مالی بدحالی کا شکار قومی کھلاڑی

دوہاکی اولمپئن افتخار احمد موچی ، جب کہ زاہد شریف تمغے فروخت کرنے پرمجبور ہیں
سابق کرکٹر ارشد خان ٹیکسی جب کہ سائیکلسٹ محمد عاشق رکشہ چلارہے ہیں

دو ہاکی اولمپئن افتخار احمد موچی ، جب کہ زاہد شریف تمغے فروخت کرنے پرمجبور ہیں
سابق کرکٹر ارشد خان ٹیکسی جب کہ سائیکلسٹ محمد عاشق رکشہ چلارہے ہیں
دنیا بھر میں قومی ہیروز کی قدر کی جاتی ہے لیکن پاکستان واحد ملک ہے جہاں ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کے بعد انہیں یکسر فراموش کردیا جاتا ہے۔کھلاڑی بھی ایسے ہی ہیروز میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی نمایاں کارکردگی سے پاکستان کا مختلف کھیلوں میں نام روشن کیا لیکن ، ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں قطعی طور سے فراموش کردیا گیا۔کھیلوں سے علیحدگی کے بعد، نہ تو ان کے لیے کبھی امدادی میچز کا انعقاد کیاگیا اور نہ ہی ان کے لیے بعد از ریٹائرمنٹ کوئی مشاہرہ مقرر کیا گیا۔ذیل میں چند ایسےکھلاڑیوںکا تذکرہ پیش کیا جارہا ہے، جن میں سے بعض مالی تنگ دستی سے پریشان ہوکر تمغے بیچنے جب کہ کچھ نچلےدرجے کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔

سابق کرکٹر ارشد خان
کرکٹ کے کھیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں دولت کا حصول بہت آسان ہے۔ کھلاڑیوں کو بورڈ کی طرف سے آمدنی کے علاوہ بونس، ملکی و غیرملکی لیگز میں حصہ لینے کی صورت میں بھاری معاوضے، پرکشش مراعات ملنے کے بعدبہت سے کرکٹرز فرش سے اٹھ کر عرش پر پہنچ گئے۔لیکن ایک پاکستانی کرکٹر ارشد خان کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعداپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیےآسٹریلیا کے شہر سڈنی میںٹیکسی چلانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک بھارتی شخص کی جانب سے انکشاف کیا گیاتھا کہ پاکستانی کرکٹر ارشد خان مشکل مالی حالات کے باعث آسٹریلیا میں ٹیکسی چلا کر گزر بسر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ان کا شمار ملک کے بہترین آف اسپنرزمیں ہوتاتھا جنہوں نے اہم ٹورنامنٹس میں اپنی بالنگ سے پاکستان کی فتح میں اہم کردار ادا کیاتھا۔ انہیں 1997-98میں پہلی بار ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں کھلایا گیا، اسی سیزن میں انہوں نے ڈھاکا میں منعقد ہونے والی ایشین چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کوجیت سے ہم کنار کرایا تھا۔اپنے کیریئر کے دوران انہوں نے 9ٹیسٹ اور58ایک روزہ میچز کھیلے۔ 2005میں انہوں نے بھارت کے خلاف ہوم سیریز میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا جب کہ 2006میں کیریئر کےآخری میچ میں سچن ٹنڈولکر کی وکٹ حاصل کی -

کرکٹ کو خیرباد کہنے کے بعد وہ گم نامی کی زندگی گزار رہے تھے اورپاکستان کرکٹ بورڈ یا کسی کرکٹر نے ان کی خبرگیری کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جب کہ ذرائع ابلاغ کی جانب سے بھی انہیں نظر انداز کردیا گیا تھا۔ چند ماہ قبل سوشل میڈیا پر ایک بھارتی شہری گنیش کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ پاکستانی کرکٹر ارشد خان مشکل مالی حالات کے باعث آسٹریلیا میں ٹیکسی چلا کر گزر بسر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اس نے بتایا کہ گزشتہ دنوں وہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ابر ٹیکسی میں بیٹھ کر جا رہا تھا جب ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ اس نے بات چیت شروع کی تواس کے بھارت سے تعلق کا سن کر اس نے کہا کہ اس کا تعلق پاکستان کے شہر پشاور سے ہے اور آسٹریلیا کے دارالحکومت سڈنی میں رہائش پذیر ہے۔ وہ کئی بار بھارت کے شہر حیدرآباددکن جا چکا ہے جہاں وہ انڈین کرکٹ لیگ میں لاہور بادشاہ کی نمائندگی کرتا رہا ہے۔ بھارتی شہری کے بیان کے مطابق، جب اس نےٹیکسی ڈرائیور کا نام معلوم کیا ا اور اس کا چہرہ غور سے دیکھا تو وہ یہ جان کر دنگ رہ گیاکہ مذکورہ ٹیکسی ڈرائیور سابق پاکستانی کرکٹر ارشد خان تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کااس خبرکے بارے میں کہنا ہے کہ بھارتی شہری کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی مذکورہ خبر پاکستان کے خلاف محض پرو پیگنڈہ ہے، سابق قومی کرکٹرآسٹریلیا میں خوش حال زندگی گزار رہے ہیں، سڈنی جیسے مہنگے شہر میں ان کا اپنا گھر موجود ہےاوران کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں، انھوں نے کئی گاڑیاں خریدی ہوئی ہیں جنھیں کرائے پر چلایا جاتا ہے، ان کی باقاعدہ رجسٹرڈ کمپنی ہے، ساتھ وہ لیول تھری کوچنگ کورس بھی کر رہے ہیں۔ گزشتہ ورلڈکپ کے دوران کئی قومی کرکٹرز سڈنی میں میچ کے دوران، ان کےمہمان بنے تھے۔ گنیش کی خبر یا پی سی بی کی وضاحت میں کتنی سچائی ہے، اس سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ سابق قومی کرکٹر غیر ملک میں ٹیکسی چلارہے ہیں۔

طاہر شاہ
ارشد خان سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبر وں کو تو کرکٹ حکام نے بھارتی پروپیگنڈا قرار دے دیا لیکن کرکٹ کے سابق کوچ طاہرشاہ کے بارے میں وہ کیا کہیں گے جو ان کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کے بعدایڑیاں رگڑتے ہوئے مرنے پر مجبور ہیں۔انہوں نے اپنی کوچنگ سے پاکستان کرکٹ کو پانچ ہزار سے زائد کرکٹرز کا تحفہ دیا۔ڈومیسٹک میچز میں انہوں نے تین اہم ریکارڈ قائم کیے ۔ ایل سی سی اے کی جانب سے راولپنڈی کے خلاف میچ میں انہوں نے 19چھکے لگانے کا ریکارڈ بھی قائم کیا تھا۔ ملک کا نام روشن کرنے والا یہ کوچ برین تھسٹ کی بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھرنے کے لیے کوشاں ہے۔ایک بینک کی نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں سےملنے وا لی قلیل سی پنشن سے اپنے بچوں کی کفالت بھی کر رہا ہےجب کہ بیماری کے بھاری اخراجات سے پریشان ہے۔ طاہر شاہ کبھی کرکٹ میں اپنے پانچ ہزار سے زائد شاگردوں کو یاد کرتا ہے تو کبھی اپنے کارناموں کی ٹرافیوں، شیلڈز اور سرٹیفکیٹ کو دیکھتا ہے۔ طاہر شاہ 1969ء سے لے کر اب تک کرکٹ کے کھیل سے کسی نہ کسی طور پر وابستہ رہےہیںایک قومی بینک سے بطور کرکٹر پریس لائژن اورپبلک ریلیشن افسر کی حیثیت سے1997میں میڈیکل گراؤنڈ پر ریٹائر ہوئے اور ان کوپراویڈنٹ فنڈ و دیگر مدات کی صورت میں رقم ملنے کے علاوہ 4150 روپے پنشن مقرر کی گئی جو اب تک اتنی ہی ہے۔طاہر شاہ اپنی بیماری میں بارہ لاکھ سے زائد خرچ کر چکے ہیں اور اب ان کے پاس علاج کے لیے مزید رقم باقی نہیں بچی۔ انہوں نے اپنے شاگرد، مصباح الحق کی طرف سے دیئے گئے ورلڈ کپ کے یادگاری اور اعزازی شرٹس اور بلے نیلامی کے لئے پیش کر دیئے ہیں۔طاہر شاہ کی بہن کینسر کے مرض میں دنیا چھوڑ گئی ، والد بھی گردوں کے کینسر کی وجہ سے زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ، طاہرشاہ خود سخت بیمار ہیںلیکن ان کی جمع شدہ پونجی بہن و والد کے علاج معالجے پر خرچ ہوچکی ہے ، اور اب وہ پائی پائی کو کا محتاج ہیں۔ لاہور ریجن کرکٹ کے سربراہ خواجہ ندیم احمد نے طاہر شاہ کی مدد کی مگر انہیں کوئی مستقل ذریعہ آمدنی درکار ہے ، جس کی بدولت وہ اپنی بیماری اورمعاشی حالات سے لڑسکیں۔

ہاکی اولمپئن افتخار احمد
گزشتہ دو عشرے سےملک میں ہاکی کا کھیل رو بہ زوال ہےجس کی وجہ سے اس کے کھلاڑی بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے،افتخار احمد کا شمار ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑیوں میں ہوتا تھا جو لیفٹ فل بیک کی پوزیشن پر کھیلتے تھے۔ 70اور 80کےعشرے میں انہوں نے پاکستان کی جانب سے کئی اہم ٹورنامنٹس میں حصہ لیا اور نمایاں کارکردگی دکھائی۔ 1972میںمیونخ اولمپک کے فائنل میچ میں پاکستان ہاکی ٹیم کا مقابلہ مغربی جرمنی کی ٹیم سے ہوا جس میں ریفری کے متنازع فیصلوں کی وجہ سے جرمنی کی ٹیم فاتح رہی ۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے اس پرسخت ردعمل کا اظہار کیا تھا جس پر قومی ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں پر بین الاقوامی میچوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی تھی، ان میں افتخار احمد بھی شامل تھے۔ اس واقعے کے بعدان میں سے کئی کھلاڑیوںکوپاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سےنظر انداز کیا جاتا رہا۔ افتخار احمد کو بھی بہت کم کھیلنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے انہیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینا پڑی۔ ہاکی کو خیر باد کہنے کے بعد وہ مالی مشکلات کا شکار ہوگئے، انہیں کوئی دوسرا کام نہ ملا تو اہل خانہ کا پیٹ پالنے کی خاطر موچی کا پیشہ اختیار کیا۔ ان دنوں وہ ایبٹ آباد کی ایک سڑک پر موچی کا ٹھیہ لگا کر ان ہاتھوں سے جن سے وہ ہاکی پکڑ کر مخالف ٹیموں کے لیے پریشانی کا باعث بنے رہتے تھے، لوگوں کے جوتے اور چپلوں کی سلائی کرتے دیکھے جاتے ہیں۔

سابق ہاکی اولمپئن زاہد شریف
زاہد شریف کا شمار بھی پاکستان ہاکی کےا ن کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنےکھیل سے ملک و قوم کا نام روشن کیا لیکن جب وہ خود رو بہ زوال ہوئے تو اپنے میڈلز تک بیچنے پر مجبور ہوگئے۔قومی ہاکی ٹیم کی طرف سےکھیلتے ہوئے بے شمار اعزازات حاصل کرنےوالے سابق اولمپئن زاہد شریف نے چند ماہ پیشتر، جب میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے، ان سے اپیل کی تھی کہ وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اور بے روزگار ہیںاپنے میڈلز بیچ کر کاروبار کرنا چاہتے ہیں، میاں نواز شریف میرے میڈلز خریدلیں۔زاہد شریف نے 1987سے1991تک 73ملکی و بین الاقوامی میچوں میں سینٹر فارورڈ اور لیفٹ ان کی پوزیشن پر کھیلتے رہے۔ اپنی غیر معمولی ڈربلنگ تیکنیک کی وجہ سے معروف تھے۔زاہد شریف نے چیمپئینز ٹرافی،ورلڈ کپ ،اولمپکس اور ایشین گیمز میں حصہ لیا۔1989میں کینیڈا میں ہونے والے جونئیر ہاکی ورلڈ کپ میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 1988کی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کو چاندی کا تمغہ جتوانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1989میں بھارت میں منعقد ہونے والے اندار گاندھی گولڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں حصہ لیا۔ وہ غصہ ور طبیعت کے مالک تھے، ایک میچ کے دوران ریفری سے بدتہذیبی کا مظاہرہ کرنے کی پاداش میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے ان پر تمام اقسام کی ہاکی کھیلنے پر چھ ماہ کی پابندی عائد کی گئی۔ 1991میں کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ لاہور میں علامہ اقبال ائیرپورٹ پر ڈپٹی اسٹیشن منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ فروری 2015میں انسداد منشیات فورس نے انہیں ایک مسافر کو منشیات سے بھرا بیگ پکڑاتے ہوئے گرفتار کیا جس کے بعد وہ نوکری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ قومی ہاکی ٹیم کی جانب سے کھیلے جانے والے تمام بین الاقوامی میچز میں ان کافتح گر کردار رہا ہے۔جس ملک کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے زاہد شریف نے جان توڑ کوششیں کیں ،وہاں ان کی کسی نے قدر نہیں کی۔اپنی بیماری اور اہل خانہ کا پیٹ بھرنے کی خاطر انہیں میڈیا کے ذریعے اعلان کرنا پڑا کہ وہ اپنے درجنوں بین الاقوامی تمغے، جن میںعالمی کپ، چیمپئنزٹورنامنٹس کی ٹرافیاں،اولمپکس اور ایشیا کپ جیسے اہم تمغے بھی شامل ہیں ،کو فروخت کرنا چاہتے، لیکن ان کی اپیل پر کسی جانب سے بھی ان کی مدد کے لیے دست تعاون دراز نہ کیا گیا۔

فٹ بالر غلام سرور ٹیڈی
پاکستان میں فٹ بال کا کھیل تو عالمی سطح پر ختم ہوچکا ہے،صرف علاقائی میچوں کا انعقاد ہوتا ہے۔اس کھیل کے عروج کے دور میں بھی پاکستانی فٹ بالرز مالی مشکلات کا شکار تھے جب کہ آج کے دور میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ غلام سرور ٹیڈی کا شمار قومی فٹ بال ٹیم کے نامور فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔ وہ 1976سے1978تک قومی فٹ بال ٹیم کے کپتان رہے ہیں۔ آج وہ سندھ اسپورٹس بورڈ میں کوچ کی حیثیت سے ملازمت کررہے ہیں جہاںسے انہیں 7000روپے ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے۔ وہ قومی ائیر لائنز کی فٹ بال ٹیم کا حصہ تھے اور مڈفیلڈر کے طور پر کھیلتے تھے جہاں سے انہیں معقول معاوضہ ملتا تھا۔ 1998میں ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں پراویڈنٹ فنڈ کی مد میں جتنی بھی رقم ملی وہ سب گھر میں خرچ ہوگئی، اب انہیں وہاں سے بھی صرف سات ہزار روپے پنشن ملتی ہے۔ دونوں جانب سےملنے والی رقم سے وہ اہل خانہ کے علاوہ اپنے دو مرحوم بھائیوں کے بچوں کی بھی کفالت کررہے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بے پناہ مالی پریشانوں کا سامنا ہے۔ 1969سے1985تک فٹ بال کے کھیل میں غلام سرور کا طوطی بولتا تھا۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے ایران، روس ، ترکی ، سری لنکا ، چین، ہانگ، سعودی عرب، بنگلہ دیش اور افغانستان میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹس میں شرکت کی۔ 1970میں جب افغانستان میں سردار داؤد حکمراں تھے، انہوں نے دو مرتبہ جشن کابل کے سلسلے میں منعقد ہونے والے عالمی فٹ بال ٹورمنٹس میں حصہ لیا، لیکن آج وہ مالی تنگ دستی کا شکار ہیں۔ ان کے چار بیٹے ہیں لیکن وہ سب بے روزگار ہیں۔

فٹ بالر موسیٰ غازی
قومی فٹ بال ٹیم کے ایک اور کپتان موسیٰ غازی جنہوں نے اپنے کیریئر کے دوران ہمیشہ ملک کی عزت و وقار کو ترجیح دی تھی، ریٹائرمنٹ کے بعد تمام زندگی مالی پریشانیوں کا شکار رہےاور بالآخر اسی عالم میں دنیا سے کوچ کرگئے۔ وہ 1940میں کلکتہ میں محمڈن اسپورٹنگ کلب کی جانب سے کھیلتے رہے، پاکستان بننے کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور پاکستان کی فٹ بال ٹیم کی طرف سےلیفٹ ونگر کے طور پر کھیلتے رہے۔1950میں بھارتی حکومت کی جانب سے انہیں پرکشش مراعات کے ساتھ شہریت کی پیشکش موصول ہوئی جسے انہوں نے ٹھکرادیا۔ ۔1960کے عشرے میں قومی ٹیم کی قیادت کی، اس زمانے میں پاکستان فٹ بال ٹیم ایشیا میں تیسرے درجے پر فائز ہوگئی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بھی ناقدری کی شکار ہوگئے۔ مسلسل بے روزگاری کی وجہ سے مالی حالات انتہائی ابتر رہے۔ اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے موٹے کام کرتے رہے۔ 2003میں مفلوک الحالی کے عالم میں ان کا انتقال ہوگیا۔

سائیکلسٹ محمد عاشق
پاکستانی سائیکلسٹ محمد عاشق جنہوں نے پاکستان کی جانب سے اس کھیل کے کئی بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا تھا، آج کسمپرسی کے عالم میں لاہور کی سڑکوں پراپنے میڈلز رکشہ پر لٹکاکر روزی کما رہے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بانی پاکستان کی دل چسپی کی وجہ سے 1947میں پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا، جس کے پہلے صدر ، قائد اعظم محمد علی جناح خود تھے1960-70کی دہائی تک اس کھیل کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی، صدر اور وزرائے اعظم کی جانب سے سائیکلسٹوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، اس دور میں پاکستانی کھلاڑیوں نے اولمپکس سمیت دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں بھی حصہ لیا لیکن 1970ء کے بعد اس کھیل کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔1960ء اور 1964ء میں پاکستانی سائیکلسٹ محمد عاشق نے ٹوکیو اور روم اولمپکس مقابلوں میں اپنےملک کی نمائندگی تھی۔ سائیکلنگ کیریئر کے دوران انہوں نے ملکی و بین الاقوامی مقابلوںمیںحصہ لے کر70سے زائدسونے، چاندی اور کانسی کے تمغے حاصل کیے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں چار مرتبہ قومی ہیرو کے ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ وہ پاکستان ریلوے میں ملازم تھے ،لیکن ایک سائیکل ریس کے دوران زخمی ہونے کے بعد ان کی کارکردگی متاثرہوئی ،جسے جواز بنا کرمحکمہ کی طرف سے انہیں ملازمت سےفارغ کردیا گیا۔ بے روزگاری کی وجہ سے ان کی ساری جمع پونجی ختم ہوگئی۔محمدعاشق کے پاس ایک ویگن اور ایک ذاتی مکان بھی تھا، مگراہلیہ کی بیماری اور مالی تنگ دستی کے باعث انہیں دونوں املاک فروخت کرنا پڑیں۔ اب وہ گزشتہ آٹھ سال سے رکشہ چلا رہے ہیںجس سے روزانہ دو سےتین سو روپے کی آمدنی ہوتی ہے جس سے مکان کے کرائےسمیت روزمرہ کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہو پاتے ہیں۔انہیںسواری کے انتظار میں کئی کئی گھنٹے سخت گرمی اورسرد موسم میں کھڑا ہنا پڑتا ہے۔ان کے رکشے پر میڈلز کے ساتھ جو پوسٹر لگے ہیں اس میں ان کے کھیلوں کی دنیا میں خدمات کا ذکر ہے۔ اب ان کی عمر 85سال ہوگئی ہے اور انہیں آرام کی سخت ضرورت ہے لیکن حکومتی عدم توجہی کے باعث وہ اس عمر میں بھی رکشہ چلانے پر مجبور ہیں۔پاکستان کے اس عظیم سائیکلسٹ کی خواجہ ناظم الدین سے لے کر ایوب خان ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف سمیت ہر فوجی اور سول حکمران کے ساتھ بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین تصاویرموجود ہیں لیکن موجودہ حکم رانوں نے ان کی قومی خدمات کو یکسر فراموش کردیا ہے۔

 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 191155 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.