کافی پرانی بات ہے. ڈپٹی کمشنر نے بااختیار لوگوں کی
موجودگی میں انتہائی رعونت سے میری طرف دیکھا.وہ کسی استاد کی طرف سے اس
طرح کی انکار کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے.
میں نے ان سب کو احترام کیساتھ مخاطب کرتے ہوئے عرض کیا. میں آپ کا ملازم
ہوں نہ مجھے ڈائس پر چڑھنے کا شوق ہے اور نہ ہی ان لہجوں کا عادی ہوں کہ ہر
پانچ منٹ بعد ڈکٹیشن دی جائے. آپ کی ریکوسٹ پر آیا ہوں. میں اسٹیج سے ان
لوگوں کے نام نہیں لے سکتا جن کی فہرست آپ سب نے مجھے تھمادی ہے.ان کی
تعلیم و تربیت کے لیے کوئی خدمات نہیں.
اگر آپ حضرات کو واقعی تعلیم کی قدر ہے تو یہ ایوارڈ ان لوگوں کو دینا
چاہیے جو اساتذہ ہیں جنہوں نے نامساعدہ حالات میں تعلیم کی آبیاری کی ہے.
اور فوراً پروگرام شیڈول کی فائل ان کی طرف سرکا دی.
پھر یوں ہوا کہ پروگرام کے اصل منتظم اعلی نے کہا
حقانی صاحب بیٹھ جائیں . ناراض ہونے کی ضرورت نہیں . نام لکھ کر دیں. ہم
صرف انہی اساتذہ کو ایوارڈ دیں گے جن کا نام آپ بتائیں گے.
چار نام دیے. چاروں میرے استاد تھے. الحمداللہ!
بطور استاد پانچواں ایوارڈ مجھے بھی دیا گیا.
اگر استاد اپنے اساتذہ کے لیے یوں اسٹینڈ لے گا تو کل آپ کی بھی توقیر ہوگی.
اور انتظامی آفیسران بھی آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے. اگر ان کے ساتھ
سیلفیاں نکال کر فیس بک میں دیں گے تو پھر یہی ہوگا جو ہو رہا ہے.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|