھا کہ مجھے لگ رہا تھا کسی بہت بڑے انسان کا انتقال ہوگیا ہے ۔ اس کے علاوہ ذہن میں اور کچھ نہیں تھا۔ماضی کے مشہور فلمسٹار دھرمیندر ” گورنمنٹ ہائی سکول جگراواں میں اُن کے کلاس فیلو ہوا کرتے تھے۔

آفتاب صاحب! غالباً ساٹھ کی دہائی میںمعروف فلم ڈائریکٹر انور کمال پاشا کے اسسٹنٹ بھی رہ چکے تھے۔اس زمانے میں فلم سٹار منور ظریف اور چنگیز ی اُن کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ بتایا کرتے تھے کہ منور ظریف کی کرسچین خواہرِ نسبتی ”جوائس “کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت انہوں نے محدود مدتی شادی بھی کی تھی۔ مزید یہ بات کیا کرتے تھے کہ چنگیز ی فلم شعلہ اور شبنم کا گیت ” جیت ہی لیں گے بازی ہم تم۔“ اکثر گایا کرتے تھے اور بہت سر میں ہوتے تھے ۔ میں نے منور ظریف اور چنگیزی کو نشے سے باز رکھنے کے لئے بہت جتن کئے لیکن انہوں نے نشہ نہیں چھوڑا ، زندگی چھوڑ دی ۔۔آفتاب صاحب نے انور کمال پاشا کے ساتھ دو فلمیں اسسٹ کیں۔ بتاتے تھے کہ ایک دن پاشا صاحب نے مجھے بلایا اور کہنے لگے۔” دیکھو آفتاب!۔“انہوں نے انگلیوں سے اپنی قیمتی شرٹ کے کالر کو بانکپن سے ہلایا۔” فلم انڈسٹری میں مجھ جیسے رئیس رہ سکتے ہیں یا پھر بھانڈ اور دَلال۔۔۔ تمہارے جیسے لوگوں کی یہاں پہ کوئی جگہ نہیں ہے۔“پاشا صاحب کی یہ بات میری سمجھ میں آگئی اور اس دن کے بعد میں نے فلم اسٹوڈیوز کا رخ نہیں کیا۔

غلام حیدر وائیں کا شمار بھی ان کے دوستوں میں ہوتا تھا۔ وائیں جب وزیرِ اعلٰی پنجاب بنے تو انہوں نے آفتاب صاحب کو از راہِ محبت ایک پلاٹ کے پیپرز دئیے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر پیپرز واپس کردئیے کہ وہ پلاٹ لینے کے لئے تو سیاست میں نہیں آئے۔

کتاب ”ملاقاتوں کے بعد “کی اشاعت کے بعد دوسری بے شمار فون کالز کے علاوہ اسلام آباد سے پی ٹی وی کے ایک انجنئیر سیدطارق حسین کا فون بھی آیا۔کہنے لگے ۔” آپ نے فیصل آباد جیسے صنعتی شہر میں رہ کر اتنا بڑا کام کیا ہے جو اسلام آباد اور لاہور جیسے بڑے شہروں کے لوگ بھی نہ کرپائے۔ میں نے اپنے تمام حلقہ احباب سے اس بات کا برملا اظہار کیاہے اور انہیں شرم کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے ۔ “خیر توصیفی جملوں کے بعد وہ کہنے لگے ۔”آپ سے ملنے کی خواہش ہے۔ بتائیے کب آجاﺅں۔“ میں نے کہا۔ ” جب آپ کا دل چاہے۔“ وہ کہنے لگے ” پھر میں آج ہی آرہا ہوں اپنے ایک اسسٹنٹ کے ساتھ۔ شام چھ بجے اسلام آباد سے روانہ ہوں گا اور رات دس بجے کے قریب آپ سے ملاقات ہوگی۔“ میں نے آفتاب صاحب کو اُن کی آمد کے متعلق بتایا۔انہوں نے کہا کہ انہیں ” شیبا ریسٹورنٹ اقبال سٹیڈیم میں بلالیں۔“ ساڑھے دس کے قریب طارق صاحب آگئے۔ ہم پہلے سے منتظر تھے۔ رسمی دعا سلام کے بعد فوراً ہی فلمی طرزکا موضوع چھڑ گیا۔ کھانے کے بعد ہم بارہ بجے کے قریب اپنے آفس چلے آئے۔ گفتگو شروع ہوگئی اور طارق صاحب کئی سوالوں کے ساتھ میدان میں اتر آئے۔ آفتاب صاحب فلم سے متعلق سوالوں کے جوابات ماضی سے ڈانڈے جوڑتے ہوئے اس قدر وضاحت اورروانی سے دے رہے تھے جس سے تدریجاً طارق صاحب کی مرعوبیت بڑھتی جارہی تھی ۔ فلم میں جو اداکار ایک سین میں بھی آیا ہے اُس پر بات ہورہی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ہیرا منڈی لاہور کی جو لڑکیاں فلم لائن میں آئیں انہوں نے کیسے اپنی بقاکی جنگ لڑی۔ کن وڈیروں اور سیاست دانوں نے اُن سے یا اُن کی اولادوں سے شادیاں کیں۔ منٹو اور بیدی نے کن فلموں میں کام کیا ہے۔ جس فنکار نے زندگی میں صرف ایک دو گیت گائے ہیں وہ آگے کیوں نہیں گا پایا۔ساحرپاکستان سے کن حالات کی وجہ سے بھاگے۔مدن موہن کی دھنوں پر عربی موسیقی کی چھاپ کیوں ہے؟

خیر ساری رات اِس طرح کی باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے شروع میں کچھ حصہ لیا جب گیم ہاتھ سے پھسلتی محسو س ہوئی تو لاتعلق ہوکر اُن کی باتیں سننے میں ہی عافیت جانی۔آفتاب صاحب کے ساتھ ”برپا“ محفلوں میں قریباً ایسا ہی ہوتا تھا۔ لوگ اُن کی تجربے اور مطالعے سے آراستہ و پیوستہ بلیغ گفتگو صرف سننے پر خود کو مجبور پاتے تھے۔ ایک طرح سے” شامل باجے“ بن جاتے تھے البتہ میں نے اقبال فیروز اور کبھی کبھی ریاض مجید کو اُن کے ساتھ برابری کی سطح پر علمی بحث و مباحث کرتے ہوئے دیکھا۔۔۔ صبح کے آٹھ بج گئے تھے اور طارق صاحب سے ان کی غیر مختتم باتوں کا سلسلہ جاری تھا ۔ رات بیت جانے کا احساس تب ہوا جب سورج کی کرنیں باقاعدہ کمرے کے اندر بھی آگئیں۔ مجھے یقین ہے اگر اس روز کسی وجہ سے سورج نہ نکلتااور وہ رات کسی طرح سے چالیس پچاس گھنٹوں کی بھی ہوجاتی تو آفتاب صاحب کی گفتگو شاید ختم نہ ہوتی۔طارق صاحب کی پی ٹی وی میں رات کی ڈیوٹی تھی اس لئے وہ صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب اجازت لے کر چلے گئے۔ ۔۔کچھ دن پہلے طارق صاحب کا تعزیتی فون آیا۔کہنے لگے۔ ”جاویداقبال! ہمیں آفتاب صاحب کا اب نعم البدل نہیں ملے گا۔“ ان کی آواز میں افسردگی تھی۔

آفتاب صاحب کی بے پناہ فصاحت و بلاغت کا راز میں نے ایک بار پوچھا۔ کہنے لگے۔ ”میں جو کچھ بھی ہوں اس میں میری والدہ کی تربیت کا بہت دخل ہے وہ اپنے وقت کی گریجویٹ تھیں۔ کہتی تھیں۔” اپنی سے بڑی عمر کے عاقل بالغ لو گوں میں بیٹھا کرو اور اُن کی باتیں سنا کرو۔خود کچھ نہ بولو۔“ میں نے اِس بات پر عمل کیا اور اپنی عمر کے پہلے تیس پنتیس سال میں نے بڑے لوگوں کو خاموشی سے سننے میں گزارے ہیں۔“ ۔۔۔ایک بار ہم لاہور میں پرانی انارکلی کے ایک چائے خانہ کے باہر کرسیاں ڈالے بیٹھے تھے۔ اُس دکان پر شہر کے شاعر و ادیب ہر وقت دیکھے جاسکتے ہیں۔ہم عالم خان کے ساتھ مصروفِ گفتگو تھے ۔ ہم سے کچھ آگے ایک اور ٹولی بیٹھی تھی۔ ایک سفید بالوں والے دہرے بدن کے آدمی بڑی پُر مغز اور مدلل علمی گفتگو کررہے تھے۔ ہم غیر ارادی طور پر اُس طرف متوجہ ہوگئے۔ عالم خاں کہنے لگے۔” یہ لاہور کے ”رانا صاحب ہیں۔ “

اُن کا معمول تھا کہ گھر سے صبح دس بجے کے قریب کسی نہ کسی دوست سے ملنے سائیکل پر نکل پڑتے۔ ایک شام میرے پاس آئے تو میں نے بات شروع کرنے کےلئے یوں ہی پوچھ لیا۔ ”گھر سے کب نکلے تھے۔ “

” ساٹھ سال ہوگئے ہیں گھر سے نکلے ہوئے۔“ انہوں نے آہ بھر کر جواب دیا۔ اُن کی باتیں کثیر الاتعداد ماہ سال پر مبنی ہوتی تھیں۔گرمی کا موسم تھا۔میں نے آم پیش کئے۔ کہنے لگے۔” آم کھائے ہوئے چالیس سال ہوگئے ہیں۔“ مچھلی اور بڑے گوشت کے ساتھ بھی کئی دہائیوں سے بائیکاٹ تھا۔پان کھانے والے کو سختی سے منع کرتے تھے۔بتاتے تھے کہ پان کا پتہ بہت گرم ہوتا ہے۔ پچھلے زمانہ میں کسی کو شدید اندرونی چوٹ لگ جاتی تو متاثرہ حصہ پر پان کا پتہ باندھا جاتا تھا۔

جب سے میری اُن سے شناسائی ہوئی تھی میں نے ان کو مالی مشکلات میں گھرے دیکھا۔بہت سے دوست اُن سے ملتے تھے۔ سارے زمانے کی باتیں کرتے ۔ اکتساب فیض کرتے لیکن عملاً اُن کی اُس خاص مشکل کا معمولی بھی مداوا نہ کر سکے۔ایک بار انہوں نے مجھے سیالکوٹ سے خط لکھا کہ کچھ روپوں کی فوری ضرورت ہے۔ خط لکھنے کی روایت سے وہ آخری عمر تک جڑے رہے۔ خط منتخب لفظوں سے سجا ہوتا اور ساتھ میں وہ جوابی لفافہ بھی ضرور بھیجتے۔عموماًخطوں میں وہ حال احوال پوچھتے اور اپنے فیصل آباد آنے کے پروگرام سے آگاہ کرتے۔انہوں نے متذکر ہ بالا خط میں لکھا ۔” اگر آسانی سے روپوں کا بندوبست ہوجائے تو منی آرڈر کر دینا وگرنہ اﷲ کارساز ہے۔“ایسے میں مجھے پھر منٹو یاد آگئے۔قیامِ پاکستان سے قبل منٹو اور فلم سٹار اشوک کمار گہرے دوست تھے۔تقسیم کے بعد منٹو لاہور آگئے۔ منٹو اشوک کمار پر لکھے گئے خاکہ میں کہتے ہیں کہ لاہور آنے کے کچھ سالوں بعد ایک دن اچانک ہی مجھے اشوک کمار کا بھیجا ہوا 500 روپے کا منی آرڈر ملا۔ میں نے خط کے ذریعے اشوک کمار سے پوچھاکہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ مجھے پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔ جواب میں اشوک کمار نے کہا کہ آپ جیسے لوگوں کو ہر وقت ہی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آفتاب صاحب کا معاملہ بھی کچھ ایسا تھا۔میں اُن کی بہتر ی کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا لیکن افسوس ایسا نہیں کر پایا۔اس سلسلے میں ، میں نے ریاض مجید سے بھی بات کی۔ ” سر! کچھ سوچیں ! اِس عمر میں وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ انہیں مسائل کا سامنا ہے۔ میں بھی کچھ کرنے کی کوشش کرتاہوں۔“

ریاض مجید کبھی کسی کو مایوس نہیں کرتے۔کہنے لگے۔ ”اچھا!کچھ کرتے ہیں۔“دلی میں ایک بار ہم ایک ہندو کی دکان پہ شاپنگ کر رہے تھے تو کسی بات پراُس ہندو بنئے نے کہا۔” ہم میٹھی بات تو کر سکتے ہیں، گڑ نہیں دے سکتے۔“ ریاض مجید بھی میٹھی باتوں سے بہت کام لیتے ہیں۔۔۔کافی دن تک ریاض مجید سے ملاقات نہ ہوسکی۔ خیر! ایک شب کیفے دیوان کی نشست میں تشریف لے آئے۔حضرت عمررضی اﷲعنہ اپنے دور حکومت میں دو طرح سے لوگوں کی مدد فرماتے تھے۔ چھپا کر دیتے تھے اور بھری بز م میں بھی عطا کرتے تھے۔ بھری بزم میں اسلئے کہ دیکھنے والوں کے اندر نیکی کی ترغیب جنم لے۔خیر نشست کے اختتام پر بھری بزم میں ریاض مجید نے کچھ روپے آفتاب صاحب کی نذر کردئیے۔ ریاض مجید کی زندگی میں جب بھی کوئی ایسا نیک موقع آیا ہے وہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے عمل کے دوسرے حصے کو اپناتے نظر آئے ہیں۔

اُنہی دنوں ایک شب میں کیفے دیوان میں کچھ دیر سے پہنچا ۔ آفتاب صاحب پہلے سے موجود تھے اور کیفے کے باہر کرسی ڈالے ہمارے منتظر تھے۔کچھ دیر بعد بتا نے لگے کہ ابھی ایک بندہ میری طرف اشارہ کرکے دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ ” یا ر میں تو سمجھا تھا کہ یہ کوئی ریڑھی والا ہے لیکن یہ تو بہت پڑھا لکھا ہے۔“ اُس نے یقینی طور آفتاب صاحب کی باتیںسنی ہونگی کیونکہ اُن کی آواز دور تک جاتی تھی۔ کہنے لگے میں نے اُسے پاس بلا لیا اور کہا۔ ” تمہاری دونوں باتیں غلط ہیں ۔ نہ تو میں ریڑھی والا ہوں اور نہ ہی پڑھا لکھا۔“

ایک روز میں نے ان سے کہا۔” آپ کے بھائی ارشد جاوید بھی فلم انڈسٹری کے بارے میں بھر پور معلومات رکھتے ہیں۔ آفتاب صاحب کی اپنے بھائی سے نظریاتی طور پر برس ہا برس سے ناراضی تھی لیکن یہ بات سن کر کہنے لگے۔” اُس کی تربیت میرے ہاتھوں جو ہوئی ہے۔“ بات کوئی بھی ہوتی، اپنے ایک خاص ڈھب سے پیش کرتے تھے۔ ارشد جاوید نے یکے بعد دیگرے دو شادیاں کیں ۔ قدرت کی مرضی کہ اُن کی دونوں بیویاں ا نتقال کر گئیں۔ آفتاب صاحب! ایک دن میرے پاس آئے۔ کہنے لگے۔ ”آج میں ارشد جاوید کو پیغام دے آیا ہوں کہ اب تیسری شادی کا نہ سوچے۔قبرستان میں اب کسی اور قبر کے لئے جگہ نہیں ہے۔“

وہ ذاتی طور پر تو مالی معاملات کی وجہ سے غیر متوازن زندگی گزار ہی رہے تھے لیکن ایسے میں بھی وہ مستحق بندوں کا خاصا خیال رکھتے تھے۔ذاتی استعمال کی بہت سی اشیاءوہ ضرورت مند بندوں میں تقسیم کردیتے تھے۔اگر کسی کی مدد کرنے میں خود کو قاصر پاتے تو منتخب دوست احباب کو مدد کے لئے کہتے تھے۔فلاکت زدہ بندے کی پریشانی کو وہ سنجیدگی سے لیتے تھے۔۔۔ جب بھی میری اُن سے فون پر بات ہوتی تو آخر میں وہ کہتے ۔ بشیرخان چوکیدار کو سلام کہہ دینا۔ انہوں نے فون پر کبھی کسی معروف بندے کو سلام نہیں بھجوایا۔ محفل میں کبھی کہہ دیتے ۔ کھانے کے لئے فلاں چیز منگوائیں۔ مطلوبہ چیز آنے پر پہلے دوسروں میں تقسیم کرتے اور آخر میں اپنے لئے کچھ بچا لیتے۔

اُن میں کچھ بشری کمزوریاں بھی تھیں۔سب سے بڑی یہ کمزوری کہ وہ دوسروں کو جلد ناراض کردیتے تھے ۔ شدت پسندطبع اور بلندآواز کے کھردرے پن کی وجہ سے دوست اُن سے نالاں رہتے تھے مگر وہ اپنی کسی غلطی میں بھی مخلص ہو تے تھے۔ اُن کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ایک خاص طرز کی مہارت درکار تھی۔ میں شاید یہ راز جان گیا تھا ، اس لئے دوستی کے دس بارہ سالوں میں ہمارے بیچ ایک بھی تلخ جملے کا تبادلہ نہیں ہوا۔وہ ناریل صفت تھے ، باہر سے سخت لیکن اندر سے نرم و گداز اور خوشبو سے لبریز۔۔۔

مجھ سے ایک دو بار انہوں نے کہا۔”جب میں مروں تو خواہش ہے کہ کسی کو بتائے بغیر چپکے سے گدھا ریڑھی پر ڈال کر قبرستان پہنچا دیا جائے۔“ اُس وقت وہ شاید غالب والی اُس کیفیت سے گزر رہے ہوتے ۔ ” اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو۔“ وہ تیزی سے ناپید ہوتی ہوئی اُس نسل کے نمائندہ تھے جنہوں نے تقسیم ہندوستان کو اپنے پورے شعور میں دیکھا اور جس کے اثرات سے وہ ساری عمر نکل نہیں پائے۔

واقعات کے بیان میں زمانی ترتیب نہیںرکھ پایا۔اِس غلطی پر معافی نہیں چاہوں گا ، اس لئے کہ یادیں غیر مہذب ہوتی ہیں۔ پتا نہیں کب کونسی یاد ، دوسری یادوں کو پیچھے دھکیلتی ہوئی آ پ کے ذہن پر قابض ہوجائے اوربے بسی کے گناہ پر کوئی فردِجرم عائد نہیں ہوتی۔

ساحر لدھیانوی کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ ان کے پاکستان سے چلے جانے کے بعد یہاں کے کچھ اہل دانش اس بات کا دعویٰ کرنے لگے کہ ساحر ان کے قریبی دوست تھے لیکن حقیقت میں ساحر کے جاننے والے تو بہت تھے لیکن دوست کوئی بھی نہیں تھا۔

ہم بھی ان کے دوست نہیں تھے اور شائد صحیح طرح سے انہیں ۔۔۔۔جان بھی نہ پائے!
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 278849 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.