۱۱ جولائی کو اخبار جنگ نے لاہور
کے نمائندے کے حوالے سے ایک خبر شائع کی جس کے مطابق حقیقی کے رہنما آفاق
احمد اور پیپلز پارٹی کے ذوالفقار مرزا کے درمیان رابطہ کرانے میں جماعت
اسلامی لیاقت آباد کے سابق ناظم ڈاکٹر پرویز نے اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر
پرویز نے یہ بھی بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق ان دونوں رہنماوں کی
چوتھی ملاقات ہے۔
|
|
یہ خبر جنگ اردہ سرچ ایبل میں باآسانی ڈھونڈی جا سکتی ہے۔
اس خبر کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کے جماعت اسلامی جو کہ پچھلے ۴۰ سال سے
پیپلز پارٹی کو وطن دشمن اور پاکستان کی تقسیم کی سازش میں حصّہ دار سمجھتی
ہے۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی بد عنوانیوں کے خلاف وقتاً
فوقتاً بیانات بھی جاری کرتی رہتی ہے، کیونکر اس کا ایک رکن پیپلز پارٹی کے
کسی ایسے رہنما سے رابطہ کر سکتا ہے جو کہ سندھ میں نفرت کی سیاست کرنے کے
باعث پہلے ہی بدنام ہے۔ چہ جائیکہ ایسے بدنام رہنما کی کسی ایسے عمل میں
معاونت کرنا جس سے کراچی کے پہلے ہی کشیدہ ماحول میں شعلے بھڑک اٹھنے کے
امکانات مزید بڑھ جائیں۔
آفاق احمد جن کی بذات خود شناخت ایم کیو ایم سے زیادہ مختلف نہیں ہے بلکہ
ایم کیو ایم تو اب پاکستان کی مرکزی سیاست کے دھارے میں شامل ہونے کے لئے
بےتاب ہے جبکہ آفاق احمد کی شناخت آج بھی ایک مخصوص قومیّت کے نعرے موسوم
ہے۔ میں اب تک اس گتھی کو سلجھانے سے قاصر ہوں کہ جماعت اسلامی کے نظریاتی
کارکن نے ان دونوں قومیت پرستوں کے درمیان رابطے کے فرائض کیونکر سرانجام
دئیے؟
یہ امر بھی تعجب خیز ہے کہ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر پرویز نے بتایا کہ
دونوں رہنما ان کے پرانے دوست ہیں۔ ہم اس بات پر شک کی گنجائش نہیں دیکھتے
کیوں کہ اگر وہ دونوں ان کے دوست نہ ہوتے تو اس طرح کے اہم رابطے کے
لئےڈاکٹر صاحب پر اعتبار نہ کرتے۔غالباً اس ملاقات سے پہلے باہمی اعتماد کی
بحالی ضروری تھی کہ جہاں ایک طرف پیپلز پارٹی اس جن کو بوتل سے باہر نکالنے
کا انجام جانتی ہوگی اور اس سے پہلے مناسب ضمانتیں حاصل کرلینا چاہتی ہوگی۔
اس ہی طرح دوسری طرف آفاق احمد بھی اپنی رہائی کی اصل قیمت جاننے سے پہلے
کوئی فیصلہ کرنے میں متامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہ دونوں فریق اپنے سابقہ
تجربوں کے باعث ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو یقیناً تیار نہ ہوں گے اور
ایسے میں کسی ضامن کی ضرورت پڑ سکتی ہے جس پر دونوں فریق بھروسہ کر سکیں۔
ممکن ہے کہ پرانی دوستی کے باعث ڈاکٹر صاحب ان دونوں کے لئے قابل اعتبار
ضمانت کنندہ ثابت ہو سکتے ہوں۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ عمل جماعت اسلامی کی سرپرستی میں
اس کی مرضی سے کیا گیا ہے؟
اس سلسلے میں ہم جماعت اسلامی سے حسنِ ظن رکھتے ہوئے ان کی جاری کردہ تردید
کو مان لیں گے [کیوں کہ واضح تردید کو نہ ماننا فتنہ پردازوں کا کام ہے جو
جلتی ہوئی آگ کو کسی صورت ٹھنڈا ہوتے نہیں دیکھ سکتے ] جس میں انہوں نے خبر
میں مذکور کسی بھی رابطے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور ڈاکٹر پرویز سے اس
سلسلے میں وضاحت طلب کی ہے۔ ہم جماعت اسلامی پر کسی قسم کا الزام لگانے کے
بجائے ان کی طرف سے مکمل تفصیلات کا انتظار کریں گے۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ڈاکٹر پرویز کا انفرادی فعل تھا؟
یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہوگا کہ جماعت اسلامی کے ترجمان نے اس
واقعے میں جماعت اسلامی کے ملوّث ہونے کی تردید کردی ہے مگر ابھی تک ڈاکٹر
پرویز کا تردیدی بیان جاری نہیں ہوا۔ یہ بات بھی محلِ نظر رہنی چاہئے کہ
جماعت اسلامی یا ڈاکٹر پرویز نے اب تک اس خبر کے لئے رپورٹر کو چیلینج نہیں
کیا۔ جبکہ جماعت اسلامی نے ڈاکٹر صاحب سے وضاحت طلب کر لی ہے ۔
اگر ہم اس تمام واقعے کو ڈاکٹر پرویز کا انفرادی فعل بھی مان لیں تو ہمیں
سوچنا پڑے گا کہ اس واقعے میں ملوّث دونوں رہنما پچھلے ۲۵ سال سے قومیّت کی
سیاست کر رہے ہیں تو آخر کار یہ ڈاکٹر صاحب کے دوست کس طرح ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹر صاحب کی جماعت اور ان دونوں رہنماؤں کی سیاست ایک دوسرے کے بالکل
مخالف ہے تو پھر ان کی دوستی میں قدر مشترک کیا ہے؟ ذوالفقار مرزا تو
زرداری صاحب کے جاں نثار دوستوں میں شامل ہیں ان سے ڈاکٹر صاحب کی دوستی چہ
معنی دارد؟
آفاق احمد تو ایم کیو ایم کے اوّلین رہنماؤں میں سے تھے جن کے خلاف جماعت
اسلامی ہمیشہ الزامات لگاتی چلی آئی ہے کہ وہ قتل، دہشت گردی اور دوسرے
جرائم میں ملوّث رہے ہیں۔ کیا یہ بات ڈاکٹر صاحب سے پوشیدہ تھی؟
کیا ڈاکٹر صاحب یہ نہیں جانتے تھے کہ پیپلز پارٹی اور آفاق احمد کا اتحاد
کراچی میں کتنے ہی بےگناہوں کی ہلاکت باعث بنے گا اور عصبیت کی یہ جنگ ملک
کے دوسرے حصوّں میں بھی اپنا اثر دکھا سکتی ہے؟ کراچی میں ایم کیو ایم کی
برتری کو نقصان پہنچانے کے لئے کھیلا جانے والا یہ کھیل پاکستان کو کس طرح
نقصان پہنچا سکتا ہے شائد ڈاکٹر صاحب کو اس کا مکمل اندازہ نہ ہوا ہوگا۔ اس
کا سرسری اندازہ لگانے کے لئےسندھ میں کمشنری نظام اور پرانے پولیس نظام کی
بحالی صرف ایک جھلک ہے۔ ان دونوں فرسودہ نظاموں کی بابت اتنا ہی عرض کروں
گا کہ جماعت اسلامی خود بھی ان کی مخالف ہے۔ ان دونوں انتظامات نے کراچی کو
اس آزمودہ نظام سے محروم کر دیا جس کے تحت کراچی نے پچھلے چند سالوں میں بے
مثال ترقی کی تھِی اور نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک سے دادوتحسین
وصول کی تھی۔
اس مضمون میں ہم نے کچھ سوال اٹھائے ہیں تاکہ آپ سوچیں اور اپنے وطن کی
بہتری کے لئے کوئی مثبت عمل اختیار کرنے کے راہ ڈھونڈ سکیں۔ ہم ڈاکٹر صاحب
پر بھی کسی الزام تراشی سے گریز کرتے ہوئے ان کی طرف سے اس خبر کی تردید کا
انتظار کریں گے اور ان کی تردید مان بھی لیں کیوں کہ ماننے میں امن ہے اور
نہ ماننے میں فتنہ۔ اور میرے رب کا فرمان ہے کہ فتنہ قتل سے بھی شدید تر
ہے۔
تبصرہ نگاروں سے درخواست ہے کہ اپنے تبصروں میں شائستگی، دلائل اور معقولیت
کو مدنظر رکھیں۔ کفر کے فتووں، تعصب کے نعروں اور پاکستان دشمنی کے الزامات
سے کوئی فائدہ نہ ہوگا لہٰذا یہ وقت کسی معقول بات کہنے میں صرف کیجئے گا
جس سے ہم سب کوئی اچھی بات سیکھ سکیں۔ جزاک اللہ فی الدّارین |