ملک خداداد میں الہ دین کے فسانے کا جن، اس طرح بوتل سے
باہر نکل آیا کہ اُسے پھر سے بوتل میں بند کرنا، خود الہ دین کے بس میں بھی
نہیں رہا، پہلے جو آندھیاں تھیں، وہ بے پناہ جھکڑ بن گئیں، جو چنگاریاں
تھیں، وہ شعلہ ئ جواّلہ میں تبدیل ہوگئیں، پہلے جو دریائے پُرشور تھے، وہ
بے پناہ سیلاب کی طرح اُمڈ پڑے، جو تبدیلی کے دھماکے کئے تھے انہوں نے ارض
پاش زلزلوں کی صورت اختیار کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے، سارا ملک ان جھکڑوں
اور سیلابوں، ان شعلوں اور زلزلوں کے نرغہ میں اس طرح آگیا کہ پھر نہ کسی
کی عزت ِ نفس محفوظ رہی، نہ جان کا تحفظ رہا نہ مال کا، شرافتیں لٹ گئیں،
نظم و نسق تہ و بالا ہوگیا، اطمینان و سکون عہد رفتہ کا فسانہ بن گیا، ان
تمام قیامت فراموش ہنگاموں میں جس نے اپنے ہوس و حواس کھوئے نہ دماغی توازن
بگڑنے دیا وہ (نظریہ بظاہر) نقار خانے میں طوطی کی طرح چلاتا رہا کہ پاگلو!
سوچو ، جو تم اپنے ہاتھ سے تباہیاں لارہے ہو، یہ کس کی تباہیاں ہیں ؟۔ وہ
کون ہیں جن کی بربادیوں کا تما شا ساری دنیا دیکھ رہی ہے اور جن کی تباہیوں
پر دشمن کے گھروں میں گھی کے چراغ جلائے جارہے ہیں، اپنی مجنونانہ حرکات کو
ذرا روکو اور سو چو کہ۔۔
اے چشم ِ اشکبار ذرا دیکھ تو سہی
یہ گھر جو بہہ رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو
کہتے ہیں کہ انسان کی تمدنی زندگی کا آغاز آج سے قریبباََ 6 ہزار برس پہلے
ہوا، ارباب ِ علم و تحقیق انسانی تاریخ کے اس چھ ہزار سالہ دور کے متعلق جو
کچھ کھوج لگاسکے ہیں، اس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اگرچہ اس کی تاریخ
خوں ریزیوں اور فساد انگیزیوں کی ایک مسلسل داستان ہے لیکن جس انداز کی
تباہی موجودہ زمانے میں رونما ہوئی ہے، اس کی مثال اس سے پہلے کہیں نہیں
ملتی، اس سے پہلے جو تباہیاں آئی تھیں، ایک تو وہ ایک خاص خطہ ئ زمین تک
محدود ہوتی تھیں اور دوسرے ان کے نتائج و عواقب اتنے دوررس ہی ہوتے تھے،
عصر ِ حاضر میں وسائل رسل و رسائل ہتھیلی پر ٹک چکا کہ جو آگ کسی ایک خطہ ئ
ارض کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی تھی، اب تو شاید یہ شعلے ابھر کر اجرام ِ
فلکی کو بھی محیط ہوجایا کریں گے، دوسری طرغ ان شعلہ خیزیوں اور شررباریوں
کے انجام و عواقب وقتی اور ہنگامی نہیں ہوتے، یہ آنے والی نسلوں تک مسلسل
پھیلتے چلے جاتے ہیں ۔
اس وقت سوال مسائل پر لڑنے اور الجھنے کا نہیں، سوال زندگی کا ہے،زندگی
کچلی جا رہی ہے، جب زندگی ہی نہ ہوگی تو مسائل کس کام آئیں گے، زندگی، صحیح
زندگی سب سے بڑا انسانی مسئلہ ہے، مفکرین عالم کے سامنے حقیقتاََ صرف یہی
ایک سوال ہے کہ ان مسائل سے کیسے نکلا جائے، ان کے سامنے دور ایک ایسا
سمندر ہے جس کا ساحل کسی کو دکھائی نہیں دے رہا، تجربہ بتا رہا ہے کہ ہمارے
ہاں فکر وعمل کا جو اضطراب انگیز اور مایوس کن انتشار پایا جاتا ہے اور جس
کی وجہ سے ہماری کشتی ایک قدم بھی ساحل ِ مقصود کی طرف بڑھنے نہیں پاتی، اس
کی بنیاد ی وجہ اگر تلاش کی جائے تو وہ اہل پاکستان کی مسلسل خاموشی ہے،
خموشی کے دریا میں کچھ اس طرح غریق ہوئے ہیں کہ انہیں آنے والے طوفانوں میں
اپنے بھی غرق ہونے کاجیسا کوئی ڈر باقی نہ رہا ہو۔ بادی ئ النظر ایسا لگتا
ہے کہ جیسے انہیں اپنے حق کے حصول کا طریقہ ہی نہیں معلوم، یہ ابہام، قوم
کے جاہل (ان پڑھ) طبقہ تک ہی محدود نہیں،اس کا تصور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ
کے ذہن میں بھی واضح ہیں، الا ما شا ء اللہ، جن لوگوں کے ذہن میں یہ جذبہ
موجود تھا، وہ رفتہ رفتہ دنیا سے چلے جارہے ہیں اور آنے والی نسلوں کی
تعلیم و تربیت جس نہج سے ہو رہی ہے۔ اس میں اس تصور کی اہمیت ہی کا کسی کو
احساس نہیں۔اللہ کرے کہ ہمارے یہاں کے سیاست کے علمبرداروں اور اجارہ داروں
کی سمجھ میں یہ نکتہ آجائے کہ اگر مملکت کی بنیاد ہی کھوکھلی ہوگئی تو
حکومت کی وہ کرسیاں کہاں رہیں گی، جن کی چھینا چھپٹی کے کھیل کو وہ اپنی
سیاست کا محور بنائے ہوئے ہیں۔
قوموں کے نزدیک ’جنگل کا قانون‘ ہی نہج زندگی ہوتا ہے یعنی اس میں ہر طاقت
ور کو حق حاصل ہوتا ہے کہ کمزور کا چبا ڈالے، اسکے برعکس اگر ایسا نظام
حیات ہو جس میں مظلوموں کی حفاظت اور کمزوروں کی مدافعت ہوسکے، وہ لوگ دنیا
میں عدل کے محافظ اور انصاف کے پاسبان بن کر جیتے ہیں۔بد قسمتی سے مملکت کی
کشتی بھیانک گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، اس وقت کشتی میں ایسے لوگوں کا وجود
جو چپکے چپکے کشتی میں سوراخ کرتے جارہے ہیں، خوف ناک تباہی کا موجب ہے، اس
لئے ایسے لوگوں کو جس قدرممکن ہو کشتی سے الگ کردینا چاہیے، اس مسئلہ میں
اگر مزید تغافل ہوتا گیا تو وہ ملک و قوم کے لئے ایسے نقصان کا باعث ہوگا
جس کی تلافی بمشکل ہوسکے گی۔ مستقبل کا مورخ جب تاریخ پاکستان پر نگہ ئ
بازگشت ڈالے گا تو اسے ایک حقیقت نمایاں طور پر نظر آئے گی، وہ دیکھے گا کہ
بعض سیاسی جماعتوں نے ہر روز ایک نیا فتنہ، ہر دن ایک نیا شوشہ اور خلفشار
پیدا کرایا کہ سارے ملک میں پراپیگنڈا کی طرح آگ پھیلا دی، اخبارات و سوشل
میڈیا میں بھرمار، سرگوشیاں اور نامعلوم کن کن حربوں سے ملک کے سکون میں
ارتعاش برپا کیا، اس شورش انگیزی کے پیچھے مقاصد کیا ہیں۔ان مضمرات کے پیش
نظر ضروری سمجھتا ہوں کہ ملک کے سنجیدہ طبقہ کی بالعموم اور ارباب ِ نست و
کشاد کی بالخصوص توجہ اس جانب مبذول ہوکہ اگر عوام کے تفکرات و تحفظات کا
تدارک ابھی سے نہ کیا گیا تو اس کے نتائج کس قدر مضر ہوسکتے ہیں شائد اس کا
تصور بھی ہمارے خام و خیال میں نہیں۔ہم اہل پاکستان نے اپنے مسائل کے حل کی
طرف سے جو مجرمانہ تغافل برتا ہے اس کے نتیجے سے قوم کی جداگانہ ہستی کا
جواز و وجوب کا احساس گم ہورہا ہے، اگر یہ سلسلہ کچھ عرصہ اور اسی طرح جاری
رہا تو یہاں اس آئیڈیالوجی کا تصور ہی ناپید ہوجائے گا جس پر مملکت پاکستان
کی عمارت استوار ہوئی ہے اور اس کا جو نتیجہ ہوسکتا ہے وہ ظاہر ہے۔
Thanks & Regards
|