لکھیم پورکھیری اور پیگاسس معاملے میں یوگی و مودی کو پھٹکار

لکھیم پور کھیری قتل عام اور پیگاسس کی جاسوسی یہ دو معاملات فی الحال یوگی اور مودی کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ آئے دن انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے لکھیم پور معاملے کی۵ سماعتیں کرچکی ہے۔8؍اکتوبر تک آشیش مشرا کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا اس لیے عدالت نے پوچھا کہ ملزمین کو سمن کے جواب دینے کا موقع دیا جانے معمول ہے؟ اس پھٹکار کے بعدآشیش کی گرفتاری عمل میں آئی۔ 20 ؍اکتوبرکو 44 میں صرف 4گواہوں کے بیانات کو ٹال مٹول پر مہمول کیا گیا۔26؍ اکتوبر کو مجسٹریٹ کی موجودگی میں اضافی گواہوں کے بیانات درج کرنے کے لیے 10 دن کا وقت دیا گیا۔ 8؍ نومبر کو کو تفتیش سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئےجانچ توقع کے مطابق نہیں ہونے پر تشویش جتائی گئی اور 12؍ اکتوبر یوپی حکومت کے وکیل کی درخواست پر سماعت 15؍ تاریخ تک کا وقت دیا گیا ۔ اس سے عدالت کے کڑےرخ کااندازہ ہوتا ہے ۔

اتر پردیش سرکار کی ٹال مٹول حسبِ توقع ہے کیونکہ یوگی مہاراج کی کیا مجال کے امیت شاہ کے منظور نظر اجئے مشرا کے بیٹے کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھیں۔ فی الحال وہ برہمن رائے دہندگان کو ناراض کرنے کا خطرہ بھی مول نہیں لے سکتے کیونکہ اترپردیش میں دن بہ دن بی جے پی کی حالت پتلی ہوتی جارہی ہے۔ ڈویژن بنچ نے زیر سماعت مفاد عامہ کی درخواست پر حکومت کی ایس آئی ٹی جانچ کو ’ڈھیلا ڈھالا رویہ‘ بتاتے ہوئے کہا کہ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ اہم ملزمین کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدالت کے مطابق اس معاملے میں حکومت کی طرف سے دائر کی گئی رپورٹ میں گواہوں کے بیان درج کرنے کے علاوہ کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ریاستی حکومت نے اپنی صفائی میں کہا کہ اس معاملے میں شواہد سے متعلق لیب کی رپورٹ 15 نومبر تک آ جائے گی۔ اس پر عدالت نےیاد دلایا کہ اسے صرف 10 دن کا وقت دیا گیا تھا۔ صوبائی اپنی بے بسی بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا لیب کے کام کاج پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہے۔اترپردیش کی جانچ سے غیر مطمئن بنچ نے فردِ جرم داخل ہونے تک اس معاملے کی جانچ پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس رنجیت سنگھ یا راکیش کمار جین سے کرانے کا مشور ہ دیاجو یوگی سرکار کے گال پر کرارہ طمانچہ ہے۔

سپریم کورٹ کے جو تیور لکھیم پور کھیری معاملے میں نظر آئے وہی پیگاسس کی بابت بھی تھے۔ یہ سافٹ ویر بنانے والی این ایس او کی ویب سائٹ پر صاف لکھا ہے کہ اسے صرف حکومتیں خرید سکتی ہیں اور وہ اس کا استعمال دہشت گردانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے ہی کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کسی اور قسم کی جاسوسی کے لئے یہ سافٹ ویئر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی حکومت ایسا کرتی ہے تو وہ اپنے عوام کی حق تلفی اور کمپنی سے معاہدہ کی بھی خلاف ورزی کا ارتکاب کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورانِ سماعت کپل سبل نے پوچھا:‘ کیا حکومت طلبہ و اپوزیشن رہنماوں ، دانشوران اور سماجی کارکنوں کو دہشت گرد سمجھ رہی ہے‘ ؟ اس معاملے میں حکومت کی مجرمانہ خاموشی نے بے شمار سوال کھڑے کردیئے۔ کپل سبل نے اس جاسوسی کو’پرائیوسی، وقار اور جمہوری اقدار پر حملہ قرار دیتے ہوئے حکومت سے سوال کیا کہ اس کا ہارڈ ویئر کہاں رکھا ہے؟ حکومت نے اس بابت ایف آئی آر درج کیوں نہیں کرائی؟

استغاثہ کےان معقول سوالات کے جواب میں حکومت کے اڑیل رویہ کا اندازہ سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے جوابات سے لگایا جاسکتا ہے۔انہوں نے یہ بتانے سے صاف انکار کردیا کہ سرکار نے پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کیا ہے یا نہیں؟مہتا نےمحض 2؍ صفحات کے ایک مختصر سے حلف نامہ کے ذریعہ ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز پیش کردی ۔ چیف جسٹس کی بنچ کے ذریعہ اضافی حلف نامہ داخل کرنے سے انکار کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ حکومت کی جانب سے داخل کیا گیا مختصر سا حلف نامہ اس کا ’سوچا سمجھا جواب ‘ہے اور جو کچھ دیا گیا ہے وہ کافی ہے۔‘‘اس پر بنچ میں شامل جسٹس انیرودھ بوس نے وضاحت کے لیے دریافت کیا کہ ’’کیا ہم یہ سمجھیں کہ مرکزی حکومت اس سلسلےمیں اور کچھ نہیں کہنا چاہتی؟‘‘ تشار مہتا نے اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا کہ اس سے کسی کا کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے کہ آئی ٹی رولس 2009ء کے تحت نیشنل سیکوریٹی اور دہشت گردی کے تعلق سے کون سا سافٹ ویئر استعمال ہورہاہے یا کون سا نہیں۔

تشار مہتا نےعرضی گزار کی اس درخواست کو مستر د کردیا کہ حکومت ہند بتائے کہ کون سا سافٹ ویئر استعمال نہیں ہوا۔کوئی بھی ملک کبھی یہ نہیں بتائے گا کہ اس نے کیاسافٹ ویئر استعمال کیا اور کیا نہیں ورنہ جن کی نگرانی کی جارہی ہے وہ پیشگی احتیاطی اقدامات کرلیں گے۔مرکزی حکومت کے اس رعونت بھرے انکار پر سپریم کورٹ کا جواب تھا کہ ’’یہاں معاملہ مختلف ہے، کچھ شہری جن میں ممتاز شخصیات شامل ہیں، اپنے موبائل فون کے ہیک ہونے کی شکایت کررہے ہیں۔‘‘ مودی حکومت کی آناکانی پر چیف جسٹس این وی رامنا کی بنچ نے مزید کہا ہے کہ ’’گوکہ قانون عام شہریوں کی جاسوسی کا بھی اختیار دیتا ہے مگر اس کیلئے مناسب ضابطے سے اجازت ضروری ہے۔اس لیے متعلقہ محکمہ اگر حلف نامہ داخل کرے تواس میں کیا مسئلہ ہے؟‘‘ تشار مہتا کے جواب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کا جھنجھلاہٹ میں بدلنے والا خوف عدالت پر اثر انداز ہونے سے قاصر تھا۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے حکومت کو نظر ثانی کے لیے ایک ماہ کا موقع ملا مگر اس نے اسے بھی گنوادیاتو چیف جسٹس نےزچ ہوکرکہا ’’اب ہمیں تو کچھ کرنا ہی پڑےگا‘‘۔چیف جسٹس این وی رامنا نے تفصیلی حلف نامہ داخل کرنے سے مرکز کے انکار پر ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہمیں تفصیلی حلف نامہ درکارہے اوراسی لئے آپ کو وقت دیاگیاتھا اور اب آپ یہ کہہ رہے ہیں۔‘‘ یعنی قومی سلامتی کے عذرپیش کر رہے ہیں اس پر کورٹ کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں قومی سلامتی سے متعلق کچھ نہیں جاننا،مسئلہ یہ ہے کہ کچھ شہری یہ الزام لگارہے ہیں کہ ان کے فون ٹیپ ہوئے ہیں۔‘‘بات کو گھمانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ہم دیکھتے ہیں کہ کیا حکم جاری کیا جاسکتاہے۔‘‘ چیف جسٹس نے حکومت کے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’’ہم سمجھ رہے تھے کہ حکومت جوابی حلف نامہ داخل کرےگی جس کے بعد ہم اگلے قدم کے بارے میں سوچیں گے مگر اب صرف عبوری فیصلہ سنانے کا معاملہ ہی رہ گیاہے۔‘‘ حکومت اگر عدالت کےسخت موقف کا احساس کرکے اپنے رویہ میں لچک پیدا کرتی تو اس رسوائی سے بچ جاتی جو آج اسے ہو رہی ہے لیکن جن کےدماغ میں رعونت بھری ہو وہ زمین پر نہیں رہتے آسمان میں اڑتے ہیں اور جب دھڑام سے گرتے ہیں تب عقل ٹھکانےآجاتی ہے۔

پیگاسس جاسوسی معاملے میں جانچ کے لیے ماہرین کی کمیٹی تشکیل دینے میں تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا کہ کچھ اراکین نے نجی اسباب کی بنا ءپر کمیٹی میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اس بابت کتنی خوفزدہ اور وہ کس طرح ڈرا دھمکا رہی ہے۔ ویسے یہ اچھی بات ہے کہ ڈرپوک لوگوں نے پہلے ہی معذرت کرلی ورنہ وہ بیچارے سرکار کے خلاف کچھ کہنے کی جرأت کیسے کرتے؟بالآخر اس کی تفتیش کے لیے چیف جسٹس این وی رمن،جسٹس سوریہ کانت اور ہیما کوہلی کی بنچ نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس آر وی روندرن،سابق آئی اے ایس افسران آلوک جوشی اور سندیپ اوبرائے کی سربراہی میں سائبر اور فارنسک ماہرین کی تین رکنی تکنیکی کمیٹی کو تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا۔ آئی آئی ٹی ممبئی کے پروفیسر ڈاکٹر اشونی انل کے علاوہ ڈاکٹر نوین کمار اور ڈاکٹر پرباہرن پی تکنیکی کمیٹی کے ممبران ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے ذریعہ تشکیل کردہ یہ کمیٹی آئندہ آٹھ ہفتوں میں اپنی عبوری رپورٹ پیش کرے گی۔ عدالت نے مذکورہ کمیٹی کو بنیادی طور پر سات نکات پر جانچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس میں سب پہلا اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ کیا ہندوستانی شہریوں کے فون سے ڈیٹا، بات چیت یا دیگر انفارمیشن حاصل کرنے کے لیے پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا تھا؟ اور اس طرح کےاسپائی ویئر حملے کے شکار لوگوں یامتاثرین میں کون کون شامل ہیں؟ سپریم کورٹ نے حکومت سے یہ معلوم کرنے کی تلقین بھی کی ہے کہ سال2019 میں پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہندوستانی شہریوں کے وہاٹس ایپ ہیک کیےجانےکی خبریں آنے کے بعداس نے اس سلسلے میں کیا قدم اٹھائے ہیں؟ کیاحکومت ہند یا ریاستی حکومت یا ہندوستان کی کسی مرکزی یا صوبائی ایجنسی کے ذریعے پیگاسس اسپائی ویئر خریدا گیا ہے؟ تاکہ اسے ہندوستانی شہریوں کے خلاف استعمال کیا جا سکے؟

سپریم کورٹ نے پوچھا کہ کیاہندوستان کی کسی سرکاری ایجنسی کے ذریعےشہریوں پر پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا ہے، اور اگر ایسا ہوا ہے تو وہ کس قانون، ضابطہ، ہدایات، پروٹوکول یا قانونی عمل کے تحت کیا گیا تھا؟ کیا کسی گھریلوشخص یاادارے نے ہندوستانی شہریوں پر پیگاسس کا استعمال کیا ہے، اگر ایسا ہے، تو کیا اس کی منظوری تھی؟ اس کےعلاوہ کمیٹی کواپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق اس کیس سے جڑے کسی بھی دوسرےمعاملے پر غور کرکے اس کی جانچ کر نے کی اجازت دی گئی ہے۔ کسی بھی حکومت کےلیے یہ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے لیکن یوگی اور مودی کی ڈھیٹ سرکار ڈانٹ پھٹکار کی ایسی عادی ہوچکی ہے کہ اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ عوام میں شیر کی مانند دہاڑنے والےمودی اور یوگی عدالتِ عظمیٰ کےا ندر بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ مودی اور یوگی فی الحال عدالت کے شکنجے میں ایسے پھنسے ہیں کہ ان کا بچنا محال ہے۔


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449417 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.