وزیر اعلیٰ محمود خان کو الائی میں خوش آمدید

وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ محمود خان پچیس نومبر کو وادی الائی کا ایک روزہ دورہ کر رہے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ پچھلے کچھ عرصے سے وزیر اعلیٰ نے تواتر کے ساتھ صوبے کی مختلف علاقوں کے دورے کیے اور وہاں پر بڑے بڑے منصوبوں کے اعلانات بھی کیے ہیں۔

پاکستانی سیاسی تاریخ کی روایت رہی ہے کہ جب بھی کوئی سرکردہ شخصیت کسی علاقے کا دورہ کرنے جاتی ہے تو بطور تحفہ علاقے کی خوشحالی کے لیے کچھ بڑے منصوبوں کا بھی پیکج دیا جاتا ہے۔

یقیناً وزیر اعلیٰ صاحب صوبے کے سرپرست ہونے کے ناطے الائی کے مسائل سے بے خبر نہیں ہوں گے اور اپنے اس دورے میں وہ ان مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات اٹھائیں گے۔

وادی الائی اس لیے بھی محمود خان صاحب کی خصوصی نظر کرم کی منتظر ہے کہ ماضی میں یہ خطہ شدت سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو سلوک مختلف ادوار میں اس وادی کے ساتھ روا رکھا گیا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہاں کے باسیوں نے ہمیشہ اس امید پہ تعمیری سوچ کو اپنائے رکھا کہ کبھی کوئی تو ان کے دکھوں کا مداوا کرنے آئے گا۔

آج وزیر اعلیٰ صاحب کو یہ موقع میسر آیا ہے کہ وہ اہل علاقہ کو یہ باور کرائے کہ وہ صوبے کے تیسرے درجے کے شہری نہیں بلکہ ان کا بھی صوبے کے وسائل پر اتنا ہی حق ہے، جتنا کہ پشاور، سوات، ایبٹ آباد یا مرادن والوں کا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ محمود خان صاحب جس پارٹی کے پلیٹ فارم سے ممبر اسمبلی منتخب ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں، اس کا منشور ہی امتیازی سلوک کا خاتمہ اور برابری کا پرچار کرنا ہے۔

الائی آج کے دور جدید میں بھی بنیادی انسان حقوق سے محروم ہے۔یہاں بطور مثال الائی کے چند مسائل کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔

اہم ضرورت اور بڑا مسئلہ تعلیم کا فقدان ہے۔ الائی میں جدید تعلیم تو دور کی بات، بنیادی تعلیم حاصل کرنے کی سہولت موجود نہیں۔ آج جب کہ کالجز کا یونین کونسل کی سطح پر بننا معمول کی بات ہیں، تحصیل الائی میں پہلی بار گورنمنٹ ڈگری کالج کا افتتاح چند روز پہلے اس حال میں کیا گیا کہ کالج کی عمارت کی تعمیر ادھوری ہے۔ لڑکیوں کے لیے ہائی اسکولز بھی علاقے کی ضرورت ہیں۔ اہل علاقہ بھی لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ علاقے کا ہر فرد یہ چاہتا ہے کہ بیٹوں کی طرح ان کی بیٹیاں بھی پڑھ لکھ کر معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں، لیکن ان کی یہ خواہش آج تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائی۔

تعلیم کی طرح صحت بھی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے، کہ صحت مند انسان ہی معاشرے کی بہتری کے لیے مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے تعلیم کی طرح اہل الائی صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق تحصیل سطح پر قائم سرکاری اسپتال میڈیکل اسٹاف اور طبی آلات کی کمی کے باعث نزلہ زکام کے علاج کی حد تک ہی الائی والوں کے کام آرہا ہے۔

بنیادی مراکز برائے صحت بھی علاقے کی آبادی کے تناسب سے ناکافی ہیں۔ ان سہولیات کی فقدان کی وجہ سے مریضوں کو ایبٹ آباد یا سوات لے کر جانا پڑتا ہے۔ جہاں علاج معالجے پر اٹھنے والے اخراجات سے زیادہ خرچہ مریض کو ان شہروں میں منتقل کرنے لیے کرایہ کی ادائیگی کی صورت میں کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ علاقے میں کاروبار کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر افراد کے لیے اتنا خرچ اٹھانا ممکن ہی نہیں ہوتا، اس لیے ان کے مریض سسک سسک کر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور لواحقین حکومتی بے اعتنائیوں کا رونا روتے رہ جاتے ہیں۔

آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور کہلاتا ہیں جہاں دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ مواصلات کے ذرائع بھی آئے دن بہتر سے بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ الائی مگر اس دوڑ میں بھی دوسرے علاقوں کا ہم پلہ نہیں۔ یہاں آج بھی گھر سے دور اپنے پیاروں سے بات کرنے کے لیے آپ کو سگنلز کی تلاش میں گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے اور انٹر نیٹ کی سہولت سے استفادے کے لیے شب بیداری کے علاوہ کوئی اور چارہ موجودہ نہیں۔

سڑکوں کی بات کی جائے تو کنڈ بنہ مرکزی سڑک کو اگر قاتل سڑک کہا جائے تو بے جا نا ہوگا۔ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ستر کی دہائی میں اپنی تعمیر سے لے کر آج تک جتنے حادثات اس روڈ پر پیش آئے صوبے کے کسی اور روڈ پر نہیں آئے ہوں گے۔ ان حادثات کے نتیجے میں ہونے والی اموات بے شمار ہیں اور بعض دفعہ ایک ایک گھر سے کئی جنازے ایک ساتھ نکلے۔ ان حادثات کی بڑی وجہ سڑک کا غیر ہموار اور تنگ ہونا ہے۔ اس سڑک کی تعمیر و توسیع اہل علاقہ کا سب سے بڑا مطالبہ رہا ہے لیکن اب تک یہ متعلقہ ذمہ داران کی نظروں سے اوجھل ہے۔ یاد رہے کہ تین اضلاع بٹگرام، شانگلہ اور کوہستان کو ملانے والی اس سڑک پر الائی ڈیم بھی واقع ہے۔ اور کنڈ کے مقام پر واقع پرانے بجلی گھر کو فعال کرکے علاقے میں بجلی کی ترسیل کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

اس سڑک کی تعمیر الائی میں سیاحت کے نئے دروازے کھول سکتی ہے۔ کیونکہ تعمیر کے بعد یہ بشام تا بنہ آپ کو مختصر وقت میں پہنچا سکتا ہے۔ الائی جانے والی باقی دو سڑکوں کی حالت بھی ابتر ہے۔ جو تھاکوٹ تا الائی جاتی ہیں۔

الائی کے بیشتر افراد دیار غیر یا وطن عزیز کے دیگر شہروں میں محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے میں لگے رہتے ہیں۔ چونکہ علاقے میں سردی کا موسم طویل ہوتا ہے، جس سے نمٹنے کے لیے ایندھن کی لکڑی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایل پی جی گیس کی بنسبت سستا ایندھن ہے۔ اب ظاہر ہے کہ طویل دورانیے کے لیے گیس جلانا اکثریت کے لیے ممکن ہی نہیں اس لیے لکڑی جلانا ہی واحد حل ہوتا ہے۔ لکڑیوں کے حصول کے لیے جنگلات کا ہی رخ کیا جاسکتا ہے لہذا حکومت کو اس سلسلے میں توانائی کے سستے اور متبادل ذرائع پر کام کرنا ہوگا تاکہ جنگلات کی کٹائی روکنے کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے ایندھن کے متبادل ذرائع فراہم کیے جا سکیں۔

الائی کے مسائل کا احاطہ شائد کسی ایک تحریر میں ممکن نہیں لیکن ہمیں امید اچھی رکھنی چاہیے کہ وزیراعلی خیبر پختون کا یہ دورہ وادی الائی کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا۔
Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 105008 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More