آپ آج کے پاکستان کے حالات پر غور کیجئے اور دیکھئے، کیا
ہمارے معاشرے میں بعض عناصر ایسی روش پر تو گامزن نہیں جہاں نام نہاد طبقہ
ئ اعلیٰ کی سیرتوں میں ایلیٹ کا رنگ رنگا ہوا ہو، اوپر کے طبقے کی اس روش
زندگی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، اس کا فیصلہ اپنے دل سے کیجئے اور ضمیر کی
عدالت لگا کر اسباب کو سامنے لائیں کہ کیا عوام کے دلوں میں ان کا احترام
باقی ہے کہ بالکل اٹھ گیا ہے۔دنیا میں کوئی ایسی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جس
کے دلوں میں خواص کی تعظیم باقی نہ رہ جائے، آپ قانون کے ظواہر سے، قوت کے
زور پر منوا سکتے ہیں لیکن وہ شے جو قوم کو جان تک دینے کو آمادہ کرتی
ہے،صرف احترام اور عقیدت ہوتی ہے۔ آج اکثریت کے دلوں سے نام نہاد لیڈروں کا
احترام کس حد تک اٹھ چکا ؟ اس کا اندازہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے جسے نیچے سے
عوام میں گھل مل کر رہنے کا اتفاق ہو، عوام سے مراد صرف قوم کا سب سے نچلا
طبقہ ہی نہیں بلکہ وہ متوسط طبقہ بھی جو قوم کا دست و بازو کہلاتا ہے، اس
طبقے میں نہ صرف یہ کہ نام نہاد ’لیڈروں‘ کا احترام ہی باقی نہیں رہا بلکہ
ان کی تمسخر انگیز منافقانہ روشِ زندگی کی وجہ سے ان کے خلاف نفرت کے جذبات
بھی پیدا ہو رہے ہیں اور خود ان کے الفاظ کو ہی وہ مضحکہ خیز تصور کرنے لگ
گئے ہیں، نتیجہ اس کا یہ ہے کہ بعض نامی ’لیڈروں ُ کی وجہ سے قوم کی نگاہوں
میں قول وفعل کی قیمتی اقدار بھی قابل ِ نفرت تصورات قرار پاچکی ہیں۔
جو کچھ اوپر لکھا یہ ہمارے موجودہ حالات کا صحیح آئینہ ہے جس کا جی چاہے اس
میں اپنی صورت دیکھ لے۔ ہم جانتے بھی ہیں کہ جو کچھ وطن ِ عزیز میں غلط
ہورہا ہے اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتا، اس لئے ہم اس کا
احساس کرنے کے باوجود کہ حبشی آئینے میں اپنی کریہہ صورت دیکھ کر آئینے کو
پتھر دے مارا کرتے ہیں، نہایت ضروری ہے کہ اس آئینے کو قوم کے سامنے رکھ
دیا جائے، بدقسمتی سے ہماری قوم کی زندگی کے تمام نمایاں گوشوں پر آج نام
نہاد انقلابیوں کی پوری طرح سے منافقت مسلط ہوچکی ہے۔ نام نہاد لیڈروں کے
ساتھ ساتھ ان کے حواریوں کی اخلاقی قوت بھی بالکل بگڑتی جارہی ہے، اگر اسے
بروقت سنبھالا نہ گیا تو پھر اس کے سنبھلنے کی کوئی صورت نہیں رہے گی، اس
میں کوئی کلام نہیں کہ اس زمانے میں ملک کے دفاع پر جس قدر روپیہ خرچ کیا
جائے، کم ہے لیکن یہ حقیقت ہے جس پر تاریخ اور خود ہمارا زمانہ شاہد ہے کہ
جس قوم کا مورال قائم نہ رہے، اس میں دفاع کے اسباب و ذرائع کبھی کامیاب
نہیں ہوا کرتے۔اس صورت حال کے باوجود سب کچھ مایوس کن نہیں، یہ اندازہ ہی
نہیں بلکہ یقین ہے کہ قوم میں ایسے مخلص افراد کی کمی نہیں جو اس صور ت
حالات کو اسی طرح سے محسوس کررہے ہیں جس طرح لکھا گیا۔
قوم میں مخلص و باشعور افراد نہایت خلوص اور دیانت سے مضطرب اور بے قرار
بھی ہیں، وہ دل سے چاہتے ہیں کہ اس روش میں کسی طرح اصلاح ہوجائے، اس لئے
کہ پاکستان نہ صرف ان کی جان، مال، عصمت آبرو کی حفاظت گاہ ہے بلکہ ان کے
زدیک یہ ان کی حسین آرزوؤں کی تعبیر اور ان تصورات کی تجربہ گاہ بننے کا
امکان اپنے اندررکھتاہے جو ان کی زندگی کا آسرا ہیں، اس لئے وہ اس کے تحفظ
اور بقا کے لئے ہم سے بھی زیادہ بے تاب اور بے قرار ہیں لیکن ان کی یہ بے
تابیاں اِس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہورہیں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے
ہاں لوٹ مار کی وجہ سے عزت اور گراں قدری کے معیار بدل گئے ہیں، اس وقت اثر
اور عزت کا معیار صرف اضافی نسبتیں رہ گئی ہیں اور چونکہ یہ اضافی نسبتیں
لوگوں کو بہت سستے داموں ملی ہیں، اس لئے جن کی طرف یہ نسبتیں منسوب ہیں،
وہ کسی ذاتی قیمت کے حامل نہیں ہیں، آج حالت یہ ہوچکی کہ کوئی غریب یا ایسا
شخص جو بلند منصب پر فائز نہیں، کیسی ہی بلند پایہ بات کیوں نہ کہے، کوئی
شخص اس درخو اعتنا سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس کوئی دولت
مند یا صاحب منصب کتنی ہی گھٹیا بات کیو ں نہ کہے، چاروں طرف سے مرحبا اور
سبحان اللہ کے غلغلے بلند ہونے شروع ہوجاتے ہیں، نتیجہ یہ کہ آدمیت، وجہ
تکریم آدمی ہونے کے بجائے اضافی نسبتیں باعث تعظیم بن رہی ہیں، اس لئے بلند
پایہ بات کرنے والے غریب یا غیر منصب دار افراد یہ کہہ کر الگ ہو بیٹھے ہیں
کہ جب اس ریس میں ہماری اس آواز کی قیمت ہی کچھ نہیں تو ایسی آواز نکالنے
سے حاصل ہی کیا ہے۔
یہ ان کی بنیادی غلطی ہے، اگر حق کی آواز کہنے والا بھی اضافی آسروں کا
محتاج ہوجائے تو حق کا نام لینے والا باقی نہ رہے، پھر دوسری وجہ یہ بھی ہے
کہ اس قسم کی تڑپ اور خلش رکھنے والے افراد ملک کے مختلف گوشوں میں بکھرے
پڑے اورایک دوسرے سے بے خبر ہیں، اس لئے ہر شخص اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا
ہے، اگر وہ ایک دوسرے سے قریب ہوجائیں تو یہی قرب ایک دوسرے کی تقویت کا
باعث ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے سوچنے والے دماغ اور قوم کے مستقبل کے
تحٖفظ کا درد رکھنے والے دل بالآخر کب تک حالات کو صورت آئینہ دیکھتے جائیں
گے؟، کیا ان کے یک جا ہوکر متفقہ فکر سے کوئی عملی حل کے تلاش کرنے کی کوئی
صورت پیدا نہیں ہوسکتی؟، انہیں معلوم ہونا چاہے کہ جب بربادیوں کا سیلاب
آیا کرتا ہے تو وہ صرف انہی کے گھروں تک ہی محدود نہیں رہا کرتا جو ا ن
تباہوں کا باعث ہوتے ہیں۔سیلاب کی رو میں ہر ایک خس و خاشاک کی طرح بہہ
جایا کرتا ہے، میری ذاتی رائے میں اس قسم کے منتشر افراد میں سے ہر شخص
اپنی اپنی جگہ اس احساس کو دل میں لئے بیٹھا ہے لیکن خود پہل کرنے کے بجائے
اس انتظار میں ہے کہ کوئی اور شخص باہر نکلے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس انتظار
کی بالآخر کوئی حد بھی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ یہی کچھ سوچتے رہیں اور
بربادیوں کے سیلاب سر پر ہی آجائیں۔ |